چولستان ،ککڑ موڑ اور عربی اونٹ

چولستان ،ککڑ موڑ اور عربی اونٹ
احمد رضوان
1998 میں سمسٹر ختم ہونے کے بعدگرمیوں کی چھٹیاں آئیں تو یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کا ایک کولیگ بسلسلہ جاب نیا نیا بھرتی ہو کر بہاولپور دیہی ترقیاتی پروگرام میں خدمات انجام دے رہا تھا کا پیغام ملا ،تین ہفتوں کا ایک دیہی علاقے کا سروے ہے ،فوراََ آجاؤ ۔معقول مشاہرہ کے ساتھ کھانا پینا ،رہائش سب فری اور اختتام پر ایک عدد توصیفی سرٹیفیکیٹ بھی دیا جائے گا ۔پہلے تو جولائی میں بہاولپور اور گرد و نواح کی گرمی کا سوچ کر سر انکار میں ہلا دیا مگر پھر گھر پر پڑےاینڈنے سے بہتر نیا علاقہ ، لوگوں کے ملنے کے چاؤ اور روکڑ ےکی سٹوڈنٹ لائف میں کیا اہمیت ہوتی ہے کا خیال کرکے حامی بھرلی ،اپنا سرخ شولڈر بیگ جو کسی سیلانی اور گیانی گورے کی نشانی تھا اور لاہور میں ریلوے اسٹیشن کے قریب ڈان باسکو سکول کے سامنے لگنے والے اس بازارِ ولایتیاں ( اتنے عمدہ بازار کو لنڈا بازار کہنا اس کی توہین ہے )سے جس کے متولی پٹھان تھے ،اس دور میں مبلغ دو صد روپلی سکہ رائج الوقت میں خریدا گیا تھا(مراد بیگ مجھ سے زیادہ سیزنڈ اور نگر نگر گھوم چکا تھا )کو کندھے پر ڈال کر سیدھا بہاولپور جا پہنچا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک فیلڈ آفیسر کے حصے دس دس سروئیر منڈھ دئیے گئے لو اپنی ٹیم سنبھالو اورسروے پر شروع ہوجاؤ ۔ایک عدد ہائی ایس اسٹیشن ویگن بمعہ ڈرائیور فراہم کر دی گئی ۔ڈرائیور مقامی تھااور خلافِ طبع انتہائی شریف النفس ،علاقے کی رگ رگ سے واقف تھا کہ انہی روٹس پر بسیں اور ویگنیں چلا کر مالکان اور سواریوں کے ہاتھوں تنگ ۤآکر سرکار کی غلامی میں فلاح پاگیا تھا ۔ فیلڈ آفیسر بھی ایک حال مست چال مست قسم کا درویش تھا جو اپنی نرم خوئی اور افسر شاہی سے مہم جوئی کی عادتِ عاجلانہ کی وجہ سے عتاب افسرانہ کا شکار تھا اسے بہاولپور کی تحصیل لیاقت پور اور چولستان کے گردونواح کا علاقہ دیا گیا ۔پراجیکٹ یہ تھا کہ بہاولپور ڈویژن میں ان علاقوں کی نشاندہی کی جائے جہاں ترقی کا پہیہ ابھی تک نہیں پہنچ سکاتھا اور ایسے منصوبے بنا کر پیش کیے جا ئیں جو کمیونٹی مل جل کر چلا سکےاور بنیادی انفرا سٹرکچر کی فراہمی کی جاسکے ۔
لیاقت پور میں مقامی ایم پی اے کا ڈیرہ جو اب سرکاری ریسٹ ہاؤس کا درجہ رکھتا تھا ہمارا مستقر قرار پایا اور وجہ تسمیہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کیوں؟ایم پی اے کا معتمد خاص برائے امور خاص ایک چلتا پرزہ تھا جس نے اپنی دھاک ہمارےپہنچتے ہی اکیس توپوں کی سلامی دیسی مرغوں کی گردن مار کر لنچ کرانے اور صاف ستھرے ائر کنڈیشنڈ کمروں میں قیلولہ کرنے کی سہولت کی شکل میں بٹھا دی ۔شام تک علاقہ مکینوں کو خبر ہوچکی تھی کہ سب کی قسمت جگانےوالے افسر آپہنچے اس لئے دربار میں حاضری لگوا کر ڈالی پیش کی جائے۔بڑی مشکل سے ان سب کو یقین دلایا ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے ہم تو فقط من کہ مسمی اور آلو بخارا ہیں اصل تخمی آم جن کے دام بہت اونچے ہیں وہ دفتر میں ہی ہیں اور سب کچھ وہی کریں گے ،کچھ مان گئے کچھ مشکوک رہے اور حیران یہ کیسے افسر ہیں جو کچھ قبول کرنے سے انکاری ہیں۔
اگلے دن علی الصبح دیسی گھی کے ترتراتے پراٹھوں اور آملیٹ کا ناشتہ پھڑکا کر لم لیٹ ہونے کی بجائے ، ہائی ایس میں دس جوان بمعہ افسر اور ڈرائیور نزدیکی دیہات پر حملہ آور ہوگئے، دو دو جوانوں کی ایک ٹیم بنا کر ایک دن میں ملحقہ تین تین گاؤں کے سروے فارم دے دیے گئے،میرے ہم جلیس ایک نفیس ،احمد پور شرقیہ کے ریاستی حافظ صاحب تھے جن سے سرائیکی زبان سننا بہت اچھا لگتا تھا ۔ہمیں فارم پر کرنے کی رسمی سی تربیت فیلڈ آفیسر نے دے دی تھی مگر عملی تجربہ لوگوں سے سوال کرکے ہی ملا ۔سوالات زیادہ تر کچے اور پکے مکانوں کی تعداد ، زرعی اور غیر زرعی رقبہ ، گاؤں کی کل آبادی بشمول بالغان و غیر بالغان ، مال مویشی کے متعلق تھے اور لوگ کس قسم کی ڈیویلپمنٹ چاہتے تھے کے بارے میں تھے ۔جہاں تو گاؤں میں اکثریت پنجابی آباد کار وں کی ہوتی جو کہ اس علاقے میں زیادہ تر تھی تو میں نچنت ہوکر اپنی لائلپوری پنجابی کے دریا بہا دیتااور حافظ صاحب فارم پر کرتے اور جہاں آبادی میں اکثریت مقامی ریاستی لوگوں کی ہوتی وہاں حافظ صاحب سوال و جواب شروع کر دیتے اور میں فارم پر کرنے کی منشیانہ ڈیوٹی سنبھال لیتا ۔
پہلے ہی دن دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوگئی جب گاؤں کے جاٹ نمبردار بابا جی جو سروے بگھتا بھگتاکراب اتنے پک چکے تھے کہ اب اسے وقت کے ضیاع کے مترادف سمجھتے تھے ہم پر چڑھ دوڑے کہ “سوال ای پچھے جانے آں کہ کوئی کم وی ہوئے گا کسے دا”؟ حالات کو کنٹرول سے باہر ہونے سے پہلے میں نے گاؤں میں موجود ڈھور ڈنگر کی تعداد پوچھنا شروع کردی اور خاص طور پر کھوتیوں کا پوچھ لیا ،سارا مجمع ہنس پڑا اور بات آئی گئی ہوگئی ،بعد میں ہم سروے فارم بھرنے کے اتنے ماہر ہوگئے کہ گاؤں میں موجود غیر شادی شدہ لڑکوں بالوں کی تعداد سے موخر الذکر کی گنتی پوری کرنے لگے ۔
گرمی کے دنوں میں ہائی ایس ایک ایسا چلتا پھرتا تنور بن جاتی جس میں سروے کرنے والوں کا روسٹ بنانا مقصود تھا شائد،”آگ کی طرح جدھر جاویں، دہکتے جاویں”والا معاملہ تھا ۔ایک بڑا کولر برف سے بھر لیا جاتا ،لیموں ،نمک اور چینی کا ذادِ راہ صبح صبح اسٹاک کیا جاتا اور سارا دن اسکنجبین کے جام لنڈھائے جاتے ۔اے سی تھا نہیں ،کھڑکیاں کھولی جاتیں تو گرمی اور ریگستانی مٹی کا سیلاب یوں نتھنوں میں گھستا جیسے صحرا میں گھوم رہے ہوں ،سفید ململ کا ڈھاٹا مار کر آنکھوں پر کالا چشمہ چڑھا کر یوں بیٹھ جاتے جیسے بدروحیں ہوں ۔ سایہ دارجگہ دیکھ کر دل کرتا بیٹھ جائیں جہاں کہیں سایہ دیوار نظر آجائے ۔
اسی سروے کےسلسلہ میں ایک دن ججہ عباسیاں سے آگے چولستان کا سفر درپیش ہوا،ایک چلنت اور گھاگ قسم کا پی ڈبلیو ڈی کا اوورسئیر ساتھ کر دیا گیا جس نے اپنے عملی تجربہ کی روشنی میں ہم نو آموزوں کو وہ سکندری گر بتائے جو ہذا من فضل ربی کے زمرے میں آتے ہیں ۔ دورانِ سفرویگن جب بھی کوئی اوبڑ کھابڑ موڑ مڑتی تو اوورسئیر پائین اونچی آوازمیں نعرہ لگاتے ،آگیا ایک ہور ککڑ موڑ، وجہ تسمیہ پوچھنے پر پتا چلا ،سیدھی سڑک پر جاتے جاتے جہاں اچانک موڑ آجائے اور معمولی خم کے بعد سڑک پھر سیدھی ہوجائے یہ سب ککڑ موڑ کہلاتے ہیں ،ہوتا یوں ہے ہربڑے زمیندار کی کوشش ہوتی ہے سڑک اس کے رقبہ سے گزرے ،تو جہاں دیسی ککڑ کا بندوبست ہوجائے وہاں سڑک مڑ جاتی ہے ورنہسیدھی چلتی رہتی ہے اس سے اسپتال میں پڑے شدید زخمی سردار کا واویلا یا د آتا ہے جو پکارپکار کر کہہ رہا تھا اسی نہیں مڑے ، لوگوں نے پوچھا سردار جی کی ہویا تو بولے ہائے اوئےکی دساں سڑک مڑ گئی اسی نہی مڑے۔
چلتے چلتے اندرون چولستان ایک گاؤں میں پہنچے جہاں ایک عالیشان بنگلہ دور سے ہی نگاہ کھینچ رہا تھا ،پتا چلا یہ عربی شیوخ کاتعمیر کردہ ہے (جو دسمبر میں شکار ۔۔ ہر دو طرح کا دن میں تلور اور رات میں چکوریوں کا ) کے استعمال میں آتا ہے ،بجلی ، فون اور وائرلیس کا سارا نظام موجود تھا حتیٰ کہ بوقت ضرورت پاک آرمی بھی ان سے مستفیدہوتی تھی رابطے کے لئے۔وہیں شیخ کے گائیڈ سے ملاقات ہوئی جو اس علاقے کے چپے چپے سے واقف تھا اور شیخ کے آنے پر اسے شکار کھلاتا تھا ۔ہیوی جیپس اور بنگلہ سوائے چند دنوں کے اس کے تصرف میں رہتا اور شیخ کو تحفہ میں ملے اور امارات سے لائے گئے درجنوں مختلف النسل و رنگت اونٹوں کی دیکھ بھال پر مامور تھا ،ان اونٹوں کی خدمت جناب شیخ سمجھ کر کی جاتی تھی کہ ان سے خاص انس تھا اسے اور ان کے بارے وقتاََ فوقتاََ آگاہی دی جاتی تھی ،زندگی میں پہلی بار اونٹنی کا دودھ بھی یہیں پیا ۔ایک مسافر چولستانی سے ملاقات ہوئی جو اجنبی دیکھ کر چلتا ہوا ادھر آگیا تھا ۔بتانے لگا میں نے یہاں سے ۵۰ کلومیٹر دور پیدل چل کر جانا ہے شام اور رات میں سفر کرکےصبح تک پہنچوں گا صرف ایک چھاگل پانی اور رات کو ٹیلوں اور ستاروں کی نشانیوں سے ،میں نے پوچھا پانی کہاں سے لیتے ہو بولا ٹوبوں سے اور جانور کہاں سے پیتے ہیں ؟ “سائیں وہ بھی وہیں سے پیتے ہیں” ،مگر اس کے چہرے پر پھیلا سکون اور اپنے رب کا تشکر ہم پیٹ بھروں سے ہزار درجہ افضل تھا ۔
اس دن اس کی بات سن کر دل کیا ان تمام اونچی اونچی عمارتوں اور بڑی بڑی ترقیاتی اسکیموں کو جو میز پر بنتی ہیں اور کسی بڑے بلڈر کی خورد برد کے سبب سب کا پیٹ بھرتی ہیں ان تمام کو یہاں لا کر پٹک دوں اس چولستانی کے سامنے کہ یہ وہ لوگ اور سکیمیں ہیں جو یہ سب بنانےکی بجائے لڑاتے ہیں اور تمہارا حصہ اور حق کھا پی جاتے ہیں ۔ اپنے آپ کو اس کے سامنے ایک حقیر انسان محسوس کیا میں نے ۔
عرب شیوخ نے اس سارے علاقہ میں مساجدتو تھوڑے تھوڑے فاصلے پر تعمیر کروائی ہیں جو کسی ریگستان میں نخلستان کا منظر پیش کرتی ہیں مگر اردگرد پھیلی ہوئی غربت اور محکومیت کی داستان جس کا ہر انگ اور رنگ خونچکاں ہونے کا پتا دیتا تھا ،غربت، افلاس، استحصال اور غلامی کی ایسی کہانی جہاں اونٹوں کو تو تمام سہولیات میسر آ جاتی ہیں مگر انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔ڈگی اور ٹوبوں پر ایک ہی جگہ انسانوں اور جانوروں کو پانی پیتے دیکھنا ایک روح فرسا منظر تھا مگر حکمرانوں کو اس سے کیا ۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply