مکافات کی چکی۔۔محمد وقاص رشید

مکان کی بوسیدگی کی گواہی اسکی رنگ و روغن سے عاری دیواریں ہی نہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار فرش بھی دے رہا تھا۔مزید برآں دیواروں کی دراڑیں یہاں موجود زندگی کے چہرے کی جھریاں نظر آتی تھیں۔مکان میں بے سروسامانی سلیقے سے رکھی گئی تھی ۔دیواروں پر چند پرانی تصاویر آویزاں تھیں۔جن میں ایک بچے سے جوان ہوتے مکان کے باسی کی داستانِ حیات نقش تھی۔
یہ بچہ تیمور عالم ہی وہ خواب تھا جسے چار آنکھوں نے عمر بھر دیکھا۔اس گھر میں دو افراد کی زندگانی اسی بچے کو جوان کرنے میں بوڑھی ہوئی۔دو افراد، ایک جستجو کا خون پسینہ بہا کررزقِ حلال کماتا روشن علی اور ایک اس رزق کو مشقت کی گیلی لکڑیوں پر قناعت کی پھونکیں مار مار کر پکاتی اسکی بیوی حلیمہ۔ تیمور انکی واحد اولاد انکا بیٹا تھا جس کو دیکھ دیکھ کر یہ جیے ،جی جی کر دیکھتے رہے..
خدا خدا کر کے وہ دن آیا جس دن تیمور کو انجینئرنگ کی ڈگری ملی۔ اس دن کے لیے انہوں نے سال ہا سال جو جو کچھ جھیلا تھا ان سالوں کا اک ایک لمحہ دونوں ماں باپ کے وجودوں سے روحوں تک نقش تھا۔

روشن علی نے بھیگی پلکوں سے نیلے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا۔ اے لاجوں والے خدا ! تیرا شکر کہ تو نے میری آس کی لاج رکھ لی۔ روشن علی کی خدا سے یاری بھی عجیب تھی۔ وہ یار کی مان کر خون پسینہ ایک کر کے حق حلال کی روزی کماتا۔ حق کا خدا بدلے میں اسے عسرت سے آزماتا اور روشن علی اس پر کلمہِ شکرو صبر کے ساتھ اپنے یار خدا کو عرش پر فرشتوں کے سامنے آدم کو سجدہ کرانے کا جواز فراہم کر دیتا تھا ۔

روشن علی جانتا تھا کہ اس میں بہت بڑا کردار حلیمہ کا ہے۔حق حلال کے راستے کے ہر روشن علی کو ایک حلیمہ کی ضرورت ہوتی ہے۔نام کی ہو نہ ہو کام کی ہو۔
حلیمہ نے اپنی پرانی سی چادر اٹھا کر کہا۔تو نے کبھی میری پھیلی ہوئی جھولی خالی نہیں موڑی تیری مہربانی او مہربانا آج تیرے بندوں کو کھوئے کی کھیر کھلاؤں گی ۔ یہ کہہ کر حلیمہ دودھ کو گھوٹنے لگی۔ ساتھ ساتھ پستے بادام بھی چھیلتی رہی۔۔

آج دونوں کو خوابوں کے چھالوں پر تعبیر کا مرہم لگتا محسوس ہورہا تھا۔تیمور اب نوکری کی تلاش میں تھا۔ وہ نوکری جس کی بہار سے گھر کے شجر کی امیدیں پیوستہ تھیں۔مگر نہ جانے کتنی بہاروں کی امیدیں یہاں سفارش اور رشوت کی خزاؤں کی نذر ہوتی ہیں۔

تیمور کے دو دوست تھے جن کے ساتھ وہ فراغت کے لمحے گزارتا تھا۔شہریار اور طلحہ دونوں متمول گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ہفتے کی شام کسی فاسٹ فوڈکارنر یا پارک وغیرہ میں ملتے تھے۔ اس ہفتے ملے تو دونوں بہت خوش تھے۔

شہریارکے چہرے پر آگے پڑھنے کے لیے انگلستان کا ویزہ کھلکھلا رہا تھا جبکہ طلحہ کی باچھوں پر والد کے تعلقات کی سفارش براجمان تھی جسکے باعث اسے ایک اچھی کمپنی میں ملازمت ملی۔ ان دونوں کے قہقہے اور اظہارِ مسرت آج تیمور کو تازیانے لگ رہے تھے۔ وہ انکی ہنسی میں نیم دلانہ شامل تو تھا لیکن اسکے اندر سالوں سے پلتی احساسِ کمتری کی چنگاری آج آتش فشاں بن گئی ۔

یہ ہی وہ غلطی ہے جو اکثر متوسط اور محدود وسائل والے والدین کی طرح چراغ دین اور حلیمہ نے بھی کی ۔ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کی خواہشات پوری کرنے کی دوڑ میں تربیت میں قناعت کا عنصر کھو دیتے ہیں ۔بچوں کو اپنے حال میں مست رہنے کی درویشی کی تلقین والدین کی طرف سے اولاد کے لیے سب سے بڑا فیض ہو سکتا ہے۔ مگر بے جا لاڈ پیار بچوں کی حقیقی کردار سازی میں رکاوٹ بنتا ہے ۔خود ترحمی کی دیوار جستجو کے راستے میں حائل ہو جاتی ہے ۔اپنے من میں ڈوب کر انسان سراغ زندگی پانے کے لئے اپنا ہی نہیں بن پاتا تو خدا کا کیا بنے۔۔

تیمور اگلے دن ایک انٹرویو دے کر گھر لوٹا تو شہریار اور طلحہ کے قہقہے اسے اب تک اپنی بے مائیگی کے خلا میں گونجتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے حلیمہ نے اسکے چمکتے چہرے پر پر یاسیت کے گہرے ہوتے سائے کو بھانپ لیا۔ اپنی ہمیشہ کی امید پرست مسکراہٹ سجائے کہنے لگی کوئی بات نہیں اللہ بھلی کرے گا۔ لیکن تیمور کے اندر تو جیسے کوئی آتش فشاں ابل رہا تھا ،اچانک پھٹ پڑا۔۔کیا بھلی کرے گا ۔ نہ آپ لوگوں کے پاس پیسے ہیں مجھے باہر بھیجنے کے اور نہ ہی کوئی بڑے لوگوں میں جان پہچان کہ میرا کہیں کوئی جاب ریفرنس بن سکے ۔ ایک عام سے گورنمنٹ کے ادارے سے ڈگری کی کیا اوقات ہے بڑی بڑی یونیورسٹیز کے سامنے۔آپ لوگوں نے کیا ہی کیا میرے لیے ۔خود بھی رینگ رینگ کر ترس ترس کر زندگی گزاری مجھے بھی اس راہ پر ڈال دیا ۔۔۔
آپ لوگوں نے میرے لیے کیا ہی کیا ہے۔۔کیا ہی کیا ہے۔ ؟

حلیمہ کی آنکھوں سے آنسو سالوں کے ضبط کا بندھ توڑ کر بہہ نکلے۔ خدا کے عرش تک پھیلی پرانی چادر سمٹ کر انسان کے فرش تک آ گئی۔ سال ہا سال سے ضرورتوں کی اس قحط زدہ خشک چادر پر آج آنسوؤں کی بارش برسنے لگی۔

روشن علی جو اندر بیٹھا زخمی دل کے کانوں سے یہ سب کچھ سن رہا تھا باہر آ کر سامنے پڑی اپنی زندگی کی طرح ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر تقریبا گر ہی گیااور روہانسی آواز میں گویا ہوا۔
تیمور میرے بیٹے میرے لعل۔آج کے دن تک تو تو وہی ننھا تیمور ہی نظر آتا تھا۔میرے کاندھوں پر سوار خدا کاشکر ہے کہ آج تو جوان ہوکر اپنے پیروں پہ کھڑا ہوا۔۔
میرے لختِ جگر ۔ایک عام سا مسلمان ہوں کوئی تقوی و پرہیز گاری کا لمبا چوڑا دعوی نہیں لیکن پیٹ کی بھوک روح کی احتیاج نہیں بننے دی۔ حرص کے بازار میں باطن کی بولی لگا کر میں نے ظاہر کو زرق برق سے نہیں ڈھانپا۔

پیٹ حرام کے نوالے سے ایک بار دوزخ بن جائے تو کبھی نہیں بھرتا یہاں تک کہ انسان خود اس کا ایندھن بن کر جل مرے۔ضرورتوں کے بتوں کو میں نے مسجود نہیں جانا۔ کیونکہ میں وہ آدم تھا جسے ایک ممنوع دانےکی وجہ سے جنت سے نکالا گیا تھا اب اس دانے کی وجہ سے زمین سے بھی نکالا جاتا تو کہاں جاتا ہم سب کے باپ آدم نے جسے اپنی جان پر ظلم قرار دیا میں وہ ظلم کر کے خسارہ پانے والوں میں سے نہیں ہو سکتا تھا میرے لختِ جگر۔۔ مجھے اس رب کے سامنے پیش ہونا ہے جسکی رضا کا میں نے تیری اشتہا سے شرک نہیں کیا اور مجھے اس پر شرمندگی نہیں فخر ہے…یہ میری زندگی کا حاصل ہے میرے بیٹے۔۔اسکے سوا ہم نے سب کچھ تجھ پر قربان کر دیا ۔تیرے بچپن سے لے کر آج تیرے مقابل کھڑے ہونے تک تجھے سوچا ،تجھے محسوس کیا ،تجھے پیار کیا ،تیرا انتظار کیا ،تو سویا تو سوئے تو جاگا تو جاگے ، تو ہنسا تو ہماری روحوں کو گدگدی کر دی تیری آنکھ بھر آئی تو تیرے آنسو ہمارے دلوں پر گرے۔تیری ماں نےزندگی بھر کے لیے اپنا بناؤ سنگھار تجھے بنایا ، میرے لئے تیرے پہلے بستے سے لے کر آخری لیب ٹاپ تک ،تیری الف ب سے لے کر انجینئرنگ کی ڈگری تک زندگی تیرے مدار میں گھومتی رہی۔ جو کچھ خود کو ملا تجھے اس سے بہتر دیا ، اپنی بساط و اوقات سے بڑھکر دیا۔ اب تو آنکھوں میں بس یہ نمی رہ گئی،یہ بھی لے لے اگر کچھ کمی رہ گئی ۔۔۔۔

اگلے دو دن روشن علی اور حلیمہ کے ایک دوسرے سے نم آنکھیں چراتے گزرے۔ آخر روشن علی نے حلیمہ کو بٹھا کر کہا تیمور کسی سے فون پر غیر قانونی رستے سے پردیس جانے کی بات کر رہا تھا ۔چل اس مکان کو بیچ کر گاؤں چلتے ہیں اور اسکے پیسے تیمور کو دے دیتے ہیں تا کہ وہ قانونی طریقے سے باہر کے ملک چلا جائے۔قربت بوجھ بن جائے تو دوری نعمت ہوتی ہے۔یاد ہے ایک دفعہ تو نے کہا تھا ہم اپنے بچے پر بوجھ نہیں بنیں گے۔ لے پھر وہ وقت آ گیا۔ زندگی کی ناؤ آزمائش کے ہر گرداب سے تیری حلیمی کے چپو کےسہارے پار ہوئی حلیمہ..اب اس آخری بھنور میں بھی اس کشتی کو صبر کا دھکا دے دئیں بھلیے لوکے۔۔ اور ویسے بھی۔۔اور ویسے بھی حلیمہ نے اپنا کانپتا ہاتھ روشن علی کے منہ پر رکھ دیا اور آنسوؤں میں غوطہ زن آواز میں کہنے لگی۔ بس روشن علی بس تیرا اگلا جملہ کہیں ازرائیل کا ہاتھ بن کر بدن سے روح نہ کھینچ لے اسرافیل کا ثور بن کر حشر نہ برپا کر دے.چل چلیں “اللہ بھلی کرے گا”۔حلیمہ کا روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بہت معدوم سا مسکراتے ہوئے ہونٹوں کے سنگ “اللہ بھلی کرے گا ” کہنے کا حلم روشن علی کے لیے زندگی بھر روشنی کا ماخذ رہا ۔

چند ہی ہفتوں میں روشن علی اور حلیمہ گاؤں کے راستے پر رواں تعبیر کی بس پر اور تیمور اونچی ہواؤں میں بسے اپنے خوابوں کے جہاز پر سوار ہو چکا تھا۔ تیمور جب ائیر پورٹ لاؤنج میں داخل ہو رہا تھا تو زندگی میں پہلی اور آخری دفعہ ایئر پورٹ پر آنے والے روشن علی اور حلیمہ نے اسے دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور حلیمہ نے پرانی چادر اٹھا کر کہا کہا۔۔ ہماری فکر نہ کریں تیمور بیٹے “اللہ بھلی کرے گا ”
اس جملے کو سن کر تیمور کو زندگی میں پہلی بار حلیمہ کی امید پرستی پر یقین آیا۔لیکن وہ جدت کا مسافر تھا۔جدت کے مسافر قدامت کی زادِ راہ احساسِ زیاں کے در آنے تک ساتھ نہیں رکھا کرتے ۔۔۔
ایسے میں وقت کو پر نہیں فطرت کے پروں کو وقت لگ جایا کرتا ہے۔ عہد بیتنے کے لیے ہوتے ہیں بیت جایا کرتے ہیں ۔

روشن علی اور حلیمہ جنہیں زندگی بھر کا تیمور کے لیے کیا ہوا۔۔نہ تھکا سکا، نہ گرا سکا۔۔ تیمور کا یہ پوچھنا کہ “میرے لیے کیا ہی کیا ہے” اوندھے منہ گرا گیا.انگ انگ تھکا گیا۔ وہ جن انگلیوں اور ہاتھوں کو پکڑ کر تیمور نے چلنا سیکھا تھا اب اپنی توانائیاں اسکے راستوں میں چن کر بے جان ہونے لگے تھے ۔ آنکھیں جو عمر بھراسکے خوابوں سے جگمگاتی رہیں اب تعبیرِ معکوس میں اپنی روشنیاں کھونے لگی تھیں ۔۔اسکی منزلوں کو خود پر اٹھانے والے کاندھے اپنے ہی بوجھ سے ڈھلکنے لگے۔ اسکی زیست کے سنگِ میل اور منزلوں کے پیچھے بھاگتے قدم اب تھکن سے چور لڑکھڑانے لگے۔ ہجر طویل اور انتظار بے فیض ہو جائے تو زندگی خود کو موت کے سپرد کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے ۔۔پہلے روشن علی تیمور کے انتظار کے زخموں کی تاب نہ لا سکا اور حق حلال کھلانے والے کے پاس جا پہنچا اور پھر کچھ ہی عرصے میں حلیمہ کے ساتھ اللہ نے بھلی کر دی ۔۔

تیمور نے وہاں ایک جدید پاکستانی گھرانے میں شادی کی اسکے دو بچے تھے ۔احساسِ کمتری کے خلا کو اس نے مغربیت کی آسائشوں سے پر کرنے کے لیے بڑے جتن کئے۔اپنے ماضی سے نظریں چرانے کا یہ سفر اپنے اندر پندرہ سال سمیٹ چکا تھا ۔ مگر کوئی خلا تھا جسکی بقا سے لڑتے لڑتے وہ تھکنے لگا تھا۔اس کے اندر ہی اندر ایک ٹکٹکی چل چکی تھی ۔ سوچ کی دیوار پر ایک ایسا گھڑیال نصب ہو چکا تھا جسکی سوئیاں اینٹی کلاک وائز چلنا شروع ہو گئیں تھیں۔اسکا ماضی کی طرف سفر شروع ہو چکا تھا۔وہ یادوں کا مسافر بن چکا تھا۔

اسکا ایک بیٹا تھا ارسل اور ایک بیٹی منشا۔ وہ دونوں جدید دور کے نوجوان تھے ۔۔ اقدار سے بے بہرہ جدیدیت کی خالص پراڈکٹس۔۔اس اسکے دونوں بچے مختلف موضوعات پر اس سے بہت زیادہ بحث کرنے لگے تھے ۔۔انکے خیال میں وہ ماڈرن سوچ بچار کا آدمی نہیں تھا اور اسکے اندر کی پاکستانی دیسی روح اکثر باہر آ جایا کرتی تھی ۔جس سے وہ الرجک تھے۔

اسکے بیٹے نے او لیولز کا امتحان پاس کیا تو نہ جانے اسے کیا ہوا ۔تیمور نے اپنے دفتر سے واپسی پر اپنا میک اپ درست کرتی بیوی علیزے سے کہا کیا تم کھوئے والی کھیر بنا سکتی ہو ۔آگے سے اسکی بیوی کا قہقہہ اوراستہزائیہ انداز میں انگریزی زبان میں یہ کہنا کہ “آر یو گان میڈ “(تم پاگل تو نہیں ہو گئے) اسے روحانی کیا جسمانی طور پر ماضی کے دھندلکوں میں پٹخ گیا۔ اس نے جواباْ انگریزی ہی میں کہا “آئی ڈو ہیو سم ویلیوز ” بحث طوالت پکڑ گئی۔بچے بھی شامل ہو گئے اور اس وقت اسکے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی جب اسکے دونوں بچوں نے بیک زبان اس سے انگریزی میں کہا “وٹ ہیو یو ڈن فار اس ” آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے ؟ کیا ہی کیا ہے.کیا ہی کیا ہے۔۔

اس آواز کی بازگشت اسے دو دہائیاں پیچھے لے گئی۔۔۔مکافات کی چکی چلنا شروع ہو چکی تھی۔۔مگر ابھی قدرت کی بے آواز لاٹھی کی صدا اس نے سننی تھی ۔ابھی پچھتاوے کی جس آگ میں اس نے جلنا تھا۔اسے اندازہ نہیں تھا ۔ اس پر ابھی کچھ ایسا آشکار کیا جانا باقی تھا جس سے اسے باقی ماندہ زندگی روح کو بدن کے کیکر پر رگیدتے گزارنی تھی…… وہ چھت پر جا کر بہت رویا ۔۔۔۔ اس نے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا ۔وہ چند روز بعد پاکستان آیا وہاں سے گاؤں پہنچا اور پھر سیدھا اپنے ماں باپ کی قبر پر پہنچا۔ وہاں وہ اتنا پھوٹ پھوٹ کر رویا کہ اسکی ہچکی بندھ گئی ۔۔نہ جانے کتنی دیر وہ وہاں بیٹھاسسکتا رہا۔جب وہاں سے اٹھا تو شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے ۔لڑکھڑاتے قدموں سے وہ اس گھر کی طرف بڑھا جہاں پر اسکے ماں باپ نے اسکے انتظار میں زندہ درگور ہوئے۔ اسکے ایک رشتہ دار نے اسے وہ کمرہ کھول کر دیا تو کمرے میں ایک پرانے صندوق میں اسکے ماں باپ کے چند کپڑے رکھے تھے ۔وہ کپڑوں کو ایک ایک کر کے نکالتا رہا چومتا رہا اور سینے سے لگاتا رہا۔کپڑوں کے نیچے روشن علی کی ایک ڈائری رکھی تھی ۔بہت پرانی اور بوسیدہ۔۔اس نے وہ ڈائری اٹھائی اور پڑھنا شروع کر دی۔۔

” حلیمہ کو ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ کبھی ماں نہیں بن سکتی۔وہ بہت روئی ۔بہت پریشان تھی ۔ میں نے اسے تسلی دی۔اور بچہ گود لینے کا فیصلہ کر لیا ۔ عبدالستار ایدھی صاحب کے جھولے سے خدا نے ہمیں ایک بیٹا عنایت کر دیا ۔ہم نے اسکا نام تیمور رکھا ہے ۔ہم دونوں بہت ہی زیادہ خوش ہیں اور رب کا شکر ادا کرتے ہیں۔ہم دونوں کی ایک ایک سانس ایک ایک دھڑکن ایک ایک گام ۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پیارے تیمور عالم کے نام
تیمور پتھر ہو چکا تھا ۔ اسکا جسم ساقط تھا ۔آنسو اب موم بتی کے موم کی طرح قطرہ قطرہ دل پر گر رہے تھے اور اسکی روح میں چھید کر رہے تھے اس کوپوری کائنات نوشتہ دیوار پڑھ کر سنا رہی تھی۔ جس میں اسے باقی زندگی پچھتاوے کی کسک کے ساتھ گزارنی تھی۔مکافات کی چکی میں بہت باریک پسنا تھا اسکا جی چاہا کہ اس کا سب کچھ کوئی لے لے اور اسے اپنی ماں حلیمہ کا ایک جملہ عطا کر دے کہ “اللہ بھلی کرے گا ” ۔۔مگر یہ ممکن نہ تھا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply