میرے پاس ماں ہے۔۔محمد افضل حیدر

ابا جی کی وفات کے بعد پورا گھر خزاں رسیدہ پتوں کی مانند بکھر گیا۔اتفاق اور اکھٹا رہنے کے سب بھرم ٹوٹ گئے۔ ابا جی نے ہر ممکن حد تک سب کو متحد   رکھا ہوا تھا۔ وہ زندہ تھے تو محسوس ہی نہیں ہوتا تھا ہم سب بھائیوں میں کوئی  اختلاف بھی ہے۔ ان کے ہمیں چھوڑ کر چلے جانے کے بعد ایک ایسی منحوس ہوا چلی جس کے تھپیڑوں نے ہمارے اتحاد کی کمزور دیوار کو ایک ہی جست میں اکھاڑ پھینکا۔ ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا دم بھرنے والے سب بھائی  نفرت و نفاق کی باتیں کرنے لگے۔خواتین نے بچوں کی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا شروع کر دیا۔ ایک کنال کا بہت بڑا گھر ہمارے دلوں کی طرح تنگ اور چھوٹا پڑ گیا۔یہ ایک پیالی کا طوفان ہمارے اتحاد کی کمزور بنیادوں کو جڑ سے ہلا گیا۔ابا جی نے اپنی خون پسینے کی کمائی  اور زندگی بھر کی جمع پونجی سے اپنے خوابوں کا جو محل تعمیر کیا تھا وہ محل کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے کی باتیں ہونے لگیں۔بڑے بھائی  نے واویلہ کیا میں نے اس گھر اور خاندان کے لئے بہت کچھ کیا اس لئے میرا حصہ بھی باقیوں سے زیادہ ہوگا۔اس سے چھوٹے نے کہا میں اپنی ذاتی جیب سے مکان کی تعمیر و مرمت کروایا کرتا تھا اس لیے بڑے بھائی  کی طرح میرا حصہ بھی زیادہ ہوگا۔ان کی بیوی نے ہراول دستے کی طرح اپنے بچوں کو ساتھ ملا کر اپنی تلوار سے بھی تیز اور مہلک زبان سے کئی  کاری وار کیے اور مضبوطی سے محاذ سنبھالے رکھا۔ اس دوران بڑے بھائی  کا خاندان کہاں چپ رہنے والا تھا۔ کچن میں پڑے تمام برتن چاقو چھریاں اٹھا کر میدان لڑنے کے لئے کود پڑے۔سب کی باتوں اور قہقہوں سے چہکنے والا گھر کا خوبصورت آنگن لڑائی  جھگڑوں کے شور سے جنگ کا میدان سا بن گیا۔مجھ سے بڑے مبشر نے مسکین سا منہ بنا کر ہرزہ سرائی  کی “میرے حالات تم سب کے سامنے ہیں۔ ابا جب زندہ تھے تو کہا کرتے تھے مجھے تیری بڑی فکر رہتی ہے۔ وہ میرے اور میری بے روزگاری کے متعلق بہت سوچتے تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ میں تمہیں کوئی  کام دھندہ شروع کرکے دینا چاہتا ہوں۔مجھے ہمیشہ یہ غم ستائے گا کہ ان کی خواہش ایک حسرت سی بن گئی۔ میں ان کی روح کو سکون پہنچانے کے لئے کوئی  کاروبار کرنا چاہتا ہوں۔مکان بکے گا تو میں کاروبار کے لئے رقم اٹھا لوں گا باقی پیسے برابر تقسیم ہو جائیں گے۔ابا نے سیونگ سرٹیفیکیٹس کے طور پر کچھ رقم بنک میں محفوظ کر رکھی تھی مکان کے بعد سب کی نظر اس پر تھی۔بڑی بھابی نے بہت دنوں سے ان کے متعلق سنانا شروع کر دیا تھا۔ وہ کہتیں “ہم نے عاتکہ کی شادی کرنی ہے یہ رقم وہاں کام آئے گی”۔

ضعیفی کے کڑے امتحان سے لڑنے والی ماں سب تماشا اپنی معمر آنکھوں اور ناتواں سماعتوں سے سن رہی تھی۔بہت کچھ بولنا چاہتی تھی مگر ان بے نقط آوازوں کے شور میں ان کی کمزور آواز کہیں دب کر رہ جاتی۔میں سب سے چھوٹا تھا ان سب کو جائیداد کے لئے آپس میں الجھتا دیکھ کر بہت پریشان ہوتا,رات گئے جاگتا رہتا اور سوچتا کہ انسان کو محض زندہ رہنے کے لئے کتنا کچھ چاہیے ہوتا ہے۔طمع اور لالچ کیسا دیمک ہے جو رشتے ناتوں کے گھنے پیڑ کو دیمک کی طرح کھا کر ملیا میٹ کر دیتا ہے۔ ایک ہی ماں باپ کی سگی اولادیں فضول سی دنیاوی آ سائشوں کے لئے ایک دوسرے کی جان کے درپے کیوں ہو جاتی ہیں۔کیا ماں باپ کا وجود اولاد کے لئے سب کچھ نہیں ہے۔کیا ان کی ذات کے علاوہ بھی کسی چیز کی تمنا کی جا سکتی ہے۔

ایک دن دل بہت اداس اور مضمحل تھا۔کام سے جی چرا کر گاؤں ابا جی کی قبر پہ گیا اور خوب رویا۔ ان سے کچھ گلے شکوے کیے اور جو کچھ من میں تھا سب ان کے سامنے بیان کر دیا “ابا جان! آپ کیا گئے ہمارا چین و سکون کا مسکن اپنے ساتھ لے گئے۔ایک دوسرے پہ جان نچھاور کرنے والے آج ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں۔ گھر اب بھی بڑا ہے لیکن  دل چھوٹے پڑ چکے ہیں۔بچے اب بھی چھوٹے ہیں لیکن  بڑے بچے بن گئے ہیں۔رشتے اب بھی وہی ہیں لیکن تقاضے بدل چکے ہیں۔آپ نہیں ہیں مگر  ماں موجود ہے مگر ان سے کوئی  پوچھتا ہی نہیں,ان کی کوئی  سنتا ہی نہیں۔وہ بولتی ضرور ہیں مگر ان کی نحیف آواز بلند اور طاقتور آوازوں کے شور میں کچلی جاتی ہے۔آپ کی عمر بھر کی جمع پونجی سے بنایا گیا مکان سب نے منٹوں میں آپس میں بانٹ لیا۔اب ان کی نظر گاؤں والے مکان پر ہے۔دوا دارو   کے لئے ہر وقت تڑپتی بلکتی بوڑھی ماں کو کبھی نہ  پوچھنے والے آج کل ان کی خوشامد پر اُتر آئے ہیں۔ان کو عدالت میں بیان دینے کے لیے اُکسایا جا رہا ہے۔میں بولتا ہوں تو مجھے چھوٹا ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ مجھے اکثر لگتا ہے چھوٹا میں ہوں یا یہ لوگ۔۔

بڑی بھابھی اماں کی چارپائی  اور بستر کل اپنے کمرے میں لے گئیں۔ان کو دلیہ بنا کر دیا، ان کے پاؤں دابے۔مجھے ان کے اس طرزِ  عمل پر رونا بھی آیا اور ہنسی بھی۔ رونا اس بات پر کہ اماں کے خیال رکھنے کا خیال ان لوگوں کو کتنی دیر سے آیا۔ اور ہنسی اس بات پر کہ لالچ انسان سے وہ کچھ بھی کروا لیتا ہے جو کہ وہ کسی صورت بھی کرنا نہیں چاہتا۔بڑے بھائی  بہت بدل گئے ہیں بات بات پر ہم پر کیے گئے اپنے احسانات گنوانے لگتے ہیں۔کہتے ہیں میں نہ ہوتا تو تم لوگ کبھی گاؤں کی گندگی سے نکل کر شہر کی چکا چوند میں  سانس نہ  لے پاتے۔میں نے چھوٹے کو پڑھایا لکھایا۔ تم لوگوں کی زندگیوں کو سنوارتے سنوارتے اپنی زندگی برباد کر بیٹھا۔آج اگر میں دل کا مریض ہوں تو صرف اس گھر کی پریشانیوں کی وجہ سے۔نہیں تو میں بھی الگ گھر لے کر آرام و سکون کے ساتھ رہ سکتا تھا۔ آج اس گھر اور گاؤں والے مکان پر سب سے زیادہ حق میرا اور میرے بچوں کا ہے۔چھوٹی زینب دروازے کے ساتھ کان لگائے سب سُن رہی ہوتی ہے۔ میں نے اکثر اسے روتے دیکھا ہے۔اس کی شادی کی عمر گزر رہی ہے۔ظاہر ہے بھائی  کو اپنے بچوں کی فکر ہے وہ اس بیچاری کا کیونکر سوچیں گے۔پچھلے ہفتے ایک اچھے گھر کا رشتہ آیا تھا چھوٹی کے لئے۔ مگر بھابھی نے چھوٹی کے بجائے اپنی بیٹی کی بات چھیڑ دی۔وہ لوگ بگڑ کر وہاں سے چلے گئے۔بہت جی چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کہیں بھاگ جاؤں مگر اماں اور چھوٹی کی ذمہ داری پاؤں کی رسی بن کر مجھے دبوچ لیتی ہے۔

ہاں !آپ کو یہ بھی بتانا تھا میری ایک کارخانے میں سپر وائزر کی چھوٹی سی نوکری لگ گئی  تھی۔ بارہ ہزار تنخواہ بتائی  ہے انہوں نے۔ بہت جی میں آیا کہ ایم اے کرنے کے بعد محض بارہ ہزار کی نوکری میرے ساتھ قسمت کا مذاق نہیں مگر چھوٹی اور اماں کی ضرورتوں کے لئے قبول کر لی۔اس بار گھر کے اخراجات کے لئے میں نے بھی حصہ ڈالا۔بھابھی نے مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی گھر میں واویلہ کرنا شروع کر دیا کہ ہم لوگ اب سب کو کھلانے سے رہے جو کما رہے ہیں اپنا اپنا کھائیں بس ہماری جان چھوڑیں۔۔ سوچ رہا ہوں چھوٹی اور اماں کو لیکر گاؤں آجاؤں,مگر یہاں رشتہ داروں کے جھوٹ اور منافقت سے اٹے چہرے بار بار میری آنکھوں کے سامنے بھوت بن کر مجھے ڈرانے لگتے ہیں۔مجھے یاد ہے انہی لوگوں کی وجہ سے آپ گاؤں چھوڑ کر شہر چلے آئے تھے۔

اب تو گھر بھی کھنڈر بن چکا ہوگا۔ اس کو مرمت کروانے کے لئے کافی پیسوں کی ضرورت ہوگی وہ کہاں سے لاؤں گا۔ خیر!میں نے اس کے لئے بھی سوچ رکھا ہے۔اگر کبھی آنا بھی پڑا تو مکان کو مرمت کروانے کے لئے اپنی موٹر سائیکل بیچ دوں گا۔اور ہاں!پیارے ابا جان! سب سے اہم بات تو آپ کو بتانا بھول ہی گیا۔آج بھائیوں نے وکیل سے وقت لے رکھا تھا۔اماں سے مکان کے لئے بیان لینا چاہ رہے ہیں۔میرا دل صبح سے گھبرا رہا تھا آج فیکٹری میں بھی دل نہیں لگا۔اس لئے جلد چھٹی لیکر شہر جانے کے بجائے آپ کے پاس آگیا۔آج شام تک کوئی  نا کوئی  خبر آ جائے گی۔ واپس شہر جانے کو جی نہیں چاہ رہا۔ دل کر رہا ہے یونہی آپ کے پاس بیٹھا رہوں اور اسی طرح باتیں کرتا رہوں۔ چھوٹی نے بھابھی سے فون لیکر پوچھا تھا کہ کب آؤ گے میں نے کہا ابا جی کی پاس جا رہا ہوں جب انہوں نے جانے کو کہا واپس آ جاؤں گا۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

عمر ڈھلنے اور دن ڈھلنے میں محض احساس ہی کا تو فرق ہے۔ ابا جی سے باتیں کرتے کرتے کب دن ڈھل گیا پتہ ہی نہ  چل پایا۔ دور افق پر ڈھلتے سورج کی سُرخی  خونی رشتوں پر چھائی  خود غرضی اور منافقت کی سیاہ کالک کو ہر بار تکتی پُتلیوں کو کافی بھلی معلوم پڑ رہی تھی۔ابا جی سے اجازت لیکر قبرستان کے مرکزی دروازے سے باہر نکلا ہی تھا کہ ایک بوسیدہ سا رکشہ میرے پاس آکر ُرک گیا۔ رکشے کی چھت پر ایک پرانا ٹرنک اور کپڑوں کی دو بڑی بڑی گٹھڑیاں رسی کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ بندھی تھیں۔ رکشےکا انجن بند ہونے کے بعد پچھلی سیٹ پر بیٹھی اماں اور زینب نیچے اتریں۔اماں نے آگے بڑھ کر میرا ماتھا چوما۔اور استقامت کی چمک سے لبریز نم دیدہ آنکھوں سے مجھے کچھ دیر تکنے کے بعد مضبوط لہجے میں گویا ہوئیں۔
“کم ظرف مجھ سے مکان مانگتے تھے میں نے دے دیا۔ گاؤں والے مکان کی بات چھڑی تو میں ڈٹ گئی۔۔ اور کہا اس کے لئے میرے مرنے کا انتظار کرو۔اس کا فیصلہ مرنے سے پہلے کر کےجاؤں گی۔میں نے جج کے سامنے کہا میرا ان کے ساتھ تعلق صرف مکان کی حد تک تھا۔ ان کو مکان چاہیے تھا میں نے دے دیا۔اب ان کا مکان کے ساتھ تعلق ہے میرے ساتھ نہیں۔ یہ ہمیشہ پیسوں اور مکان کی بات کرتے تھے ان کو مل گیا۔ میرے چھوٹے بچوں نے کبھی میرے سامنے ایسی بات نہیں کی۔ وہ ہمیشہ میری بات کرتے تھے۔جن کو جس چیز کی تمنا تھی ان کو وہی ملے گی۔ان سب کے حصے میں مکان اور میرے چھوٹے بچوں کے حصے میں ماں آئے گی۔اس بٹوارے کا فیصلہ وقت کرے گا کہ دونوں میں سے زیادہ دولت مند اور آسودہ کون ہے۔ میں نے اماں کے نحیف ہاتھوں کو آنکھوں سے لگایا انہیں فرط جذبات سے چوما اور ان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اماں خدا کی قسم آج اس بٹوارے میں سب سے زیادہ دولت میرے اور چھوٹی کے حصے میں آئی ہے۔۔ ہم بہت امیر ہوگئے اماں! بہت امیر۔۔۔
دور آسمان پر سورج مکمل طور پر ڈھل چکا تھا مگر شفق کی سرخی ابھی بھی افق پر باقی تھی

Facebook Comments

محمد افضل حیدر
محمد افضل حیدر شعبہء تدریس سے وابستہ ہیں.عرصہ دراز سے کالم , اور افسانہ نگاری میں اپنے قلم کے جوہر دکھا رہے ہیں..معاشرے کی نا ہمواریوں اور ریشہ دوانیوں پر دل گرفتہ ہوتے ہیں.. جب گھٹن کا احساس بڑھ جائے تو پھر لکھتے ہیں..

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply