سفرنامہ روس /وہم و گماں کے لوگ تھے(حصّہ ششم)۔۔سیّد مہدی بخاری

امید و ناامیدی کے بیچ کا وقت ایسا ہوتا ہے جسے گندھی ہوئی کچی مٹی چاک پر ،جسے نہیں معلوم وہ کل کو چاک پر چڑھ کر کیا روپ دھارے گی۔ ایسے لمحات جب خمیر لگ چکنے کے بعد دودھ نہ دودھ رہتا ہے نہ دہی بن پاتا ہے ۔۔۔ بیچ کا سماں۔خلا کی گھڑیاں۔نامعلوم کے واہمے اور معلوم سے صرف نظر برتنا۔ انتہا درجے کی بے یقینی اور اچھے کی پرجوش امید کے بیچ لٹکتے شب و روز تھے۔
اک بار والد نے مجھے سکول کی فیس بھرنے کو پیسے دیئے تھے۔ وہ فیس سکول میں ایک جگری دوست نے مجھ سے ادھار لے لی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ فیس کی مقررہ تاریخ سے پہلے وہ لوٹا دے گا۔ اس کی سائیکل کا اگلا پہیئہ ایکسیڈنٹ میں مڑ گیا تھا۔ سائیکل اس کی آمد و رفت کا واحد ذریع تھی اور گاوں اس کا شہر سے کافی باہر واقع تھا۔ اس نے سائیکل مرمت کروا لی مگر وعدہ نہ نبھا سکا۔ میری فیس جمع نہ ہو پائی۔ ان دنوں میں سہما سا رہنے لگا۔ پھر وہ دن آ ہی گیا جب گھر اطلاع پہنچ گئی۔
اماں کے سوال پر میں نے طرح طرح کے بہانے ڈھونڈے مگر ہر بہانہ پہلے سے زیادہ مضحکہ خیز تھا۔ جب میں بہانوں و عذر خواہیوں کے جال میں مکمل پھنس چکا تو ابا آگے بڑھے
“تم نے سکول میں فیس ہیڈ ماسٹر صاحب کو دی تھی یا نہیں؟ صرف ہاں یا نہ میں بتاو۔ اور کوئی آواز تمہاری نہ نکلے”۔ انہوں نے گرجتے ہوئے پوچھا تو میری ہچکی بندھی گئی
“نہیں”۔
“اور تم نے فیس کے پیسے خرچ کر دیئے؟ “۔
“ہاں”۔
“بس بات صاف ہو گئی۔ اگر بات دو لفظوں میں کہہ سکتے تھے تو اتنے عذر تراشنے اور بہانے بنانے سے کیا فائدہ ہوا ؟”۔ ابا پیچھے ہٹ کر کرسی پر بیٹھتے بولے۔
ابا نے یہی سکھایا تھا مگر کبھی کبھی اپنا مدعا بیان کرنے کو اس کا سیق و سباق بھی بتانا پڑتا ہے۔ کبھی پس آئینہ بھی دیکھنا ہوتا ہے تو ہی کسی صورتحال کی مکمل تصویر بن سکتی ہے۔ دنیا، واقعات، تعلقات، سیاہ و سفید خانوں میں نہیں بانٹے جا سکتے۔ بچہ پیدا ہوتے ہی بولنا شروع نہیں کرتا۔ زندگی کے پہلے مکمل لفظ کی ادائیگی سے قبل غوں غاں کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کسی شدید تکلیف میں مبتلا ہو تو اس کی ماں بھی نہیں سمجھ پاتی کہ وجہ کیا ہے ؟۔ کیا ہمارے اندر ایک بچہ نہیں رہتا ؟
جہاں میں کھڑا تھا، وہاں بالکل سامنے ایمل خان کی بڑی بڑی نسواری آنکھوں سے دو موٹے موٹے قطرے ٹپکے تھے اور اپنے بوجھ سے ٹوٹ کر فرش کی ٹائل سے جا ٹکرائے تھے۔ ایمل خان ایک بھاری بھر کم جسامت کا مالک دراز قد گورا چٹا پشتون تھا۔ عمر ہو گی پچاس کے لگ بھگ مگر سر کے بال سیاہ تھے یا وہ انہیں رنگے رکھتا تھا۔ یہ نہیں معلوم۔ رات کا ایک پہر بیت رہا تھا۔
میرے اوپر اس قید خانے میں دوسری رات نازل ہو چکی تھی۔ بھوک کا اثر تھا یا شاید دو دن سے اک نوالہ بھی میسر نہ ہوا تھا جس کے سبب شوگر انتہا حد تک بگڑنے لگی تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ شوگر کا تعلق دل سے بھی ہوتا ہے۔ سامنے اگر ایک مضبوط اعصاب کا مالک خان پھوٹ پھوٹ روئے تو دل پر ویسے ہی بوجھ پڑنے لگتا ہے۔ مجھے یوں لگنے لگا جیسے ایک ٹھنڈی بھاری مر مر کی سلیٹ دل پر رکھ دی ہے جس کی ٹھنڈک و بوجھ سے دل دبتا جا رہا ہے۔ پھر لگا جیسے قدموں تلے زمین گھومنے لگی ہے۔ جب سانس بوجھل ہونے لگی تو میں کچھ دیر کو دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھ گیا۔ پھر ایکدم اٹھا اور ہال کے مرکزی دروازے کی جانب چل دیا۔ جہاں باہر مسلح گارڈز بیٹھے تھے۔
“کسی ڈاکٹر کو بلاو۔ میں شوگر کا مریض ہوں اور میری طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ مجھے مکمل سانس نہیں آ رہا۔ دل گھبرا رہا ہے۔ میری ادویات میرے کارگو بیگ میں ہیں۔ مجھے میرا بیگ لا دو تو میں شوگر کی دوا لے لوں شاید اس سے ٹھیک ہو جاوں نہیں تو کسی ڈاکٹر کو بلاو”۔ ان سیکیورٹی اہلکاروں کے سامنے میں نے اس وقت جو زبان پر آیا کہہ دیا۔ انہوں نے مجھے اپنے پاس کرسی پر بٹھا لیا۔ ایک اہلکار تیز تیز چلتا راہداری میں کہیں غائب ہو گیا۔
دس منٹ بعد وہ واپس آیا۔ اس نے شاید کسی آفیسر سے میری حالت بیان کی ہو گی۔ اس کے ہاتھ میں ایک سینڈوچ باکس تھا۔ میری جانب چپ چاپ بڑھا دیا اور روسی زبان میں کچھ کہا جو میری سمجھ سے باہر تھا۔
“مجھے ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر کب آئے گا ؟ ” ۔ میں نے وہ سینڈوچ باکس اس سے وصول کرتے پھر کہا۔
“نو داکتر۔۔ نو داکتر”۔ اس نے کلائی پر بندھی گھڑی پر انگلی رکھتے میرے سامنے کر دی۔ وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ رات کے اس پہر ڈاکٹر نہیں آ سکتا۔ گھڑی پر گیارہ بج رہے تھے۔ پھر اس نے سینڈوچ باکس کو میرے ہاتھ سے لے کر خود کھولا۔
“ایت۔ ایت”۔ سینڈوچ میرے آگے کرتے اس نے کہا۔
میں نے وہ سینڈوچ اٹھایا اور زہر مار کرنے لگا۔ اس وقت مجھے لگا کہ اب کچھ نہ کھایا تو حالت میرے بس سے باہر ہو جائے گی اور نامعلوم میں کسی ایمرجنسی حالت میں یہاں سے ہسپتال پہنچ سکوں گا یا یہیں پڑا رہوں گا۔ سینڈوچ بھی کیا تھا۔ دو ہاف بریڈ کے پیسز کے بیچ نجانے کیا بھرا ہوا تھا۔ سبزیاں سی تھیں اور پنیر تھی۔ وہ چار پانچ لقموں میں ختم کر چکا۔ شاید وہاں سیکیورٹی اہلکاروں کے پاس آدھ گھنٹہ سر کرسی کی پشت سے ٹکائے آنکھیں موندے بیٹھا رہا۔ طبیعت کچھ اس وجہ سے بھی سنبھلی تھی کہ وہاں چھت کے نیچے واقع روشن دانوں سے باہر کی تازہ ہوا آ رہی تھی۔ ہال میں تو ایک کھڑکی بھی نہیں تھی۔ ایک سیکیورٹی اہلکار نے انگلی میرے کاندھے پر لگائی اور اشارہ کیا کہ اب مجھے ہال کے اندر جانا چاہیئے۔
“شاہ جی، کدھر غائب ہو گئے تھے ؟ واش روم گئے تھے ؟ “۔ دلشاد، اجمل اور فاروق تینوں مجھے دیکھتے ہی جمع ہو گئے۔
“نہیں۔ بس طبیعت خراب ہو رہی تھی تو باہر سیکیورٹی والوں کے پاس گیا تھا۔ انہوں نے سینڈوچ دیا وہیں بیٹھا رہا۔ ایمل خان کدھر ہے ؟ “۔
“وہ سو گیا ہے۔ اچھا ہے سو گیا۔ میرے پاس دوائیاں ہیں۔ آپ کو کوئی چاہیئے تو بتائیں۔ پیناڈول ؟ ڈسپرین ؟ باقی آپ خود دیکھ لیں مجھے دوائیوں کا اتنا نہیں معلوم مگر ہیں بہت ساری۔ بخار کی بھی ہے۔ خان کو بھی سردرد کی دی تھی۔ وہ کھا کر سو گیا ہے”۔ فاروق یہ کہہ کر پلٹا اور بھاگ کر اپنی جگہ سے ایک چھوٹا سا بیگ اٹھا لایا جس میں ادویات کے پتے تھے۔ میں نے اس بیگ کو کھنگالا۔ نیند کی گولیاں بھی نکلیں۔ ایک گولی نگلی اور اپنی اپنی جگہ بازوؤں کا سرہانے بنائے لیٹ گئے۔ وہ شب بیت گئی۔ جیسے بیتی سو بیتی۔ نیند گولی پھانک پر بھی کوسوں دور تھی۔ کروٹ بدلتے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آتے رہے۔
یہ سب پاکستانی جو یہاں موجود تھے یہ یورو کپ کی ٹکٹ لے کر آئے تھے۔ روس میں یورو کپ فٹ بال کے مقابلے ہو رہے تھے۔ روسی فیڈریشن نے ساری دنیا کے لئے ویزا فری کر دیا تھا۔ شرط یہ تھی کہ روس آنے والوں کے پاس کم سے کم ایک فٹ بال میچ کی ٹکٹ ہو جو اس نے UEFA کے آفیشل پورٹل سے خریدی ہو۔ روس ساری دنیا کے فٹ بال شائقین کے واسطے کھلا تھا۔ میچ کی ٹکٹ چالیس یورو کی ملتی تھی۔ ایجنٹوں نے ان سب کو ٹکٹیں تھما دیں تھیں اور اسی بہانے روس بھیج دیا تھا۔ روسی فیڈریشن نے فٹ بال میچز کے واسطے ڈیڑھ ماہ کی ویزا فری انٹری دے رکھی تھی۔ ان کا فٹ بال سے کیا واسطہ؟ امیگریشن آفیسر نے ہر آنے والے سے غیر رسمی انٹرویو لئے تھے جو ہر ملک کی امیگریشن لیا کرتی ہے۔ وہ بھانپ گئے تھے کہ پاکستانیوں کا فٹ بال سے کیا واسطہ ؟ کسی کو فٹ بال کے بنیادی رولز، ٹیموں یا کسی کھلاڑی کا نام تک نہیں معلوم تھا۔ ایجنٹوں کی دیہاڑی لگ گئی تھی۔
نہیں معلوم رات کے کس پہر آنکھ لگی۔ صبح پھر اسی شور سے جاگنا پڑا۔ وہی تماشہ جاری تھا۔ سیاہ فام سینڈوچ کے ڈبوں پر ٹوٹ رہے تھے۔ ایک ہنگامہ بپا تھا۔ گھڑی صبح کے نو بجا رہی تھی۔ تمام لوگ جاگ چکے تھے۔ کوئی بھی سینڈوچ لینے آگے نہیں بڑھا تھا۔ بڑھتا بھی تو کیا ملتا ؟ سو سے زائد سیاہ فام مرد تھے جن کے قد دراز اور جسامت مضبوط تھی۔ ان سے دھکے ہی ملتے اور وہ کسی کو قریب آنے بھی نہیں دیتے تھے۔ یہ سیاہ فام سینیگال، نائجیریا، یوگنڈا اور ان جیسے افریقی ممالک سے یونہی آئے تھے جیسے پاکستانی پہنچے تھے اور ان کا اصل مقصد بھی کہیں نہ کہیں غائب ہونا تھا۔
سیاہ فاموں کے سفارت خانے شاید متحرک تھے۔ روز اک امیگریشن آفیسر آتا۔ وہ ہاتھ میں پاسپورٹ کا بنڈل تھامے ہوتا۔ ہر پاسپورٹ کے اندر واپسی کی ٹکٹ لگی ہوتی۔ وہ نام پکارتا جاتا اور سیاہ فاموں کو الگ کر کے ساتھ لے جاتا۔ وقت رخصت وہ اپنے ساتھیوں سے گلے ملتے۔ کچھ روتے، کچھ ہنستے اور پھر امیگریشن آفیسر کے ساتھ ہال سے باہر نکل جاتے۔ روز بہ روز ان کی تعداد کم ہو رہی تھی۔ روزانہ پچیس سے تیس سیاہ فام ہال سے نکل کر اپنے اپنے وطن واپس بھیجے جا رہے تھے۔
ہم سب قصے سنانے میں مگن تھے۔ اجمل نے اپنے گاوں کا نقشہ کھینچا تھا اور بتایا تھا کہ اس کی شادی ماموں زاد کزن سے کیسے حالات میں ہوئی۔ گاوں کا اپنا کلچر ہوا کرتا ہے۔ رشتے مانگنے والے بھی کزن تھے۔ شریکے نے دھمکی دی تھی کہ اگر بارات آئی تو ڈانگ سوٹے کجا گولیاں بھی چل سکتی ہیں۔ اس کی بارات کا قصہ دلچسپ تھا۔ لڑائی تو نہ ہوئی تھی مگر ہر لمحہ یہی لگتا تھا کہ جیسے پنڈال پر حملہ ہو سکتا ہے۔
“تو اجمل اس سارے فلمی سین کے بعد تمہیں آخر کزن مل ہی گئی۔” میں نے ہنستے ہوئے کہا تو باقی سب بھی مسکرا پڑے
“پائین! تسی اوتھے ہوندے تے نس جاندے۔ او بارات نئیں سی۔ چاچے نے دو دو اے کے 47 چکیاں ہوئیاں سن۔ ہر بندے نے ناڑے وچ موزر تنیا ہویا سی۔ میں کنبھی جا ریا ساں کہ رب سوہنے خیر کریں۔ اپر تے گئے آن ہن ایتھوں سلامت واپس پہنچا دے پاویں وہٹی ایتھے ای رکھ لے”۔ اس نے قہقہ مارا
“یکا۔۔۔ توں ایناں ای بہادر نکلیا کہ بھابھی چھڈ کے جان دی دعا منگ ریا سی ؟ واپس جا کے سہاگ رات چاچے نال منانی سی ؟ “۔ اب کے دلشاد نے اسے چوٹ لگائی۔ باتوں کا رخ ہنسی مزاق میں ڈھلتا رہا۔ اور کیا ہو سکتا تھا ؟
“اوئے ماڑا بات سنو۔ تم کبی خضدار آیا اے ؟ امارا بارات خضدار گئی تھی۔ اللہ توبہ اللہ توبہ۔ گرمی سے امارا شلوار پسینے سے بھیگ گیا تھا۔ ” ایمل خان نے اپنے تئیں خضدار کی گرمی کا نقشہ کھینچنا چاہا تھا مگر وہ سادہ لوح پشتون الفاظ کے چناو سے عاری تھا۔
“ہاہاہاہاہاہا۔ اس کا شلوار پسینے سے بھیگ گیا تھا۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔ ” ایمل کے ساتھ دوسرے بلوچ پشتون نے پشتو میں اسے کوئی گہری جگت لگائی جس کے بعد ایمل نے وضاحت دینا شروع کی کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ گرمی انتہا کی تھی۔ “تم لوگوں کا دماغ ای اس ہال کی طرح کچرے سے بھرا اے” اس نے اپنے ساتھیوں کے جانب دیکھتے کہا۔
فاروق نے بتایا تھا کہ لاہور کے نواح میں اوکاڑہ کی سمت جاتے اس کا کچھ زرعی رقبہ تھا جس پر ناجائز قبضہ ہو گیا تھا۔ آخرکار اس رقبے کو اونے پونے داموں قبضہ کرنے والوں کو بیچنا پڑا تھا۔ قبضہ گروپ کا سرغنہ مقامی ایم پی اے تھا۔ دلشاد کا ماجرا کچھ یوں تھا کہ وہ دکان بیچ کر یورپ جانے کا سوچتا تھا۔ آخر اس نے دکان بیچ دی تھی۔ یہ سب کیوں یورپ جانا چاہتے تھے ؟ مہمند ایجنسی فاٹا کے تین لوگ تھے۔ یہ چپ چاپ باتیں سنتے رہتے۔ بولتے کم تھے۔ اور اس دن جب وہ بولے تو ان کو سن کر میں سوچنے لگا کہ یہ سب اپنی اپنی جگہ مجبور کیئے جا چکے تھے۔ ہر اک فرد کے پیچھے ایک مکمل کہانی تھی۔ کبھی لکھوں گا ان پر اور ان داستانوں پر۔
دوپہر دو بجنے کو آئے تو ایک اہلکار ہال میں داخل ہوا۔ اس نے میرا نام پکارا۔ میں اس کے ساتھ چلنے لگا تو باقیوں کو اک بار پھر لگا جیسے میری رہائی ہونے لگی ہے۔ ان کے چہرے سنجیدہ ہو چلے تھے۔ میں نے بآواز بلند کہا ” کوئی کام ہو گا یا مجھ سے کچھ تفتیش کرنی ہو گی۔ یہ ابھی مجھے نہیں نکال رہے۔ واپس آ جاوں گا کچھ دیر میں”۔
“شاہ جی۔ امارا تو دعا اے کہ تم کبی ادھر واپس نہ آو۔ اللہ خیر خیریت رکھے”۔ ایمل خان کا ایک ساتھی جو کم کم بولتا تھا اس کی آواز گونجی۔
اک بار پھر چیف امیگریشن آفیسر کا کمرہ سامنے تھا۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو ایک صاحب اٹھ کر ملے۔ پینٹ کوٹ بمعہ ٹائی۔ چہرے پر نظر کی عینک۔ سر کے بال گرے۔
“بخاری صاحب۔ میں شفقت علی خان۔ ایمبیسڈر ماسکو۔ ”
“سر، بہت نوازش آپ خود تشریف لائے۔ آپ کا شکریہ”۔ میں نے ہاتھ ملایا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔
” بخاری صاحب مجھے احساس ہے کہ جو آپ پر بیت رہی ہے۔ ہماری مجبوری یہ کہ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں روسی وزارت خارجہ کو بھی لکھ چکے ہیں مگر تا حال امیگریشن آفیسر رہا نہیں کر رہے۔ میں ان کو یہاں تک کہہ چکا ہوں کہ پاکستان کے اعلی حکام کی جانب سے مجھے کہا گیا ہے آپ ہمارا مان بھی نہیں رکھ رہے تو اس کا مطلب ہمیں آپ سے احتجاج کرنا ہو گا۔ یہ چیف امیگریشن آفیسر کہہ رہے ہیں کہ آپ کے متعلق روسی وزارت خارجہ کو اقوام متحدہ نیویارک سے ای میل موصول ہوئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میری بات کے بعد یہ آپ کو اب جلد رہا کر دیں گے۔ ” ایمبیسڈر صاحب نے تسلی دی۔
“ٹھیک ہے سر، آپ بھی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے جلد ہی کوئی فیصلہ ہو جائے گا۔ “۔ میں نے ان کا شکریہ پھر سے ادا کیا۔
” ہاں، وہ جو باقی پاکستانی قید ہیں جن کی لسٹ آپ نے بھیجی تھی ان کے بارے معاملات فائنل ہو رہے ہیں۔ آپ برائے مہربانی ان کو بھی تسلی دیں کہ عنقریب شاید آج ہی آپ سب یہاں سے نکل جائیں۔ آج شام قطر ائیرلائن کی فلائٹ کراچی جا رہی ہے۔ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ آپ سب کو اس میں جگہ مل جائے تو ڈی پورٹ کر دیا جائے وگرنہ پھر دو دن بعد ایک فلائٹ روانہ ہو گی”۔ انہوں نے میرے گھٹنے پر ہاتھ سے تھپتھپاتے کہا۔
“سر کوشش کریں کہ آج ہی ہم سب کو ڈی پورٹ کر دیا جائے۔ یہاں لوگ کئی دنوں سے بھوکے ہیں۔ سب کی نفسیاتی و جسمانی حالت اچھی نہیں ہے۔ کھانا نہیں ملتا”۔
“ہاں، مجھے معلوم ہوا ہے۔ میں نے ان سے بات کی ہے۔ ان کا جواب ہے کہ کھانا ملتا ہے۔ “۔ یہ کہتے انہوں نے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک لفافہ نکالتے ہوئے میری جانب بڑھاتے بولے
“اس میں آٹھ ہزار روبلز ہیں۔ آپ پلیز یہاں سے جاتے ہوئے ائیرپورٹ کے اندر سے جائیں اور تمام پاکستانیوں کے لئے کھانے پینے کو کچھ لے جائیں۔ یہ آپ کی مہربانی ہو گی۔ میں ان کو کہتا ہوں کہ آپ کو کھانے کے واسطے ائیرپورٹ کے کسی ریسٹورنٹ لے جائیں”۔
میں نے وہ لفافہ ان سے لیا۔ ان کا شکریہ پھر سے ادا کیا۔ کہنے کو کچھ رہا نہیں تھا۔ ملاقات اختتام کو پہنچی۔ انہوں نے امیگریشن آفیسر سے کہا کہ ہمارے پاکستانیوں کے واسطے کھانے کا بندوبست کرنا ہے لہذا آپ اسے کسی ریسٹورنٹ لے جائیں۔ اس نے روسی زبان میں سر ہلایا اور اپنے ایک آفیسر کو حکم جاری کیا۔ امیگریشن کا ایک جوان مجھے لے کر چلا۔ ایک فاسٹ فوڈ شاپ پر پہنچے۔ بارہ ویجیٹیبل برگرز بمعہ فرنچ فرائز آرڈر کیئے۔ حلال فوڈ میسر نہیں تھا لہذا ویجیٹیبل ہی واحد آپشن تھی۔ کھانا لے کر ہال میں پہنچا۔
برگرز کے باکسز تقسیم ہوئے۔ سب بھوکے تھے۔ سب کھانے میں مشغول ہو گئے۔ ان کو لگا کہ کھانا میں خود اپنے پیسوں سے لے آیا ہوں۔
“شاہ جی، اللہ آپ کو بہت نوازے۔ آپ نے ہمارے لئے بہت کیا ہے”۔ یہ سب کھا چکنے کے بعد میرا شکریہ ادا کرنے لگے تو میں نے کہا کہ یہ میں نے نہیں کیا۔ سفیر صاحب آئے تھے انہوں نے کھانے کے پیسے دیئے ہیں۔ اور ہاں دعا کرو کہ آج ہم سب ڈی پورٹ ہو جائیں۔ قطر ائیرویز کی فلائٹ آج ماسکو سے کراچی جا رہی ہے۔ سفیر صاحب کوشش کر رہے ہیں کہ اس میں جگہ مل جائے۔ آپ سب کی واپسی کی ٹکٹیں ری شیڈول ہو جائیں اور فلائٹ میں جگہ ہو تو آج شاید ہم سب واپس چلے جائیں۔ اگر جگہ نہ ہوئی تو اگلی فلائٹ کے لئے مزید دو دن یہاں رکنا پڑے گا۔
کسی قیدی کو رہائی کی امید ہو تو اس کا پہلا ردعمل کیا ہوتا ہے ؟ وہ خبر رساں کے ہاتھ چومنا چاہتا ہے۔ یہ سنتے ہی ان کے مرجھائے چہرے کھلے اور انہوں نے مل کر ایک دائرہ بنا کر مجھے گلے لگا لیا۔ کچھ دیر بعد بلوچستان کے پشتون ایمل خان کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ مولوی دلشاد نے موبائل پر تلاوت لگا دی تھی۔ سب کو خدا یاد آ رہا تھا۔ یہ دعا کا وقت تھا۔ مجھے یقین ہونے لگا تھا کہ آج شاید میں ان سب کے ہمراہ واپس پاکستان بھیج دیا جاوں۔
وقت دعاوں میں کٹتا رہا۔ ہر کوئی اپنا سامان سمیٹنے میں لگا رہا۔ وہ سامان جو سمیٹا ہوا ہی تھا مگر پھر بھی بار بار سمیٹا جا رہا تھا۔ شاید یہ دل بہلانے یا خود کو سفر کے لئے تسلی دینے کا نفسیاتی حربہ تھا۔
“شاہ جی۔ میرے پاس آپ کے پانچ سو ڈالرز ہیں۔ میری ٹکٹ یہ خود کروائیں گے ناں ؟ یہ کب مجھ سے پیسے لینے آئیں گے ؟ “۔ دلشاد کچھ گھبرا رہا تھا۔ باقی سب کی تو ریٹرن ٹکٹیں تھیں جو امیگریشن حکام نے ائیرلائن کو کہہ کر ری شیڈول کروانا تھیں مگر اس کے پاس واپسی کی ٹکٹ نہ تھی۔
“ہاں، مفت میں تو نہیں بھیجنے والے۔ لے لیں گے پیسے۔ پریشان نہ ہو۔ تم کو چھوڑ کر نہیں جاتے”۔ میں نے اسے تسلی دینے کو مسکراتے ہوئے کہا۔ مگر میں سوچ رہا تھا کہ سچ میں اگر امیگریشن والے اسے چھوڑ گئے تو ؟
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ شام چار بجے ایک آفیسر آیا۔ اس نے اعلان کیا کہ آدھ گھنٹے میں سب تیار ہو جاو۔ سب پاکستانی واپس جا رہے ہیں۔ پھر اس نے دلشاد کو پکارا۔ دلشاد کی انگریزی بالکل گئی گزری تھی۔ مجھے اس کے ساتھ جانا پڑا۔ امیگریشن آفیسر نے دلشاد سے پیسے وصول کئے۔ میں نے از رہ تجسس امیگریشن آفیسر سے پوچھا کہ اس کی ٹکٹ کتنے ڈالرز کی مل رہی ہے ؟ ۔۔ میں بس جاننا چاہتا تھا۔ اس نے مجھے گھور کے دیکھا اور ناگواری سے کہا “فائیو ہندرد دالرز”۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ ٹکٹ شاید سستی ہے مگر باقی کی رقم اس کی “اجرت” ہے۔ اگر ٹکٹ مہنگی ہوتی تو یہ ضرور کہتا کہ مزید پیسے دو۔
اب سب خوش تھے۔ ایک دوسرے سے نمبروں کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ وعدے ہو رہے تھے کہ پاکستان میں اک دوجے سے رابطہ رہے گا۔ ایک دوجے کو دعوتیں دی جا رہی تھیں۔ کوئٹہ کا پلان بن رہا تھا۔ کوئٹہ والوں کا لاہور کا پلان بن رہا تھا۔ فاٹا والے اپنی طرف بلا رہے تھے۔ اور میں ان کو کہہ رہا تھا کہ دیکھو۔ لاہور آ جاو۔ میں وہیں ہوں گا۔۔۔ !!!
ٹھیک ساڑھے چار بجے تین اہلکار ہال میں داخل ہوئے۔ ایک نے پاسپورٹ کے بنڈل اٹھا رکھے تھے۔ پاسپورٹ میں ٹکٹ موجود تھی۔ سارے پاکستان دائرہ بنائے اس کے گرد جمع ہو گئے۔ وہ ایک ایک پاسپورٹ پر لکھا نام پکارتا اور اس کو الگ کرتا جاتا۔ میرے نام کی گھنٹی نہیں بج رہی تھی۔ سب ایک ایک کر کے الگ قطار میں کھڑے ہوتے جا رہے تھے۔ سب نے اپنے اپنے ہینڈ کیری کمر پر اٹھا رکھے تھے۔ پاسپورٹ ختم ہو گئے۔ میں اکیلا کھڑا رہ گیا۔ امیگریشن آفیسر نے ان کو کہا کہ چلو میرے پیچھے آو سب۔ میں نے گھبرا کر آگے بڑھ کر اس کا راستہ روکا
“میرا پاسپورٹ نہیں آیا ؟ میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔ چیک کریں میرا پاسپورٹ بھی ہو گا۔ سید مہدی بخاری “۔
” نہیں۔ تمہارا پاسپورٹ نہیں ہے۔ تم ادھر ہی رکو گے۔ بس آگے سے ہٹو”۔ اس نے غصے سے کہا۔
“یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ پلیز چیک کرو میں بھی ان میں شامل ہوں۔ دیکھو تم ایک بار پھر دیکھ لو شاید میرا پاسپورٹ ہو اور آپ سے سکپ ہو گیا ہو ؟ “۔ میں نے گھبرایا گھبرایا کہا۔ اس وقت مجھے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا۔
“پیچھے ہٹو، تمہارا پاسپورٹ نہیں ہے”۔ یہ کہہ کر اس نے بازو سے مجھے پیچھے دھکیلا۔ وہ سب پاکستانی اس کے پیچھے ہال سے باہر نکل گئے۔
کسی نے مجھ دیکھا نہ جاتے ہوئے مجھے ملے۔ میں وہاں تنہا کھڑا تھا۔ میرا دماغ لٹو کی مانند گھوم رہا تھا۔ یہ تھے وہ لوگ جن کو رہائی ملی تو مجھ سے ملے بھی نہیں ؟ یہ کیسے بنا کچھ کہے خوشی خوشی امیگریشن آفیسر کے پیچھے نکل لئے ؟ ۔۔۔ سیاہ فام لڑکوں کا ایک گروہ میرے پاس آیا۔
“مین۔ تم نہیں گئے ؟ تمہارے سارے پاکستانی چلے گئے تمہارا کیا ایشو ہے ؟ “۔ ایک سیاہ فام نے حیران ہو کر پوچھا۔ میں نے ان کی جانب دیکھا۔ اس وقت میرا دل کر رہا تھا ان سب لوگوں سے دور چلا جاوں۔ میں بنا کچھ کہے پلٹا اور دور جا کر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھ گیا۔
شاید غیر متوقع خوشی انسان کو سب سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ ان سب کو رہائی ملی تھی۔ شاید اس خوشی میں وہ مجھے بھول گئے۔ شاید وہ میرے لئے رکنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ شاید وہ ڈر رہے تھے کہ اس کے لئے رکے تو کہیں ہم بھی یہیں نہ رہ جائیں۔ شاید یہی اصل انسانی جذبات ہیں۔ شاید یہی حقیقت ہوا کرتی ہے۔ جانے والے پلٹ کر کہاں دیکھتے ہیں۔ جیل سے رہا ہونے والا فوری سے پیشتر اس جگہ کو چھوڑنا چاہتا ہے۔
میں اپنے دل کو تسلی دے رہا تھا۔ اسے سمجھا رہا تھا کہ کچھ نہیں ہوا۔ ہوتا ہے۔ چلتا ہے۔ کوئی بات نہیں۔ باہر موسم طوفانی ہو، بارش ہو، برسات ہو تو ایک چڑیا پناہ کی تلاش میں گھر کے روزن سے اندر داخل ہونا چاہتی ہے۔ چڑیا پر گھر کے مکین کی نگاہ پڑتی ہے تو وہ اسے اٹھاتی ہے اور پیار سے سہلاتی ہے۔ چڑیا محسوس کرتی ہے کہ گھر کے سبھی لوگ اسے پیار کرتے ہیں۔ وہ اس گھر میں بس جاتی ہے اور مکان کی پرانی شہتیر پر اپنا گھونسلا بنانے لگتی ہے۔ میں بھی ویسی ہی چڑیا تھا۔ ان لوگوں کے بیچ بس رہا تھا۔ آنسو و ہنسی کا رشتہ بنا تھا۔ اب گھونسلا بکھرا پڑا تھا۔ سب جا چکے تھے اور جاتے جاتے کسی نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔
مجھے ان سے گلہ نہیں ہے۔ یہ جو لکھ رہا ہوں یہ اس وقت کی عارضی سوچیں تھیں جو ابھر رہی تھیں۔ بھلا ہوا وہ نکلے۔ اپنے بال بچوں کے پاس پہنچے۔ بس ایک کلک سا تھا جو دل کو بوجھل کئے جا رہا تھا۔
کیا آپ نے کبھی ان مزدوروں کا دکھ محسوس کیا ہے جو مکان کی تعمیر میں ساتھ رہتے، بستے، کھاتے پیتے ہیں اور جیسے ہی مکان مکمل ہوتا ہے سارا تعلق بکھر جاتا ہے۔ اس ایک مکان سے کئی راہیں نکل آتی ہیں۔ گھروندہ مکمل کر چکنے کے بعد ساحل کی ریت پر کھیلتا بچہ اسے رخصت سے پہلے خود ہی پاوں سے ڈھا دیتا ہے۔ راہیں نکل چکی تھیں۔ سب اپنی اپنی راہ پر آگے بڑھ چکے تھے۔ میں اکیلا دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔
کافی دیر میں دل بہلا۔ خود کو مضبوط کیا۔ اٹھا۔ آل اطراف اک نظر ڈالی۔ پاکستانیوں کا کونا خالی تھا۔ کچھ دیر پہلے تک یہاں سب تھے۔ اب کوئی نہ تھا۔ سیاہ فام دور اپنے کونے میں جمع تھے۔ انسان پر پریشانی کے ساتھ اداسی اتر آئے تو ایسے لمحوں میں آنکھ ہی برسا کرتی ہے۔ دو قطرے ٹپکے اور ٹھنڈے فرش سے ٹکرا گئے۔
وہم و گماں کے لوگ تھے، وہم و گماں میں ہی رہے
دیکھا تو کوئی بھی نہ تھا، سوچا تو شہر بھر گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply