جھیل ہے
پانی ہے
پتے تیرتے ہیں
عکس مٹ مَیلے ہیں پتوں کے
کہ جو پانی میں جھُک کر
اپنے چہرے دیکھتے ہیں
دور مشر ق میں شفق پھولی ہوئی ہے
اور اس کا جھلملاتا
عکس مَٹ مَیلا نہیں ہے۔
صبحدم جب
آنکھ کھلتی ہے تو اس کو
دیکھتا ہوں
جھیل کی لہروں کی ہلکی
چاپ سُنتا ہوں کہ جیسے
کوئی ساکن جھیل کی تہہ میں اتر کر
چل رہا ہو
بات کرتا ہوں
درختوں سے، جو جھک کر
آئینے میں
اپنے چہرے دیکھتے ہیں
سرسراتے ہیں خوشی سے
اور شفق کی
پھولتی سرخی سے اکثر
پوچھ لیتا ہوں
“تمہارا رنگ اتنا سرخ کیوں ہے؟”
یہ مرا معمول سا ہے
اٹھ نہیں سکتا کہ بستر وارڈ میں ہے
اور مرے پاؤں پلستر
میں بندھے ہیں
جھیل تو دیوار پر ہے
-1999۔۔۔۔
(کار حادثے میں ٹانگ ٹوٹنے کے بعد ہسپتال میں لکھی گئی نظم)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں