قاری اساس تنقید، ایک مکالمہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ایک مکالماتی نظم، جو قاری اساس تنقید کی تھیوری کو بآسانی سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ : (یہ نظم پہلے انگریزی میں تحریر کی گئی)
قاری (1)
مصنف ہی اگر مر کھپ چکا ہوپانچ صدیاں پیشتر تو *
اس کے تحریر متن کو کیسے سمجھے گا وہ قاری
جو “زماں” میں پانچ چھ  صدیاں
“مکاں” میں پانچ چھ  سو میل دوری پر کھڑا
کاغذ کا پرزہ ہاتھ میں لے کر
متن میں منہمک ہے ۔ ۔۔ سر کھجاتا ہے؟

قاری (2)
اگر معنی متن میں ہی نہاں ہے تو
مصنف کی ضرورت ایسی حالت میں کہاں محسوس ہوتی ہے؟
مصنف غیر حاضر ہے **
مگر قاری تو حاضر ہے
اور اس کے سامنےکاغذ کے پرزے پر
متن موجود ہے تو پھر
یقیناً حاضر و موجود ہیں دونوں!

(مسئلے کا حل)
تو پھر ایسا سمجھ لیجیے ۔۔۔
کوئی اک شعر یا اک نظم ، یا کوئی بھی ، کیسا بھی متن
اک “چیز” ہے یعنی فرنگی کی زباں میں یوں کہیں گے

Advertisements
julia rana solicitors london

مکمل خود میں، با معنی و مطلب ۔۔۔ کیسا بھی ہو
آساں، سریع الفہم ہو ۔۔۔
مشکل، عسیر الفہم ہو ***
کیسا بھی ہو !
چلیں، قاری سے پوچھیں ۔۔۔
کون قاری؟
وہ جسے سونے سے پہلے یہ متن پڑھنے کی خواہش ہے؟
بھلا پوچھے گا کس سے؟ اور کیا؟ پڑھنے سے پہلے ایسا قاری؟
دوستوں سے ؟ یا کسی ناقد سے ؟ کیا مطلب ہے اس کا؟
یا اسے جو کچھ سمجھ آتا ہے اپنے ہی حوالے سے
فقط اپنے “زماں” سے ۔۔۔ حال و ماضی سے
“مکاں” سے ۔۔۔ ملک سے
اپنے ہی تہذیب و تمدن سے
زباں پر اپنی قدرت سے
وہی کچھ ہی تو سمجھے گا یہ قاری
رات کو سونے سے پہلے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*Roland Barthes: “Death of the Author…
** The meaning is in the printed text: not outside it. Hence it is in the Readers’ domain. Wolfgang Iser.
*** An absentee author is like an absentee witness who cannot give his evidence. Wolfgang Iser.
یہ مکالمہ پہلے انگریزی میں لکھا گیا۔ منظوم ترجمہ مصنف نے خود کیا ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply