جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان/2

جہاں کیلاشا بستے ہیں۔ جاویدخان/قسط1

مردان،مردوں کی سر زمین:۔
مردان خیبر پختون خوا کا ایک ضلع ہے۔ایک مضبوط تہذیب کے آثار اِس کے سینے میں دفن ہیں۔سکندر اعظم جیسا سر پھرا تو یہاں سے گُزرا ہی تھا۔مگر وسط ایشیا کے آوارہ مزاج قافلوں کے قافلے بھی ادھر سے گُزرے، کچھ نے یہیں پڑاؤ کیا ،تو نئے آنے والوں نے اُنھیں پیٹ کر آگے بھگا دِیا۔

مردان کامیدانی حصہ دریائے سوات اَور معاون ندیوں کی لائی ہوئی مٹی سے بنا ہے۔ جو پہاڑوں میں گھِرا ہے۔اِس میدان کے کھیتوں میں مکئی،جو اَور گنے کے رسیلے ٹانڈے کھیتوں میں سر اٹھائے آسمان کو دیکھ رہے تھے۔ مردان بازار کے  دائیں جانب  پہاڑیاں ہیں اَور بائیں طرف میدان ہے۔ یہ کتنا لمباہے گاڑی سے اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔اس پر پھیلے جا بہ جا کھتیوں پر دالیں،کماد اَور دیگر فصلیں بھی تھیں۔بازار اَور اِس سے ملحقہ گھر سیاسی اَور مذہبی طور پر تقسیم تھے۔ اِن گھروں پر لہراتے مختلف سیاسی اَور مذہبی تنظیموں کے پرچموں سے یہ تقسیم عیاں تھی۔

مردان گندھارا تہذیب کاحصہ رہا ہے اَور اس کا کُچھ حصہ اِس کی مٹی میں اَبھی تک دفن ہے۔مردان سے مراد مردوں کی سرزمین ہے یاپھر ڈھیر سارے مرد ہیں۔مردوں کی بہت ساری قسمیں گِنوائی گئی ہیں۔مثلاً مردان ِخُدا،مردان ِحُر اَور مرد میدان وغیرہ۔ صُوفیا کے نزدیک مرد وہ ہے جو اپنے نفس کے منہ  زور گھوڑے کوہمیشہ قابو میں رکھے۔نا  کہ وہ جس پر نفس سوار ی کرتا پھرے اَور وہ اس کے ہاتھوں بے بس ہوکر ہَوا و حرص کے جنگلوں میں بھٹکتا رہے۔یاپھر وہ جو خون آشام ندیاں پار کرکے مردانگی دِکھاتا پھرے مرد نہیں ہے۔مرد فارسی لفظ ہے۔اس زمین پر فارسی لہجے کی کب حکومت رہی ہو گی؟۔ اِس کے آثار دریافت کرنے ہوں گے۔ ہاں مردان بازار سے2320کلومیٹر کے فاصلے پر تخت بائی میں ایک خُوب صُورَت تہذیب کے کھنڈرات ہیں۔مگر اِن کا تعلق کِسی فارسی تہذیب سے نہیں ہے۔مردان کون سے مردوں کی سر زمین ہے؟۔اِس کے لیے یہاں کوئی بھی ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں تھا۔کیوں کہ گُڈو جتنے اَن تھک گاڑی بان ہیں۔وہ وقت کے حوالے سے اِتنے ہی اعلیٰ درجے کے کنجوس بھی ہیں۔گُڈو کی یہی خُوبی ہمیں منز ل کو وقت پرطے کرنے کی وجہ بنتی رہی ہے۔ورنہ کوئی بدنصیب ہی ہوگا جو راما نگر،نلتر جھیل،شیوسر اَوردِیوسائی کی گَردآلُود راہوں میں چلتے چلتے راہوں کو گُم نہ کردے۔پچھلے سفر میں عاصم نواز صاحب اَور گُڈو نہ ہوتے تو مَیں نے یہی کرنا تھا۔

مردان سے تخت بائی بتیس کلومیٹر ہے۔بُدھا کانروان یہاں چھت کھول کر برسا ہے۔تب ہی تو اس کے درو دیوار سے دھیان و گیان کی مہک آج بھی آتی ہے۔مرکزی شاہراہ سے چند میل کے فاصلے پر قدیم بُدھ خانقاہ کی باقیات ہیں۔

شیر گڑھ:۔
شیرھ گڑھ،مردان ہی کا ایک قصبہ ہے۔بھینس،گھوڑے کھُلے میدانوں میں چر رہے تھے۔جگہ جگہ جھونپڑے تھے اَور اِن کے اردگرد مویشی چر پھر رہے تھے۔خانہ بدوشی کی زندگی کو مَیں نے قریب سے کبھی نہیں دیکھا،مگر اِ س کی کشش میرے اَندر ہمیشہ موجود رہی ہے۔کنکریٹ کے خانہ خراب میں زندگی آسُودہ ہے یا نہیں مگر ان جھونپڑوں میں رہنے والوں نے دُنیا کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔کِسی سیانے کا قول ہے ۔ ؎
محلوں میں زندگی اُداس دیکھی،جھونپڑوں میں مُسکراتی دیکھی۔
خانہ بدوش یہاں جھونپڑوں کی ایک چھوٹی سی بستی بسائے ہُوئے تھے۔یقینایہ جھونپڑیاں اِن محلاتی سازشوں سے پاک تھیں۔ جنھوں نے عرصے تک انسانیت کو یرغمال بنائے رکھا اَور جہاں بھی کوئی محل آج موجود ہے۔سازش کی بو اُس محل میں گردش کرتی رہتی ہے۔

ماضی کی ایک سڑک:۔
مردان سے آگے سڑک کُشادہ،صاف اَورزیادہ مصروف ہے۔اس پر چھوٹی بڑی گاڑیاں سیرگاہوں کی طرف اَور پرانے آثار کوچلنے کے ساتھ ساتھ تجارتی سامان لادے بے دریغ دوڑتی رہتی ہیں۔بڑی بڑی فولادی دیوہیکل مشینیں اَور چھوٹی چھوٹی لَش پَش کاریں جن میں لش پش انسان بیٹھے ہوتے ہیں،اِس سڑک پر فرّاٹے بھرتی جاتی ہیں۔
اِس سڑک پر آپ سفر کرتے ہوئے قصداً بھٹکنا چاہیں تو بھٹک سکتے ہیں۔تاریخ کے خُوب صُورت نخلستان،سُنسان پہاڑ اِن پر سنگلاخ قلعے اَور اِن قِلعوں میں بسی دنیا،رتھ،تیر،بھالے اَور تلوریں۔آہنی لباس میں ملبوس لوگ تاریخ کے روشن ترین اَوراق جنھیں کوئی بھی پلٹنا چاہے تو پلٹ کر دیکھ سکتاہے۔
سائرس اَعظم،جس کی بیٹی آٹوسہ نے پہلا خط لکھنے کی بُنیاد ڈالی تھی۔سکندر اعظم،عظیم بُدھا،پاکیز ہ نروان میں ڈُوبے دل اَور کئی متوں کے پیروکار۔ہندوکُش کی اِن وادیوں میں اِن سب لوگوں سے مُلاقات ہو سکتی ہے۔تاریخ کے یہ کردار زبان حال سے ماضی کی صدیوں پر پھیلی داستانوں کے غماز ہیں۔

آپ کِسی دربان کی منت سماجت کرکے اَشوکا کے دربار میں جاسکتے ہیں۔یونان کے مہان یودھا سکندر اعظم کے کِسی قافلے میں سفر کرتے کرتے وادی سوات میں جانکلیں۔جہاں اُس نے ایک شہزادی سے شادی کی تھی۔وہ یہاں کے میدانوں،پہاڑوں میں بھٹکتا پھرا۔یدھ کیے پھر صرف یہاں سے نہیں صرف تینتیس سال کی عمر میں دُنیا سے ہی چلا گیا۔
ماضی کی سڑک پُر بیچ ہے اَور کئی طرح کے مرد اس کے پُربیچ رستوں پر لڑکھڑاتے پھرتے ہیں۔بلکہ مردوں کا اژدھام ہے۔اَکثر پر نفس کاگھوڑا سوار ہے اَور کُچھ نفس کے گھوڑے کو نکیل ڈالے خراماں خراماں چل رہے ہیں۔بہت سے اَیسے ہیں جو اپنے منہ  زور گھوڑوں کو نکیل ڈالنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔کُچھ اس کی منہ  زوریوں کے سامنے بے بس ہیں مگر کوئی طاقت انھیں اِس کے سامنے بار بار کھڑا ہُونے پر اُکسا رہی ہے۔

مالاکنڈ:۔
ایک چھوٹے سے بازار میں ہم پہنچے۔ذرا آگے دائیں طرف ایک دُودھیا آبشار پہاڑ سے اُمڈ اُمڈ کر نیچے آرہی تھی۔اس کے پانی میں جوش تھا۔یہ اپنے آبی جوش میں کئی کیوسک فُٹ پانی ایک ساتھ لے کر اُچھلتی ہُوئی نیچے گرتی ہے۔یہ منظردُور سے دیکھنے کے لائق ہے۔
بڑے زنگ آلُود فولادی پائپ اسی کے ساتھ لگے لگے نیچے ایک فولادی چکی کوگھمانے آتے ہیں۔یہ مالاکنڈ کا بجلی گھر ہے۔گوروں نے ماضی میں اِسے بنایا تھا۔دریاے سوات اِسے پانی مہیا کرتا ہے۔ماضی کی یادگاروں میں یہ بھی ایک یاد گار ہے۔
”جنگلی حیات ہمارا قومی ورثہ ہیں“
سڑک کنارے ایک کتبہ لگا تھا۔یہ محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی طرف سے لگایا گیاتھا۔یہاں ماضی میں چیتا جنگلی بکریاں،نایاب ہرن اَور پہاڑی بھیڑیں پائی جاتی تھیں۔چند سال قبل انہی مالاکنڈ کی پہاڑیوں میں ایک نایاب چیتا،کسی نامعلوم شخص کی بندوق کا شکار ہوگیا تھا۔جنگلات کی طرح جنگلی حیات بھی ہمارے ملک میں غیر محفوظ ہیں۔
ونسٹن چرچل یہاں برطانوی راج میں رہا۔ اس کی ”مالاکنڈ فیلڈ فورس“نامی کتاب اُنہی ایام کی یاد گار ہے۔ایک ”گُلزئی“ سردار کاخط ایک شام رجمنٹ کمانڈرکو ملا۔”ہمارے ہاں آنے والے راستے دُشوار اَور تنگ ہیں۔سُورج اِن وادیوں پر آگ برساتا ہے اَور برفیلے پانیوں سے بھری لبالب ندیاں بہت ہی گہری ہیں اَور تیز رو بھی۔سو اجنبیوں کو محفوظ راہ بہتر ہے اور یہاں ضروری ہے دوستی بناے رکھنا“چرچل کے کمانڈر کو یہ َادبی جُملے پسند نہ آئے وہ آگے بڑھا اَورمالاکنڈ پر حملہ آور ہوا۔چکدرہ،سوات اَور مہمند۔قبائلی تلواروں اَور دیسی ہتھیاروں کے ساتھ چھاپہ مار جنگ لڑے۔کُچھ گوروں کا بخار کم ہوا اَور کچھ کچھ قبائلی سرداروں کا جوش سرد پڑا۔چرچل نے لکھا ہے کہ یہاں بھورا اَور سیاہ ریچھ،سُرخ لومڑی،پرندے اَور خرگوشوں کی کئی ایک قسمیں پائی جاتی ہیں۔
یہ جانور شاید اَب یہاں موجود نہ ہوں یابہت کم رہ گئے ہوں۔مگر تلور جیسا خُوب صورت اَور خُوش آواز پرندہ،تلور دشمن دوستوں نے اجاڑ پھینکاہے۔یہ خیبر پختون خواہ کی سُریلی دُنیا کاایک انمول پنچھی ہے۔ اسے ہماری دوستیوں نے معدوم ہونے تک پہنچا دیا۔ گاڑی ایک چھوٹی سی سرنگ میں داخل ہوئی۔ابابیلوں کاایک جھنڈ سُرنگ کے دہانے پرمَنڈلا رہا تھا۔شاید سُرنگ کی اَندرونی چھت سے اِن کے گھونسلے بنے ہوئے تھے۔

ایک مصروف اَور کُشادہ سڑک، سنگلاخ اَور گرم پہاڑوں کے درمیان اپنا راستا بناتی آگے بڑھ رہی تھی۔سڑک کے دائیں نیچے تین عقاب پرواز کررہے تھے۔دُور نشیب میں ایک گدلی نہر ایک میدانی علاقے میں بہہ رہی تھی۔درگئی سے آگے ایک موڑ پر گنے کارس بک رہا تھا۔یہاں دوتین موڑوں پرگنے کارس دستیاب تھا۔سیاح برف ملے تازہ گنے کارس،کانچ کے بڑے بڑے گلاسوں میں پیتے ہیں اَور آگے بڑھ جاتے ہیں۔
ہم ایک اَیسے ہی موڑ پر رُکے جہاں گنے کا تازہ رس مسافروں کو پیش کیا جارہا تھا۔گاڑی ایک طرف روکی۔ایک کھلی جگہ پیپل کے درختوں تلے گنا ذخیرہ تھا اَور رس نکالنے والی مشین چل رہی تھی۔بان کی کھری چارپائیاں یہاں بچھی تھیں۔تھوڑا آگے،سڑک کی دیوار کے آگے سے دو کنکریٹ کے ستون اُوپر اٹھا کر اِن پر کنکریٹ کی ہی چھت ڈال دی گئی تھی۔دیکھنے میں گنے کا کاروبار خوب تھا۔اِسی چھت پر نوار کی ننگی چارپائی سیاحوں کے لیے تھی۔یہاں سے نیچے کامنظر پیارا تھا۔گہرائی میں پھیلی وادی کے بیچوں بیچ سر سبز پانیوں کو لیے ایک دریا رواں تھا۔فصلوں سے بھرے ایک کھیت کے کنارے جو لب دریا تھا،تقریباً پچاس بھینسوں کاایک ریوڑ چر رہا تھا۔

اِردگرد کوے منڈلا رہے تھے۔یہ سب آلودہ فضاؤں میں منڈلاتے ہیں۔ایک ویران خوب صورت وادی تھی مگر جر اثیموں سے بھری جاری رہی تھی۔گندگی ہمارے نیچے بھی پڑی ہوئی تھی۔قدموں کے نیچے پیپل کے کسی درخت سے ایک سُریلا پرندہ بولا پھریک دم خاموش ہو گیا۔تھوڑی دیر بعد اُس کی آواز پھر آئی مگر میرے پیچھے گاڑیوں کے شور نے اُس کے سُر کو گدلا دیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply