• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پیار یا نفسانی خواہشات پوری کرنے کا ذریعہ ۔۔پروفیسر رضوانہ انجم

پیار یا نفسانی خواہشات پوری کرنے کا ذریعہ ۔۔پروفیسر رضوانہ انجم

فیس بک پر ایک گروپ پوسٹ میں  کسی   لڑکے نے سوال کیا کہ۔۔۔

کیا والدین کو اولاد کی شادی اپنی مرضی سے کروانے کی اجازت ہے؟؟

مختلف لوگوں نے مختلف جوابات  دئیے۔کچھ نے کہا کہ والدین کو بالکل حق نہیں ہے ،اپنی مرضی تھوپنے کا ۔اور کچھ نے  کہا کہ مذہبی اعتبار سے نہ سہی لیکن اخلاقی اعتبار سے حق ہے والدین کو کہ وہ اپنی پسند سے بیٹیوں اور بیٹوں کی بھی شادی کر سکتے ہیں۔

بیشمار مختلف آراء میں ایک لڑکے رحمان آفریدی کا جواب مجھے بہت سچا،حقیقت سے نزدیک اور منطقی لگا۔

اُن کا کہنا تھا کہ۔۔”نفسیات کے مطابق جوانی میں انسان جذباتی ہوتا ہے۔حقیقت میں زیادہ تر لو میرج نہیں چلتی۔”پاکستان میں اپنی “جسمانی خواہشات” پورا کرنے کے لئے پیار کا “نسخہ”استعمال کیا جاتا ہے۔”خیالوں کی زندگی اور حقیقی زندگی میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ارینج میرج لو میرج سے بہت بہتر ہے۔”

رحمان آفریدی نے اپنی سادگی میں ایک بہت تلخ اور گھناؤنی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ یہ  کہ، ہمارا نوجوان طبقہ عام زندگی میں اپنے گرد ونواح میں اور فیس بک پر محبت کے جو کھیل کھیلتا ہے،جو فلرٹیشن کرتا ہے وہ محبت کی آڑ میں اپنے جسمانی تقاضے پورے  کرنے کے لیے کرتا ہے ۔لڑکے اور لڑکیاں دونوں اس گھناؤنے کھیل میں ملوث ہوتے ہیں اور اسے justify کرنے کے لیے “محبت”کا نام دیا جاتا ہے۔ اس محبت کی عمر چند ماہ سے لیکر چند سال تک ہوسکتی ہے۔ ایک لڑکے یا لڑکی کے متعدد بریک اَپس ہو سکتے ہیں، یعنی تُو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی ۔اور بقول رحمان آفریدی کے یہ سب “جسمانی خواہشات” کو پورا کرنے کے فارمولے ہیں۔

بے  حیائی  کے اس کھیل میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔کم عمر لڑکے بڑی عمر کی لڑکیوں کے ساتھ ملوث ہیں اور لڑکیاں چھوٹے بھائیوں جیسے بچوں کے ساتھ تعلقات بنا رہی ہیں ۔

ذہنی غلاظت کی انتہا یہ ہے کہ ان تعلقات میں ایک دوسرے کے ساتھ شوہر اور بیوی کی طرح کے تعلقات نبھائے جا رہے ہیں ،ایک دوسرے کو شوہر اور بیوی کی طرح مخاطب کیا جاتا ہے اور ادائیں دکھائی جاتی ہیں اور اسے relationship کا نام دیا جارہا ہے ۔

باالفاظ دیگر Audio اورVideo زنا عام ہے۔اور یہ قبیح کھیل شرفاء،مذہبی،دیندار والدین کی اولادیں بھی اسی رغبت سے کھیل رہی ہیں۔

بدقسمتی سے اس گھناؤنے پیار کے کھیل میں لڑکے تو لڑکے لڑکیاں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور یہ جاہل نہیں بلکہ پڑھی لکھی لڑکیوں کے چلن ہیں،جو بخوبی جانتی ہیں کہ ہوسکتا ہے جس لڑکے کے ساتھ وہ اس غلیظ رشتے میں منسلک ہیں اسکے ساتھ بوجوہ انکی شادی نہ ہوسکے۔

ایک ایسی ہی گمراہ لڑکی نے گروپ پوسٹ میں انتہائی معصومیت سے سوال کیا۔۔۔

“میں جس کے ساتھ پانچ سال سے ریلیشن میں ہوں اس نے اور میں نے وہ سارے مرحلے واٹس ایپ اور ویڈیو کالز پر طے کر لیے ہیں جو میاں بیوی کے درمیان ہوتے ہیں۔اب ہمارا بریک اپ ہو گیا ہے اور گھر والوں نے میرا رشتہ طے کر دیا ہے۔کچھ ماہ بعد میری شادی ہے۔مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں اسکے ساتھ کیسے پیار کروں گی؟ ہم تو سب کچھ کر چکے ہیں۔مجھے کوئی فیلنگ ہی نہیں آرہی۔۔ بتائیں میں کیا کروں؟ ”

مجھے یہ سب کچھ لکھتے ہوئے بے حد ندامت ہو رہی ہے،بے حد خجالت ہو رہی ہے کہ میں الفاظ کی حرمت کو بہت اہمیت دیتی ہوں  لیکن یہ سب سچ ہے،ایک ایک لفظ سچ ہے ۔

اس ننگے سچ کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے کے والدین،استاد،مبلغ،عالم دین،سماج سدھارو سو رہے ہیں ؟۔نوجوان نسل کی تربیت کی  ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟؟کون اس بپھری ہوئی نوجوان نسل کو غلاظت ،گناہ اور زنا کی دلدل میں ہر روز ڈبکیاں لگانے سے روکے گا؟  محبت کے نام پر میاں بیوی بن کر کھیلے جانے والے اس گھناؤنے کھیل کو کون بند کروائے گا ؟

کیا ہم مغربی معاشرے کی ساری غلاظتیں اپنے بچوں کو خرید کر تحفے میں دیں گے؟ ہمارا بیٹا اور بیٹی ساری رات کمروں کو لاک کر کے اور چھتوں پر چڑھ کر از خود کس کا شوہر اور کس کی بیوی بن رہے ہیں؟ اس پر نظر رکھنا کس کی ذمہ داری ہے؟ کیا یہ ایک لادین اور مشرک معاشرے کے افراد ہیں؟؟کیا ہم برائے نام مسلمان ہیں ؟

کیا ہمارا آخرت اور عاقبت پر سے ایمان ختم ہو چکا ہے؟

وہ طبقہ جسے نفاذِ  نظامِ  شریعت سے شدید بغض ہے میں اسکے افراد سے بھی پوچھنا چاہتی ہوں کہ وہ بے حیائی کے اس طوفان کو روکنے کے لیے اور کونسا نظام تجویز کریں گے ؟یا انکے نزدیک یہ سب کچھ جائز ہے اور بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ ؟

مجھے اپنے سوالوں کے جواب درکار ہیں۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کون اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس اخلاقی طور پر زوال پذیر معاشرے کی اصلاح کرے گا؟ یا ہمیں اب اصلاح کی ضرورت ہی نہیں رہی ۔؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پیار یا نفسانی خواہشات پوری کرنے کا ذریعہ ۔۔پروفیسر رضوانہ انجم

  1. مضمون نگار نے اپنا خیرخواہانہ بیان پیش کر کے چند سوالات لکھ کر جوابات طلب فرمائے ہیں۔ اپنی سمجھ کے مطابق جواباً عرض ہے:
    ۔1۔ کیا ہم مغربی معاشرے کی ساری غلاظتیں اپنے بچوں کو خرید کر تحفے میں دیں گے؟
    جواب۔ ہرگز نہیں۔ البتہ جو شکست خوردگی کا شکار ہیں وہ معذور ہیں۔ مغربی معاشرے میں بہت ساری خوبیاں بھی ہیں وہ لیکر دیں۔ یہی فرمان رسول ﷺ ہے۔
    ۔2۔ ہمارا بیٹا اور بیٹی ساری رات کمروں کو لاک کر کے اور چھتوں پر چڑھ کر از خود کس کا شوہر اور کس کی بیوی بن رہے ہیں؟ اس پر نظر رکھنا کس کی ذمہ داری ہے؟
    جواب۔ شریعت کا واضح حکم ہے کہ اگر نوبت یہاں تک پہنچ جائے تو ان کا نکاح پڑھ دینا چاہیئے۔ لیکن یہ واقعہ یک دم وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ ہر روز بچوں کو ظاہری ہاتھ صاف کرنے کے ساتھ اندرونی ہاتھ صاف رکھنے کی بھی تلقین کرتے رہا کریں۔
    ۔3۔ کیا یہ ایک لادین اور مشرک معاشرے کے افراد ہیں؟
    آپ نے جن اعمال کا ذکر کیا ہے اس کے مطابق تو یہی نظر آتا ہے۔پھر تو مغربی معاشرے کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
    ۔4۔کیا ہم برائے نام مسلمان ہیں ؟
    بد قسمتی سے جو حالات آپ نے مضمون میں لکھے ہیں ان سے تو یہی مترشح ہوتا ہے۔ دینی رہنما ایک طرف مغرب کے لتے لیتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہاں کے ویزے کو اللہ کا فضل قرار دیتے ہیں۔
    ۔5۔ کیا ہمارا آخرت اور عاقبت پر سے ایمان ختم ہو چکا ہے؟
    زبانی اقرار الگ ہے لیکن عملی اظہار کے مطابق تو صورت یہی نظر آتی ہے۔ بلکہ نامور مسلمان بادشاہ کے مطابق “بابر بہ عیش کوش عالم دوبارہ نیست” جو ایک بہت پرانا طرزِ عمل ہے۔ اب بھی رائج ہے۔
    ۔6۔ وہ طبقہ جسے نفاذِ نظامِ شریعت سے شدید بغض ہے میں اسکے افراد سے بھی پوچھنا چاہتی ہوں کہ وہ بے حیائی کے اس طوفان کو روکنے کے لیے اور کونسا نظام تجویز کریں گے ؟
    جسے نفاذِ نظامِ شریعت سے شدید بغض ہے اُس طبقے سے بے حیائی کے طوفان کو روکنے کے لئے کسی اورنظام کی توقع بے معنی ہے۔ لیکن آپ نے خود ہی تو اوپر لکھا ہے کہ ” ہمارے معاشرے کے والدین،استاد،مبلغ،عالم دین،سماج سدھارو سو رہے ہیں” گویا جو نظام شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں حال ان کا بھی پتلا ہے۔
    یا (کیا)انکے نزدیک یہ سب کچھ جائز ہے اور بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ ؟
    اس کا جواب معاشرے کی اپچ پر منحصر ہے۔
    سعودی عرب جس کی جانب دنیائے اسلام دیکھتی ہے۔ وہ بھی ترکی کے پیچھے پیچھے مغرب زدہ ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ ان بیماریوں سے کہیں بڑھ کر اور بیماریاں پاکستانی معاشرہ میں موجود ہیں۔ جھوٹ ۔ رشوت۔ منافقت ۔ چوری عورتوں اور بچوں کے علاوہ کمزوروں پر ظلم اور زیادتیاں۔ پنبہ کجا کجا نہ۔ تن ہمہ داغ داغ است۔ ابھی معاشرہ مغلیہ اور سکھا شاہی سے نکل نہیں پایا۔ یاد رہے کہ یہ سب انسانی فطرت میں موجود ہے جس کی تہذیب مسلسل جاری رہنی چاہیئے۔ آپ کا مضمون اگرچہ آگ پر چڑیا کی چونچ میں پانی کے مترادف ہے لیکن چڑیا اجر کی مستحق ہے۔

Leave a Reply