عاجزی اور غرور۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

عاجزی عطا ہے ، غرور ِاک خطا ہے۔ عاجز انسان کسی معاملے میں‘ کسی انسان کے سامنے ‘کسی بھی موقع پر‘ ایسا رویہ نہیں اپناتا ٗسے غرور سے تعبیر کیا جا سکے۔ غرورٗ صرف غرور کرنے والے کے دعوے کا نام نہیں ‘ بلکہ محسوس کرنے والوں کے احساس کا نام بھی ہے۔ ہر دعوے کے باطن میں غرور سر اٹھائے کھڑا ہے۔عاجزی کا دعویٰ بھی غرور کی ایک قسم ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ کا فرمان ہے “انسان کا ہر دعویٰ خطا ہے ، اِس کاہر حاصل عطا ہے۔

غرور   زور اور زَر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، بسا اوقات یہ نسب پر فخر کے پردے میں بھی کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نام و نسب ہو‘ یا کوئی دولت ِ ہنر ٗ کسی میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کے وہ محلِ غرور کی بنیاد بن سکے۔ جس کے مقدر میں زوال ہو، فنا ہو‘ اُسے زیبا ہی نہیں کہ وہ قولِ غرور منہ سے نکالے۔ قولِ غرور۔۔۔دراصل قولِ زُور ہوتا ہے۔ غرور ایک دھوکہ ہے اور یہ دھوکہ انسان سب سے پہلے خود کو دیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اُس کے حاصل کی بنیاد اُس کا استحقاق ہے ٗیا پھر اُس کی استعداد۔ اور یہ دونوں اندازے اور دعوے غلط ہیں۔ غرور اپنے اندر ایک دعوے کے سوا کچھ نہیں رکھتا، اور یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ غرور کرنے والے کی جست ایک کنویں کے مینڈک کی چھلانگ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ وہ کہتا ہے کہ میں مان ہی سکتا ہے کہ کوئی دریا اِس کنویں سے بڑا بھی ہو سکتا ہے، کوئی تیراک مجھ سے بڑی چھلانگ لگا سکتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا کہنا ہے “غرور اپنے سے بلند تر مقامات سے بے خبری کا نتیجہ ہے” آپؒ ہی ایک ارشاد ہے ٗ جو آپ ؒ کے مزارِ اقدس پر آویزاں قطعات میں لکھا ہوا ہے” انسان کا ہر دعویٰ خطا ہے اور اس کی ہر حاصل عطا ہے”

غرور ایک ابتلا ہے۔ جب انسان غرور میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ دوسروں سے پہلے خود کو ابتلا میں ڈالتا ہے۔ غرور کا شکار ہونے والا سب سے پہلے احساسِ برتری میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہ احساس کہ’’ میں دوسروں پر برتری رکھتا ہوں‘‘ دراصل ابلیسی فکر کا پہلا باب ہے۔ کائنات میں سب سے پہلا گناہ غرور تھا۔ جو اعلیٰ ہے‘ اُسے اپنے اعلیٰ ہونے کا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں۔ اعلیٰ اور ادنیٰ کی تقسیم خالق کے ذمے ہے، انسان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ خود کو دوسروں سے اعلیٰ اور برتر تصور کرے۔ مخلوق میں سے کسی کو ادنیٰ قرار دینا‘ خالق کے عظیم الشان تخلیقی منصوبے میں نقص نکالنے کے مترادف ہے۔ مخلوق کی عزت‘ خالق کی عزت ہے، مخلوق کی توہین گویا خالق کے عمل کی توہین ہے۔ غرور میں ایک مصیبت یہ ہے کہ جس پر یہ بلا نازل ہو جاتی ہے وہ دوسروں کی توہین کرنا اپنا پیدائشی حق تصور کرنے لگتا ہے۔

عاجزی میں برکت ہے۔ غرور میں صرف حرکت ہے  اور وہ بھی بے برکت! ضد، اَنا اور غرور کے سامنے طاقت آن کھڑی ہو جاتی ہے۔۔۔ عاجزی کو راستہ مل جاتا ہے۔ آناً فاناً۔ عاجزی عافیت ہے ، غرور ایک آفت ہے۔ عاجزی ۔۔ طاقت کی بھاری بھر کم کلوں کے درمیان سے سبک رَو ہوا کی طرح گزر جاتی ہے۔ ضد، اَنا اور غرور راستوں میں پڑے بھاری پتھر ہیں، جب بھی کسی بڑی طاقت کا گزر ہوگا ٗ اس کے بلڈوزر اِن پتھروں کو روندتے ہوئے، روندتے ہوئے گزر جائیں گے ۔ ہر مغرور کے مقابلے میں ایک سرِ پُرمغرور موجود ہے۔ ہر فرعون کے مقابلے ایک فرعون موجود ہے ، فرعون کے سامنے اگر موسیٰ نمودار ہو جائے تو یہ اُس پر احسان ہے۔۔۔ مہلت کی داستان ہے۔ غرور کا انجام عبرت ہے‘ خواہ آغاز کتنا ہی پُرکشش دکھائی دے۔ عاجزی کا مقام عزت ہے‘ خواہ اپنے آغاز میں کتنی ہی دَرماندہ اور گری پڑی دکھائی دے۔

عاجزی کمزوری کا نام نہیں۔ عاجزی ،تمام تر طاقت رکھنے کے باوجود اپنی طاقت کو اخلاق کی دہلیز پر سرنگوں کرنے کا نام ہے۔ ایک غریب بھی مغرور ہو سکتا ہے، اور ایک امیر بھی عاجز ہو سکتا ہے۔ غریب کی اَنا اگر اخلاق کا سبق پڑھنے سے انکار کر دے تو وہ مغرور ہے ۔۔۔ اور دہرے عذاب میں ہے… یعنی وہ ظاہری طاقت سے بھی محروم رہا اور اخلاقی طاقت بھی اس کے نصیب میں نہ رہی۔ اگر وہ دائرۂ اخلاق میں رہتا تو اُسے اخلاقی طاقت حاصل ہو جاتی ہے۔اخلاقی طاقت کے ملنے سے انسان عزت والا کہلاتا ہے۔ اخلاقی طاقت ضبط سے پیدا ہوتی ہے۔ اخلاقی طاقت کا منبع ٗصبر ہے۔
اِنسان کا شرف ‘اِس کا عجز ہے… انسان اپنے شرف کو بھول گیا ہے ، وہ طاقت اور طاقت کے غرور میں عزت تلاش کررہا ہے۔ ظاہر پرست انسان کو فوری فائدہ درکار ہے۔۔۔ اِسے راتوں رات شہرت ، دولت اور منصب چاہیے  اور ہر قیمت پر چاہیے‘ خواہ اِس کی قیمت شرفِ انسانی ہی کیوں نہ ہو۔ فوری فائدے کو دنیا کہتے ہیں۔ دنیا دار انسان صبر نہیں کر سکتا۔ وہ قلیل فائدے کی خاطر جلیل مرتبے کا سودا کر لیتا ہے۔ وہ اپنی صلاحیت ، دولت اور طاقت کا فوری فائدہ وصول کرنا چاہتا ہے، چنانچہ وہ کثرت کے بازار میں اپنی صلاحیتوں کا خوانچہ لگا کر بیٹھ جاتا ہے اور ہیروں کو کوئلوں کے بھاؤ فروخت کر کے قیمت جیب میں ڈال لیتا ہے اور اپنے تئیں خود کو کامیاب انسان تصور کرتا ہے!

عبادت کے لیے عاجزی درکار ہوتی ہے۔ مغرور عابد بے فائدہ مشقت میں ہے۔ عاجز گنہگار ٗمغرور عابد سے بہتر شمار کیا گیا ہے۔ مغرور عابد کبھی توبہ کے قریب نہیں جائے گا، اسے اپنی عبادت کا ہنر چمکانے ہی سے فرصت نہیں۔ وہ خود کو کبھی غلط قرار نہیں دے گا،اُس نے غلط قرار دینے کے لیے اپنے علاوہ ‘ وہ ساری مخلوق مقرر کر رکھی ہے‘ جو اُس کی دانست میں غیر عابد ہے۔۔۔ حالانکہ ہر ذی روح اپنی مقرر کردہ عبادت سرانجام دے رہا ہے ، اپنی شاکلہ کا وظیفہ صبح شام کر رہا ہے۔ طوعاً کرھاً !

Advertisements
julia rana solicitors

اخلاق کا حرم ہو یا کوئی عبادت گاہ ٗ داخل ہونے کا اِذن پانے کے لیے پاکیزگی شرط ہے۔ وضو لازم ہے، نیت کا وضو اوّل ہے، ہر نجس سے نجات لازم ہے۔۔۔ جذبوں اور احساسات کی پاکیزگی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ عاجزی  دِل کی پاکیزگی کا عالم ہے۔ غرور ایک ناپاک جذبہ ہے۔ ہمارے باطنی وجود کو دَم بھر میں پاکیزگی سے دُور کر دیتا ہے۔ ہمیں کسی محراب میں معتکف ہونے کے لائق نہیں چھوڑتا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply