آئیڈینٹٹی کرائسس(My Identity Crisis)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اب بھی جب میں بھا گتا ہوں
دور خود سے، اپنے ماضی سے
تو لگتا ہے کہ جیسے ساتھ میرے چل رہے ہوں
چرچراتے، بوڑھے تا نگوں میں جُتے مردود گھوڑے
سست، مریل چال سے چلتے ہوئے مدقوق رکشے
پھٹپھٹاتے، کالا زہر آلود دھواں چھوڑتے بد کار, بد کردار تھری وہیلر ”’
سڑَک پر دونوں جانب
کھانستے نل
ٹونٹیان جن کی نہ جانے کب کی چوری ہو چکی ہیں
ٹوٹی پھوٹی نا لیاں
قحبائیں، کوچوں اور گلیوں میں بسی
زہر آب سے بہتی ہوئی اک سال خوردہ فاحشہ بد رو
مہینوں سے پڑے کوڑے کے ڈھیروں سے پٹی گلیاں
سبھی موڑوں، دکانوں، کاروباری مرکزوں میں
بھیک بھانڈوں، یعنی اپنے ننھے بچوں کو اٹھائے
اور نا مولود بچے پیٹ مین رکھے،
بھکاری عورتیں ۔۔۔۔۔
پیدا ہوتے اور مرتے آ رہے
سب لولے،لنگڑے اور اندھے لوگ
لوگ
لاکھوں لوگ
میرے جسم کے اعضا، مرے ٹکڑے
مرے پرکھے، مرے ہمعصر
میری آنے والی سینکڑوں نسلیں
جنہیں میں رد نہیں کرتا
قبولیت بھی جن کی آج نا ممکن ہے،
شاید اس لیے کہ میرا ماضی
(اس جنم میں ہی مرا پہلا جنم)
اب مر چکا ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply