مذاکرات ایک نیا جال/محمد اسد شاہ

سیاست میں مولانا فضل الرحمٰن ، میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری زیادہ تجربہ کار اور پرانے سمجھے جاتے ہیں ، لیکن گزشتہ 12 سالہ مشاہدات یہ ثابت کرنے کو کافی ہیں کہ عمران خان کے “اساتذہ” کہیں زیادہ ہوشیار اور چال باز ہونے کے ساتھ ساتھ غیر معمولی حد تک طاقت ور اور بارسوخ ہیں ۔ “پراجیکٹ عمران” پر کام تو پہلے سے شروع تھا لیکن اس کا باقاعدہ آغاز 2011 میں ہوا اور تقریب رونمائی مینار پاکستان پر ایک جلسہ کروا کے کی گئی ۔ اس جلسے میں ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ جمع کیے گئے اور عمران کو ایک بڑا لیڈر بنا کر پیش کیا گیا ۔ پہلے دن سے ہی عمران کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ اسے وزیراعظم ہونا چاہیے ۔ اگر وہ وزیراعظم نہیں تو دنیا بے کار ہے اور ملک و قوم مذاق ہے ۔

پھر اچانک طاہر القادری کے ذریعے “سیاست نہیں ، ریاست بچاؤ” کے نام پر دھرنا شروع کیا گیا ۔ عوام آج تک نہیں جان پائے کہ تب ریاست کو کون سا خطرہ لاحق تھا اور کون سی ایسی سیاست تھی کہ جس کو روکنا ضروری تھا ۔ لیکن تاریخ کی اس شرم ناک کارروائی کا مقصد یہ تھا کہ 2013 کے لازمی انتخابات رکوائے جائیں، کیوں کہ ان انتخابات میں عمران کو وزیراعظم بنوائے جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا ۔ تب وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور زرداری صاحب صدر مملکت تھے ۔ زرداری صاحب جوڑ توڑ کی سیاست کے ماہر ہیں اور خصوصاً افہام و تفہیم کے ذریعے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ انھوں نے اس خوف ناک دھرنے کو کسی نہ کسی طرح ختم کروایا ۔ انتخابات ہوئے اور تمام عالمی پیش گوئیوں اور واضح توقعات کے عین مطابق مسلم لیگ نواز بہت آسانی اور بھاری اکثریت سے جیت کر ایک بار پھر ملک کی سب سے بڑی جماعت ثابت ہو گئی ۔

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں صرف دو انتخابات ایسے ہوئے جن کی شفافیت کو پوری دنیا میں تسلیم کیا گیا؛ ایک 1970 میں اور دوسرے 2013 میں ۔ لیکن نادیدہ قوتوں کو شفافیت ہی سے تو نفرت ہے ۔ 1970 کے انتخابات کا نتیجہ تسلیم نہ کیا گیا ، حتیٰ کہ ملک کا جغرافیہ تباہ ہو گیا ۔ اسی طرح 2013 کے انتخابات کا نتیجہ تسلیم نہ کیا گیا ، حتیٰ کہ ملکی معیشت، سیاست ، ثقافت اور اخلاقیات تک کو تباہ کر دیا گیا ۔ 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں میاں صاحب تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے ۔ یہ کامیابی ان قوتوں کے لیے انتہائی اذیت ناک تھی جو اپنے “شاگرد” عمران کو وزیراعظم بنانے کے منصوبے پر دن رات کام کر رہی تھیں ۔ تب تو شاید بہت کم لوگوں کو معلوم تھا لیکن آج پوری دنیا جان چکی ہے کہ اس منصوبے پر بہت زیادہ “غیر ملکی” سرمایہ کاری کی گئی ۔

فارن فنڈنگ کیس اسی سرمایہ کاری کا ایک چھوٹا سا ثبوت ہے ۔ 2013 کے انتخابات کے فوری بعد نئی تراکیب پر غور شروع ہوا اور پھر لندن میں خفیہ ملاقاتوں میں نیا منصوبہ طے پا گیا ۔ ان ملاقاتوں میں راول پنڈی کا وہ شخص بھی شامل تھا جس نے 2002 کے انتخابات میں سرعام کتاب مقدس پر حلف اٹھا کر ، پنڈی کی دونوں  نشستیں میاں صاحب کے قدموں میں رکھنے کا وعدہ کر کے ووٹ لیے تھے ، لیکن پھر عوام کے اعتماد کو جنرل پرویز کے قدموں میں پھینک دیا ۔ “لندن پلان” کے تحت 2013 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ مشہور کرنے کی کوشش کی گئی ۔

2014 میں لانگ مارچ کروائے گئے ، دھرنے کروائے گئے ، گلی گلی گالیوں کا مینہ برسایا گیا ۔ عمران نے اپنے نمائندوں کے ذریعے معاہدہ کیا کہ اس کے ورکرز ڈی چوک نہیں جائیں گے ، لیکن اس معاہدے کو توڑ دیا گیا ۔ پی ٹی وی اسلام آباد مرکز پر قبضہ کر کے ٹیلی فون پر ایک دوسرے کو مبارکیں دی گئیں ۔ ہتھیاروں اور اوزاروں سمیت “ورکرز” نے پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیراعظم ہاؤس پر باقاعدہ حملہ کیا ۔ سپریم کورٹ کے ججز کو روکنے کی کوششیں کی گئیں ۔ پولیس افسران پر بدترین تشدد کیا گیا ۔ دھرنے کے دوران نیوز چینلز کو حکم تھا کہ خالی کرسیاں بالکل نہ دکھائی جائیں البتہ “لیڈر” کا ہر خطاب براہ راست دکھایا جاتا رہے ۔ تب سے اب تک اس ملک میں سیاسی استحکام کبھی نہیں آنے دیا گیا ۔

2018 میں عمران کو وزیراعظم بنوایا گیا تو اپوزیشن کا وجود اس شخص کے لیے ناقابلِ برداشت تھا ۔ ملک کے پونے چار سال صرف تقریریں اور جعلی مقدمے قائم کرنے میں برباد کر دیئے گئے ۔ اس دوران اپنے ساتھیوں کے ذریعے لوٹ مار اور اندھا دھند کرپشن کے ریکارڈ قائم کیے گئے ۔ 1947 سے 2018 تک جتنے قرضے تمام حکومتوں نے مجموعی طور پر لیے ، ان کا 80 فی صد صرف عمران نے پونے چار سالوں میں عوام کے سر پر چڑھا دیا ۔ جنرل پرویز کے 10 سال ، میاں صاحب کے تین ادوار کی کل مدت 9 سال اور زرداری کے 5 سالوں کے مجموعی قرضوں سے بھی تین گنا زیادہ قرض صرف عمران کے پونے چار سالہ دور میں لیا گیا ۔ عمرانی قرض کے اسی ماؤنٹ ایورسٹ کا نتیجہ ہے کہ ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا اور غریب عوام کی آئندہ کئی نسلوں کو مہنگائی کا عذاب بھگتنا پڑے گا ۔

عمران حکمران تھا تو جب بھی اپوزیشن نے مذاکرات کی دعوت دی، عمران نے نہایت رعونت کے ساتھ ہر دعوت کو مسترد کیا اور “این آر او” کی گردان جاری رکھی ، حالانکہ این آر او سے مستفید ہونے والے تمام کے تمام لوگ عمران کی پارٹی اور حکومت میں ہی موجود تھے ۔ لامتناہی مقدمہ بازیوں اور فسطائیت سے تنگ آ کر اپوزیشن متحد ہو گئی اور ملکی تاریخ میں پہلی بار تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ۔ لیکن اب تک عمران خان نے ملکی سیاست اور نظام کو عدم استحکام سے دو چار کر رکھا ہے ۔ تکلیف یہی ہے کہ “میں وزیراعظم کیوں نہیں!” ۔ پنجاب ، گلگت بلتستان ، خیبرپختونخوا اور آزاد کشمیر میں حکومتوں اور اپنی مرضی کے صدر مملکت ہونے کے باوجود ہوس اقتدار کم نہیں ہو رہی ۔

2014 سے اب تک عمران نے جتنے بھی جلسے کیے ، اور جتنے بھی دھرنے دیئے ، ہر موقع پر تحریری معاہدوں اور قوانین و ضوابط کو علی الاعلان توڑا جاتا رہا ۔ حتیٰ کہ امسال مئی میں اسلام آباد میں دھرنے کے لیے عمران نے خود سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی اور جگہ کے تعین کا مطالبہ کیا ۔ سپریم کورٹ نے اسی کی درخواست پر وفاقی حکومت کو رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا اور اسلام آباد میں عمران کے جلسے کے لیے جگہ مخصوص مخصوص کر دی ۔ لیکن دوسری طرف عمران نے اپنے کارکنوں کو فوراً ڈی چوک پہنچنے کی ہدایات جاری کر دیں ۔ یعنی سپریم کورٹ میں اپنے ہی وکلاء کے ذریعے دی گئی تحریری یقین دہانیوں کو اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیا ۔ توہینِ عدالت کا مقدمہ ہوا تو بچاؤ کا راستہ تیار کر لیا گیا ۔ کہا گیا کہ “وکلاء نے بتایا نہیں تھا!” ۔ یعنی وکلاء نے یہ تو بتا دیا کہ سپریم کورٹ نے رکاوٹیں ہٹانے اور مخصوص جگہ پر جلسے کا حکم دیا ہے، لیکن یہ نہ بتایا کہ کون سی جگہ؟ کیسی ڈرامے بازی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب عمران نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تڑوانے کا اعلان کیا تو دونو صوبوں میں اس کے اپنے ہی ارکان رکاوٹ بن گئے ۔ محمود خان کہتا ہے کہ پہلے پنجاب اسمبلی توڑو ۔ پرویز الٰہی کو معلوم ہے کہ اسمبلی توڑی تو اس کی وزارت اعلیٰ اور مونس کے سیاسی خواب ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے ۔ چناں چہ ہر طرف سے مایوس ہو کر عمران نے پہلے تو وزیراعظم شہباز شریف سے مذاکرات کی بھیک مانگی اور اگلے ہی دن حسب عادت مکر گیا ۔ ملک میں سیاسی استحکام لانے کا واحد طریقہ تو یہی ہے کہ مذاکرات کیے جائیں لیکن عمران کا سارا سیاسی اثاثہ “ناقابلِ اعتبار ہونا” ہے ۔ جو شخص ساری زندگی دوسروں کو گالیاں دیتا اور ان سے مذاکرات کو اپنی “شان کے خلاف” کہتا رہا ، وہ اب بھی مذاکرات نہیں کرے گا ۔ اس کے ملکی و غیر ملکی”اساتذہ” بہت عیار اور مکار ہیں جن کی چالیں بہت باریک ہیں ۔ حکومت کے لیے مذاکرات کا محفوظ طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ عمران خود مذاکرات میں بیٹھے اور جو کچھ بھی طے ہو ، اس پر خود عمران سے دست خط کروائے جائیں اور دست خط کی تقریب ٹی وی چینلز پر براہ راست دکھائی جائے ۔۔۔۔ اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو عمران کی مذاکرات والی درخواست بہت بڑی چال اور دھوکا ثابت ہو گی ۔ کیوں کہ یہ شخص تو سپریم کورٹ جیسے طاقت ور ادارے میں اپنے ہی وکلاء کے ذریعے دی گئی تحریری اور دستخطی یقین دہانیوں تک سے مکر جاتا ہے اور پھر بھی اس کو سزا سے بچا لیا جاتا ہے ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply