بُک ریویو:سوہاوہ۔۔مہرسخاوت حسین

گزشتہ دنوں مجھے جاوید اختر چوہدری کا افسانوں کا مجوعہ “سوہاوہ میری بستی میرے لوگ” موصول ہوا۔اگر ہم اردو نثری اصناف کو دیکھیں تو داستان اور ناول کے برعکس افسانہ جدید صنعتی اور مشینی دور کی پیداوار ہے۔ اس دور کے انسان کو تیزی سے بدلتے ہوئے زمانے کا ساتھ دینے اور زندگی کے نت نئے مسائل سلجھانے کے لئے شب و روز مصروف رہنا پڑتا ہے۔ اس مشینی دور کی تھکادینے والی تیز اور مصروف زندگی میں اس کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ نچنت ہو کر فراغت سے بیٹھے اور بھاری بھرکم داستانوں اور ضخیم قسم کے ناولوں کا مطالعہ کرکے جذباتی تسکین یا ذہنی تفریح کا سامان کرسکے۔ چنانچہ وقت کی کم دامنی کا یہ احساس ہی مختصر افسانے کی ایجاد کا باعث بنا۔
افسانہ زندگی کے کسی ایک واقعے یا پہلو کی وہ خلّاقانہ اور فنی پیش کش ہے جو عموماً کہانی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے۔

زیر مطالعہ افسانوی مجموعہ ” سوہاوہ میری بستی میرے لوگ ” جاوید اختر چوہدری کے افسانے ہیں جو انہوں نے سوہاوہ میں گزرے شب و روز کے احوال کو قلم بند کیا ہے ۔میں آپ کو تھوڑا سوہاوہ کا تعارف کرواتا چلوں تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم(انگریزی: Sohawa) پاکستان کا ایک رہائشی علاقہ جو پنجاب، پاکستان میں واقع ہے سوہاوہ کی مختصر تجاریخ تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم کی چار تحصیلوں میں سے ایک ہے۔ سوہاوہ گاؤں کے نام پر اس علاقے کو یہ نام دیا گیا۔ راجپوتوں کی قوم ‘سوہا’ یا ‘سوہاوہ’ نامی ہندو نے اسے 639ھ/ 1241ء میں آباد کیا۔یہ مجموعی علاقہ قدیم دور سے ”پبی” کے نام سے موسوم ہے۔ قوم کسوال (مہاجود کے لڑکے کیاس خان کی اولاد) 810ھ/1407ء میں یہاں آباد ہوئی۔ اکبر کے دور میں یہ علاقہ سلطان جلال خان کو منصب میں عطا ہوا۔ 1121ھ /1709ء میں بہادر شاہ بادشاہ نے روؤسائے پھ رہالہ سے یہ علاقہ لے کر گکھڑان میرپور کو اجارہ پر دے دیا۔ احمد شاہ درانی نے 1163ھ/175حسیں یہ علاقہ سلطان مقرب خان گکھڑ کو یہ علاقہ منصب میں عطا کیا۔ 1177ھ/1763ء میں گوجر سنگھ بھنگی اور پھر سرداران اٹاری کے قبضہ میں رہا۔سلطنت برطانیہ کی عملداری میں آنے کے بعد 1849ء میں راولپنڈی کو ضلع بنایا گیا تو اس علاقے کو راولپنڈی میں شامل کیا گیا، 1851ء میں اسے راولپنڈی سے ضلع جہلم میں منتقل کر دیا گیا۔اسے تحصیل کا درجہ ملنے سے پہلے تحصیل جہلم کے ایک تھانہ کی حیثیت حاصل تھی۔ 1850ء میں دھمیک (تحصیل سوہاوہ) کو تھانہ مقرر کیا گیا جبکہ 1864ء میں کرنل پرسٹو ڈپٹی کمشنر کے دور میں تھانہ، سوہاوہ کے قصبے میں منتقل کر دیا گیا اور 1985ء میں اسے تحصیل کا درجہ دے دیا گیا جس کی 10 یونین کونسلیں۔
احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں:

’’سماج سے ادب کارشتہ ہی اصل چیز ہے۔ جس ادیب کو ان رشتوں کا ادراک نہیں میرے خیال میں اس کا ادب اور فن بے معنی ہے‘‘

بنی نوع انسان کے ترقیاتی سفر میں دیہات یا گاؤں وہ پہلی کڑی ہے جس میں انسان نے گروہ میں رہنے کے ساتھ ساتھ روٹی ،کپڑا اور مکان کے بندوبست کا ہنر سیکھا اور یہیں سے صحیح معنوں میں معاشرتی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ دنیا کے زیادہ تر لوگ آج بھی گاؤں میں آباد ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ گاؤں کسی بھی ملک کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہے۔ خصوصاً ہندوستانی سماج میں گاؤں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ہندوستانی تہذیب اور ثقافت کے افہام و تفہیم میں گاؤں کا مطالعہ ناگزیر ہے ـ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردو شعروادب میں دیہی زندگی کی عکاسی خوب سے خوب تر انداز میں کی گئی ہے اور اردو افسانہ نگاری میں اس طرف خاص توجہ دی گئی ہے۔اردو افسانہ نگاروں نے تقریباً ہر دور میں دیہات اور دیہات سے جڑے مختلف مسائل کو اپنے افسانوں میں نہ صرف پیش کیا ہے بلکہ ان کو حل کرنے کی تدابیر بھی پیش کی ہیں۔مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے بھی اپنے افسانوں میں دیہات کی بھر پور انداز میں عکاسی کی ہے۔جاوید اختر چوہدری اپنے دیہات کی مٹی سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔وہ اپنے دیہات کی مٹی کو اپنے آباؤ اجداد سے تشبیہ  دیتے ہیں ۔وہ تصاویر کے ذریعے اس کوبھر پور انداز میں اجاگر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ان کی کتاب کے صفحہ 49 کے بعد تقریباً سولہ صفحات پرمشتمل تصاویر ہیں جو سوہاوہ میں گزرے ماہ و شب کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں ۔مصنف بیان کرتے ہیں کہ ان کے بچپن میں گھروں کی چاردیواریاں تعمیر کرنے کا رواج نہیں تھا۔جس طرح گھروں کے صحن کشادہ ہوتے تھے اسی طرح لوگوں کے ذہن اور دل بھی کشادہ ہوتے تھے۔ان الفاظ سے مصنف نے سوہاوہ کو پنجاب کا نمائندہ دیہات بنا دیا ہے ۔یقین جانیئے اس کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے اپنا گاؤں یاد آ گیا۔جہاں میں کھیتوں سے گنے توڑنے، باغوں سے آم، مالٹے توڑنے ہوئے اپنے آپ کو دیکھتا ہوں۔مصنف بڑے اچھوتے انداز میں اپنے بچپن کو بیان کرتا یے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف مصنف کا ہی بچپن نہیں بلکہ پورے پنجاب کے بچوں کا بچپن ہے۔جیسا کہ وہ لکھتے ہیں ۔
” وہ گرمیوں کے دن تھے۔ایک روز ایک بجے چھٹی ہوئی تو چند لڑکوں نے اسکول کے احاطے میں سے لسوڑے کے درخت سے لسوڑے اتارنے کا پروگرام بنایا۔”
صفحہ 117
مصنف اس میں اپنے بچپن کے اساتذہ کرام کو بھی خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔وہ گزرے ہوئے واقعات کو ادبی انداز میں بیان کرکے ان کا مقام و مرتبہ میں اضافہ کرتے ہوئے دیکھائی دکھتا ہے ۔آخر میں ایک سفرنامہ ہے جو مصنف نے اپنی شریک حیات کے ساتھ سفر کو بیان کیا ہے۔اس سفر نامہ کو خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس کتاب کے ناشر ” مہر فاونڈیشن ۔لاس اینجلس امریکہ” ہیں۔ خطہ پوٹھوہار کے رہنے والوں کے لئے ایک دلچسپ و معلوماتی کتاب ہے ۔معلوماتی اس لئے کہ وہاں کے رہنے والے قبائل کا شجرہ نسب بھی اس میں درج ہے۔کتاب کو پانچ حصوں میں منقسم کیا گیا ہے ۔
پہلے حصے میں کتاب کی وجہ تصنیف کو بیان کیا ہے۔اس میں “ڈرو چھیاں” کے چوہدری ولی محمد اور ان کے بیٹے شیر باز کے حالات زندگی کو افسانوی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ” پیر زندہ ” کے لوگوں مشاغل روزگار کو قلم بند کیا گیا ہے ۔
دوسرے حصے میں سوہاوہ کی جغرافیائی حیثیت کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔جن میں تالاب، مساجد و مدارس اور قلعہ روہتاس قابل ذکر ہیں۔اس میں مصنف اپنے آپ سے تاریخی سوالات اور جوابات دیتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں۔
تیسرے حصے میں پاکستانی دانشوروں کے علمی تجربے کے ساتھ شہاب الدین غوری کے مزار قاتلوں کا بیان ہے۔اگلے حصے میں سوہاوہ کی سماجی شخصیات کی زندگیوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔آخری حصہ میں منصف نے اپنے دوستوں کے خطوط شامل کیے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply