پانچواں مشیر (ابلیس کو مخاطب کرکے) اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم استوار تو نے جب چاہا کیا ہر پردگی کو آشکار آب و گل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز ابلہِ جنت تری تعلیم سے دانائے کار← مزید پڑھیے
الناس علیٰ دین ملوکبم (رعایا بادشاہوں کے دکھائے ہوئے راستے پر چلتی ہے ) (ایک فینٹسی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موسلا دھار ہے برفاب کی بوچھاڑ، مگر گرتے پڑتے ہوئے سب لوگ کہا ں جاتے ہیں؟ گرتے ہیں، اٹھتے ہیں، پھر گرتے ہیں← مزید پڑھیے
آخری ملاقات آخری ملاقات کے بعد میں نے سماج سے کشید کردہ خواہشات کی الکوحل کے دور کا آخری جام پیا ‘ اور محبت کے تاکستانوں سے زندگی کی منڈی میں منتقل ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخری ملاقات پر میں نے آخری← مزید پڑھیے
نظم کا تعارف: یہ شہرہ آفاق نظم اقبال کی آخری کتاب ”ارمغان حجاز ” کے حصہ اردو کی پہلی نظم ہے۔ بقول پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب، یہ نظم علامہ مرحوم کے تیس سالہ پیغام کا لبِ لباب ہے، کہ← مزید پڑھیے
مبر گمان تو ا ورد یقیں شناس کہ دزد متاع من ز نہاں خانہٗ ازل بر دست (غالبؔ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون و فساد و بودنی نابودنی ہے تو وہ شاعر یقیناً ساری اصناف ِ سخن املاک میں شامل ہیں اس کی← مزید پڑھیے
یہ پابندیوں اور روک ٹوک سے آزاد ایک خودمختار سی زندگی تھی جو ماضی میں بہرحال اُسے حاصل نہ تھی۔ وہ خواہشیں اور آرزوئیں جو ہمیشہ سینے میں مچلتی رہتی تھیں۔ اُنہیں وہ اِس اجنبی سرزمین پر بُہت شان سے← مزید پڑھیے
(خواب میں خلق ہوئی ایک نظم) اپنے اندر اس طرح داخل ہوا وہ جیسے رستہ جانتا ہو جیسے اس بھورے خلا کی ساری پرتوں کو کئی صدیوں سے وہ پہچانتا ہو اپنے اندر دور تک جانے کی کیا جلدی ہے← مزید پڑھیے
فون پر ڈاکٹر وزیر آغا (مرحوم) سے لگ بھگ روزانہ ہی بات ہوا کرتی تھی گزشتہ صدی کے آخری برسوں میں کوئی نہ کوئی مسئلہ زیر بحث آ جاتا جس کا نپٹارا کئی دنوں کی بات چیت کے بعد ممکن← مزید پڑھیے
چھت کی الماری سے میں نے بڑا سا وہ بیگ نیچے اتارا جو دادا سے مجھے ورثے میں ملا تھا۔یہ اتنا روشن اور رنگیں تھا گویا دھنک کا کوئی دریا اس سےپھوٹ رہا ہو۔میں نے اسے کاندھے پر اٹھایا اور← مزید پڑھیے
مرد تو کون ہے ؟ اے مرد آخر تو کون ہے ؟ ابن صفی مرد مومن بندہ پرور نور خدا پیغمبر و انبیا یا پھر وہ جو دکھتا ہے۔۔ کرّہ عرض پہ چھایا زمیں پہ چلتا پھرتا انسان یا پھر← مزید پڑھیے
“ستیہ پال کی ساٹھ نظمیں “کچھ برس پہلے ڈاکٹر آصف فرخی کے ادارے ( کراچی) سے سے شائع ہوئی تھی۔ یہ نظمیں ڈاکٹر فاطمہ حسن نے منتخب کی تھیں۔اُن کا تحریر کردہ دیباچہ واقعی ایک ایسی اہم تحریر ہے، جسے← مزید پڑھیے
موسم تو ستم ڈھانے پر اُترا ہوا تھا۔ اِس شاندار کالج کے لمبے چوڑ ے سرسبزوشاداب ہرسُو طراوت اور تازگی کافرحت آگیں احساس بخشتے لان و موسم کے حُسن اور رعنائی کو اور قاتل بنارہے تھے۔ پچھمی ہوائیں سرو کے← مزید پڑھیے
آذربائیجان کے مقامی لوگ پاکستانیوں کی بہت عزت کرتے ہیں ۔ اگر آپ یہ بتائیں کہ آپ پاکستان سے آئے ہیں تو ضرور پیار بھرا ایک آدھ فقرہ بولنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ← مزید پڑھیے
عظیم الشان محل میں چاروں طرف رنگینی بکھری ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہاں موجود ہر شخص میری خوشی کے لئے ہی معمور کر دیا گیا تھا۔ میں ایک بڑی میز کے سامنے خوش پوش لباس میں ملبوس بیٹھا← مزید پڑھیے
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ چلتے ہوئے ہم کہاں آ گئے ؟ یہ نئے ہندوستان کی کتھا ہے جہاں فرقہ واریت کے زہریلے شعلے نئی تہذیب کو جنم دے رہے ہیں ،آپ سے پڑھنے کی گزارش ہے۔۔ “How many← مزید پڑھیے
یہ 1991 کی بات ہے تھانہ سہجہ میں نے بہت محنت کی جس کی وجہ سے ہر میٹنگ میں SSP رحیم یار خان اور DIG بہاولپور رینج کی طرف سے ہزاروں روپے نقد انعام اور تعریفی اسناد ملا کرتی تھیں۔اس← مزید پڑھیے
فارسی کا ایک خوب صورت شعر بہت مشہور اور مقبول ہے۔ ضرب المَثَل کی حیثیت اختیار کر لینے والا یہ دل نشیں شعر گزشتہ تین چار صدیوں میں کسی نہ کسی مناسبت سے کئی قدیم و جدید صوفیوں، عالموں، شاعروں← مزید پڑھیے
ایک لڑکا سر کے بل ایسے کھڑا ہے نرم گیلی ریت پر جیسے اسے آکاش کی اونچائی میں پانی سمندر کی اتھاہ گہرائی میں آکاش ساحل پر کھڑےلوگوں کے جمگھٹ سب کو اُلٹا دیکھنا ہے۔ آتے جاتے لوگ اس کے← مزید پڑھیے
آج وہ دیوار گرا دی ہاں ! میں نے آخر ، وہ دیوار ہی گرا دی جو حصارتھی میرا اک طویل فصیل اونچی میرے شانوں سے قد آور ۔۔۔مجھے قید کیے جس میں مَیں ازل سے چُنی ہوئی تھی جہاں← مزید پڑھیے
اے حَسَن کوزہ گر کےReductio ad absurdum طریق کار سے ن۔ م راشد کی چار نظموں کے سلسلے کو سمجھنے کی ایک شعری کوشش۔(راشد کی نیک روح سے معذرت کے ساتھ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے’’ حَسن کوزہ گر‘‘ کون ہے تُو؟ بتا← مزید پڑھیے