• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • یہود ، مسلمان اور تیسری عالمی جنگ (3،آخری حصّہ)-محمد سعید ارشد

یہود ، مسلمان اور تیسری عالمی جنگ (3،آخری حصّہ)-محمد سعید ارشد

انگلینڈ سے تعلقات بڑھانے کے ساتھ ساتھ صیہونی تحریک نے ترکی میں ینگ ترک (Young Turk)نامی تحریک کو بھی سپورٹ کرنا شروع کردیا جن کا مقصد خلافت کا خاتمہ تھا۔ 1908ء میں ینگ ترک نےپاور حاصل کرنے کے بعد صیہونیوں کو خوش کرنے کیلئے فلسطین میں یہودیوں کے زمین خریدنے پر عائد پابندی ختم کردی۔ ایک دفعہ پھر سے یہودیوں نے بڑی تعداد میں فلسطین میں زمینیں خریدنا شروع کردی۔

1914ء میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوگیا۔ نومبر 1914ء میں برطانیہ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف جنگ کا اعلان کردیااور 2 مہینے کے اندر اندر صیہونیوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے برطانوی پارلیمنٹ میں فلسطین میں ایک آزاد یہودی ریاست کا میمورنڈم پیش کردیا گیا۔ 2 نومبر 1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفورڈ نے انگلینڈ میں مقیم ایک بڑے یہودی سرمایہ دار روتھ شیلڈ کو خط لکھ کر اسرائیل کے قیام میں برطانیہ کی مدد کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کو آج بالفورڈ ڈکلریشن کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ 9 نومبر 1917ء کو یہ خط برطانوی پریس میں بھی شائع ہوگیا۔

1918ء میں پہلی جنگ عظیم ختم ہوگئی ۔ خلافت عثمانیہ کو اس جنگ میں شکست ہوگئی اور فلسطینی علاقہ برطانیہ کے پاس چلاگیا۔ اگلے 2 دہائیوں میں ایک لاکھ سے زیادہ یہودیوں نے فلسطین میں ہجرت کی۔ برطانیہ کی فوج فلسطین میں موجود رہی مگر اس کی کاروائیاں صرف ان عرب عسکریت پسند گروپوں کے خلاف رہی جو یہودیوں کے فلسطین میں آکر بسنے کے خلاف تھے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں ہونے والے ہولوکاسٹ کی وجہ سے یورپ اور جرمنی سے یہودیوں ایک بہت بڑی تعداد فلسطین کا رخ کرنے لگی ۔ اُن کے فلسطین میں آنے کی وجہ سے مقامی عربوں کے ساتھ ان کی لڑائیاں عام سی بات ہوگئی۔ برطانیہ فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا اور نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ نے اسرائیل اور فلسطین دو علیحدہ ریاستیں کے قیام کا اعلان کردیااور 14مئی 1948ء کو اسرائیل کا قیام عمل میں آگیا۔

بیسویں صدی آتے آتے یہودی یورپ میں طاقتور ہونا شروع ہوگئے تھے ۔ سارابنکنگ سسٹم ان کے کنٹرول میں تھا ۔ اپنے سرمائے اور میڈیا میں بے تحا شا اثر و رسوخ کی وجہ سے صیہونیوں نے ہولوکاسٹ کو بنیاد بنا کر اپنے حق میں خوب پروپیگنڈہ کیا ۔ اسی پروپیگنڈہ کی بنیاد پر انہوں نے مغربی دنیا میں خوب ہمدردیاں سمیٹی جس کی وجہ سےان لوگوں نے مغربی دنیا میں ایسے قوانین بنالیئے جن میں ان کے خلاف بات کرنا جرم بن گیا۔ یورپ جو صدیوں تک یہودیوں پر ظلم کرتا آیا تھا ، اس نے اپنا احساس جرم مٹانے کیلئے اسرائیل کے ہر غیر قانونی اور غیر انسانی کام میں اس کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔

اسی لئے 1948ء میں پہلی اور 1967ء میں دوسری عرب اسرائیل جنگ میں یورپ اور امریکہ نے اسرائیل کی خفیہ اور اعلانیہ دونوں طریقے سے مدد کی۔ عرب جو گولی سے لیکر جنگی جہاز تک امریکہ اور یورپ پرمنحصر تھے ، یہ جنگ ہار گئے نہ صرف یہ جنگ ہار گئے بلکہ اپنے علاقے بھی کھودیئے اور 1967ء میں تو یروشیلم بھی دو ہزار سال بعد یہودیوں کے پاس چلا گیا۔ اب ان کا اگلا ہدف مسجد اقصیٰ کو منہدم کرکے وہاں ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کرنا ہے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق پھر ان کا مسیحا دینا میں آئے گا اور ان کی عالمی حکومت قائم کرے گا۔

اسرائیل نے دنیا بھر کے یہودیوں کو اپنے ملک میں بسانے کیلئے بہت پاپڑ بیلے ہیں ،انہیں روزگار ،اچھی تعلیم اورسب سے بڑھ کر سیکورٹی کی گارنٹی دی تھی ۔ مگر حماس کے 7اکتوبر کے حملے کے بعدسے حالات یکسر تبدیل ہوگئے ہیں ۔ حماس کے حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کے عام شہریوں پر انسانیت کو شرمندہ کردینے والےفضائی حملے کئے ہیں اور غزہ کے لوگوں پر پانی اور بجلی تک بند کر رکھی ہے۔ سخت سردی میں لوگ کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں ۔ اسرائیل اس حملے کو جواز بناکر غزہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے جس کا اظہار خود اسرائیل کا وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کر چکاہے۔ اسرائیلی فوج فلسطینیوں کا حوصلہ توڑنے کیلئےغزہ کے ہسپتالوں تک کو تباہ کر چکی ہے۔ اب تک 21،000 کے قریب فلسطینی اسرائیل کے ظلم کا شکار ہوچکے ہیں ۔

اسرائیل کے اس ظلم کی وجہ سے سارا یورپ سڑکوں پر ہے۔ یورپی اور امریکی حکومتیں چاہے اسرئیل کے ساتھ کھڑی ہے مگر عوام فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔ عوام کے روزکے احتجاج کی وجہ سے مغربی حکومتیں بھی کھل کر اسرائیل کی حمایت نہیں کر پارہی اور اسرائیل بڑی تیزی سے یورپ میں اپنی حمایت کھوتا جارہا ہے۔ اسرائیل کی ٹوٹل آبادی 90لاکھ ہے جن میں بہت بڑی تعداد باہر سے آئے لوگوں کی ہے جو یورپ یا روس وغیرہ سے آئے ہیں ۔ ان لوگوں کے پاس دوہری شہریت ہے ۔ 7 اکتوبر کے حملے کے بعد سے 5 لاکھ سے زیادہ اسرائیلی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں ، اسرئیل کی ٹورازم زیرو ہوچکی ہے، اسرئیلی کرنسی مسلسل گر رہی ہے اور ڈیرھ لاکھ سے زائد لوگوں نے اسرائیل میں بیروزگاری الاؤنس کیلئے خود کو رجسٹر کروالیا ہے۔

دوسری طرف 2 مہینے سے زائدکا وقت گزرچکاہے مگر اسرئیل غزہ کی جنگ نہیں جیت سکا۔ روزانہ کی بنیاد پر اسرائیل کے ٹینک تباہ ہورہے ہیں اور فوجیوں کی لاشوں کےتابوت واپس اسرئیل جارہے ہیں ۔ دوسری جانب حزب اللہ سے بھی اسرئیل کی سرحدی کشیدگی جاری ہے اور یمن نے بھی اسرئیل کے بحری جہازوں کا راستہ بلاک کر رکھا ہے۔ اگر حزب اللہ اور یمن سے بھی اسرئیل کی جنگ شروع ہوجاتی ہے تو 10 سے 15 لاکھ لوگ مزید اسرئیل کو چھوڑ کر چلے جائیں گے ۔ بس ایک چھوٹی سی حساب کتاب کی غلطی مشرق وسطیٰ کو جنگ میں دھکیل سکتی ہےاور یہ جنگ تیسری عالمی جنگ کا نقطہ آغازبھی بن سکتی ہے ۔اور شاید یہ وہی آخری جنگ ہےجو یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف لڑنی ہے اور جس کی تیاری یہودی دہائیوں سے کررہے ہیں اور جس جنگ کا ذکر احادیث نبویؐ میں تواتر کے ساتھ ملتا ہے۔

“قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہود سے لڑیں گے ۔پھر مسلمان ان کو قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی کسی پتھر یا درخت کی آڑ میں چھپے گا تو وہ پتھر یا درخت بولے گا ، اے مسلمان! اے اللہ کے بندے !یہ میرے پیچھے ایک یہودی ہے ادھر آ اور اس کو مار ڈال سوائے غرقد کے درخت کے۔ کیونکہ یہ یہود کا درخت ہے” (صحیح مسلم)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں مگر ہم شاید ابھی خواب غفلت سے جاگنا نہیں چاہتے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply