بے روح۔۔عبداللہ خان چنگیزی

عظیم الشان محل میں چاروں طرف رنگینی بکھری ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہاں موجود ہر شخص میری خوشی کے لئے ہی معمور کر دیا گیا تھا۔ میں ایک بڑی میز کے سامنے خوش پوش لباس میں ملبوس بیٹھا سامنے موجود انواع و اقسام کے کھانوں کو دیکھ کر سوچنے لگا تھا کہ کون سا نوالہ کہاں سے لوں اور کتنا کھاؤں۔ میرے دائیں اور بائیں جانب خادم سر جھکائے کھڑے تھے اور میرے ایک اشارے کے منتظر تھے۔ میں سوچنے لگا تھا کہ ایسا کیسے ممکن ہوا؟ مجھے اپنی زندگی ایک عجیب و غریب تصویر کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ میں اِن سب نعمتوں کو دیکھ دیکھ کر کچھ سوچنے لگتا تھا مگر میری سوچ میرا ساتھ نہیں دے پا رہی تھی۔ میں نے ہاتھ بڑھایا اور خود سے کچھ دور رکھے ایک خوان سے لذیذ میٹھا لینے لگا۔ اچانک میرا ہاتھ کسی نادیدہ شے سے ٹکرایا اور میری نگاہوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔

میں گم سم سا کسی کال کوٹھڑی نما جگہ میں ننگے ٹھنڈے فرش پر پڑا تھا۔ میرے چاروں طرف اندھیرے کا راج تھا۔ وہاں موجود اکلوتی کھڑکی کے باہر رات کے اندھیرے میں چاند کی چاندنی بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی ہوئی کبھی کبھی میرے بدن پر پڑ رہی تھی۔ میں نے دونوں ہاتھ فرش پر جمائے اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔ نقاہت اور بھوک سے میری حالت غیر ہوچکی تھی۔ کوشش کرکے میں اٹھ بیٹھا اور قریب پڑے پرانے برتن سے پانی پینے لگا۔ دو گھونٹ پینے کے بعد جیسے میرے پیٹ میں انگارے دہکنے لگے اور میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنے پیٹ کو دبایا تاکہ وہ طوفان کچھ تھم جائے جو بھوک کی وجہ سے میرے وجود میں طلاطم برپا کرچکا تھا۔ نجانے رات کتنی بیت گئی تھی اور صبح ہونے میں کتنا وقت باقی تھا؟ میں اِنہی سوچوں میں غرق رہا اور صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا۔

کب میری آنکھ لگی تھی مجھے کچھ معلوم نہ  تھا۔ شاید میں بےہوش ہوچکا تھا۔ جب میری آنکھ کھلی تو کمرے میں سورج کی روشنی بکھری ہوئی تھی اور  میں درمیان میں   پڑا اکلوتے کمبل میں لپٹا ہوا تھا۔ میں اٹھا اور اپنے کپڑے جھاڑ کر دروازہ کھول کہ باہر آگیا۔ باہر دھوپ تھی اور سڑک پر اِکا دُکا لوگ آ جا رہے تھے۔ باہر آنے کے بعد میں گلیوں میں آوارہ گردی کرنے لگا۔ ہر طرف دیکھنے لگا کہ شاید کچھ کھانے کو پڑا مل جائے۔ دوپہر ہوچکی تھی میرا وجود ہر گزرتی گھڑی کے ساتھ ہی کچھ اور کمزور ہوتا چلا گیا۔ ایک گلی سے گزرنے کے بعد ذہن میں خیال آیا کہ شاید مجھے سبزی منڈی جانا چاہیے، جہاں ہوسکتا ہے کوئی کچھ سبزی کے ٹکڑے مل جائیں جو لوگ چھوڑ جاتے ہیں یعنی پھینک دیتے ہیں کیونکہ وہ کھانے کے قابل نہیں رہتے۔ میں دوڑنے لگا اور جلد سے جلد وہاں پہنچنے کی کوشش کی۔ اسی کوشش میں دو بار ٹکر لگی اور منہ کے بل گر پڑا مگر چوٹوں کی پرواہ کسے تھی۔ میں اپنے انداز میں تیز دوڑ رہا تھا مگر شاید کمزوری اتنی ہوچکی تھی کہ میری دوڑ میں وہ رفتار باقی نہ  رہی تھی۔

سبزی منڈی پہنچ کر بند دکانوں کو دیکھنے لگا اور اُن کے کونوں کھدروں میں کچھ بھی ڈھونڈنے کی تلاش شروع کی مگر بےسود۔ شاید یہاں بھی قحط زدوں کا چھاپہ پڑ چکا تھا۔ کوئی شے موجود نہ  تھی۔ میں نے وہاں منڈی کے ساتھ اُس کچرے میں بھی کچھ کھانے کو ڈھونڈا مگر کچھ حاصل نہ  کر پایا۔ آخر کار ٹوٹے دل کے ساتھ واپسی کی راہ لی اور خالی سڑک پر بےخیالی اور بھوک کی تڑپ میں پھرنے لگا۔ شام قریب تھی اور فضاء میں خنکی  مزید  بڑھ چکی تھی۔ کاش میں اپنے ساتھ اپنا کمبل اٹھا لاتا جس کی وجہ سے کچھ سردی کی شدت میں کمی ہوجاتی۔ بےربط ذہنی خلفشار اور ناتواں بدن کے ساتھ خود کو گھسیٹتے ہوئے میں شہر کے وسط میں پہنچا۔ میں نے کچھ آواز سنی اور گھوم کر دیکھا تو ایک کتا اندھیرے میں پڑا ہانپ رہا تھا یا شاید وہ اپنا آخری وقت گزار رہا تھا۔ میں اُس کے ذرا قریب ہوا اور دیکھا کہ شاید کوئی ہڈی مل جائے جو میں اُس سے چھین لوں اور بھاگ جاؤں۔ میری یہ کوشش بھی کامیاب نہ  ہوئی اور میں آگے بڑھ گیا۔

اندھیرا پوری طرح پھیل چکا تھا اور میں اپنے بھوکے پیٹ کو یہاں وہاں بھٹکاتا جارہا تھا کہ شاید کہیں سے کچھ اتنا مل سکے جس سے میں اپنی بھوک مٹا سکوں۔ چلتے چلتے میں ایک باغیچے کے سامنے پہنچا اور وہاں موجود ایک آہنی نشت پر خود کو ڈھیر کردیا۔ آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور پیدا کرنے والے کی طرف دھیان کرلیا۔ میرا دل کر رہا تھا کہ چیخ چیخ کر اپنا کلیجہ چیر دوں اور اُس سے شکوہ کروں کہ کیا اُس نے یہی میری حیثیت روا رکھی ہے؟ کھانے کے ایک نوالے کی خاطر کئی دنوں تک خوار ہونے میں ہی کیا انسانیت کی معراج پنہاں  رکھی ہے؟ میری آنکھوں سے نجانے کب کچھ آنسو کے قطرے نکلے اور چہرے پر ڈھلک گئے تھے مجھے معلوم نہ   ہو سکا۔ سردی کی شدت جب برداشت سے باہر ہوچکی تو میں اٹھا اور تیز تیز اپنے ٹھکانے پر پہنچنے کی کوشش کرنے لگا۔

باغیچے سے نکلنے کے بعد سڑک پر چلتے چلتے ویرانی چھائی ہوئی تھی اور مجھے اپنا آپ بھوت لگنے لگا تھا۔ ایک گلی میں مڑنے کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے واسیع گلی نما سڑک دور تک چلی گئی ہے اور اِس کالی رات میں وہاں لوگوں کا رش میلہ لگا ہوا ہے۔ ہر طرف نقرائی قہقہے بلند ہو رہے ہیں اور قسم قسم کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ کچھ اور قریب جانے کے بعد میں نے ایک ہوٹل دیکھا جہاں رنگ برنگے خوبصورت صاف ستھرے ملبوسات پہنے مرد اور عورتیں بیٹھی تھیں۔ وہ خوش گپیوں میں مصروف تھے اور اُن کے سامنے بھاپ اڑاتے پکوان رکھے جا رہے تھے۔ تازہ ڈبل روٹی کی خوشبو اور روٹی کی مہک نے مجھے پہلے بہکا یا  اور پھر پاگل کردیا۔ میں آس و اُمید کی نگاہ سے اُن کی طرف دیکھنے لگا کہ شاید اندر بیٹھے لوگوں میں سے کسی کی نظر مجھ پر پڑ جائے اور وہ مجھے کچھ کھانے کو دے دیں۔ دیر تک یونہی اُن کی خوش خوراکی کو تکنے کے بعد میں وہاں سے آگے بڑھا اور سوچا کہ شاید کسی دوسری دکان پر جاکر میں کسی کی نظر میں آجاؤں۔ گرتے پڑتے اسی طرح میں وہاں موجود ہر اُس جگہ کھڑا ہوتا گیا جہاں سے کھانے کی خوشبو اور برتنوں کی گونج سنائی دیتی تھی۔ ذہن میں خیال آیا کہ شاید میں خواب دیکھ رہا ہوں اور یہ سب ایک سراب ہی ہے۔ اسی خیال کو بنیاد بنا کر میں وہاں سے کچھ دور گیا اور پانی کے ایک نلکے سے یخ بستہ پانی کے کچھ چھینٹے اپنی منہ پر مارے۔ میں ہوش میں تھا اور وہ منظر غیر حقیقی بالکل نہیں تھا یا شاید ہو بھی سکتا تھا۔ کیا وہ نلکا حقیقت میں تھا؟

اِس دنیا کے خوشحال باسیوں کو اپنے جیسے اُن انسانوں کا خیال کیوں نہیں رہتا جو انہی کی طرح دو ہاتھ اور دو پیروں والے ہوتے ہیں فرق صرف یہی ہوتا ہے کہ اُن کے جیب میں اُن سکوں کی جھنکار نہیں ہوتی، جو اِن کی تحویل میں ہوتے ہیں۔ اب کے بار میں نے ایک بار پھر پانی کے چھینٹے اپنے چہرے پر مارے اور ارادہ کرلیا کہ کچھ بھی ہو جائے ،اب کسی بھی طرح سے پیٹ میں کچھ ڈالنا ہے خواہ وہ چھین کر ہی کیوں نا ہو۔ اِس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے میں وہاں سے اٹھا اور اُس جانب بڑھنے لگا ،جہاں کچھ دیر پہلے پیٹ کے جہنم کو ٹھنڈا کرنے کے لئے بہت کچھ تھا۔ لیکن یہ کیا؟ میں وہاں سے اتنی دوری پر تو نہیں گیا تھا کہ اب وہ رنگ و نور کی محفل ہی نہ  مل سکے؟ وہاں گھٹا ٹوپ اندھیروں کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

میں خود کو ٹٹولنے لگا اور اپنے آپ کو محسوس کرنا چاہتا تھا اور یہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ کیا میں ہوں بھی یا نہیں؟ ۔شاید میرا وجود کسی ٹھنڈی سڑک پر پڑا ہوا ہو اور میں اپنے بھوکے روح کو نگر نگر ٹکریں کھانے پر مجبور کر رہا ہوں۔ مجھے لگا کہ شاید میں پاگل ہوچکا ہوں اور میری ذہنی حالت بگڑ چکی ہے۔ اگر ایسا نا ہوتا تو مجھے کبھی وہ ماحول دکھائی نہ  دیتا جو کچھ لمحوں پہلے دیکھا تھا۔ یقین اور غیر یقینی کی اِس جان لیوا حالت میں ہر لمحہ مجھ پر قیامت کی طرح گزرتا رہا۔ اب تو میری آنکھیں بند ہونے لگی تھیں اور مجھ پر غشی کی سی کیفیت طاری ہوچکی تھی شاید میں مرنے والا تھا۔ میں اِس سردی میں سڑک پر مرنا نہیں چاہتا تھا۔ مجھے ایک ہی راہ دکھائی دی کہ جلد از جلد اپنی منزل پر پہنچوں اور جو بھی ہونا ہو وہیں ہوکر رہے۔

سرد موسم میں ہلکی ہلکی بارش نے میرے جسم کو سُن کر دیا اور میرے قدموں میں کچھ تیزی آگئی۔ میں دیوانہ وار دوڑنے لگا اور گلیوں اور سڑکوں سے گزرتے ہوئے اپنی منزل تلاش کرنے لگا۔ ہر گلی کے آخر پر ایک اور گلی سامنے آجاتی اور میں کسی انجانے کی طرح دائیں بائیں دیکھ کر فیصلہ نہ  کر پاتا کہ میری منزل تک پہنچنے والی راہ کونسی تھی؟ اب تو مجھے اپنی منزل بھی ایک قیاس دکھائی دینے لگی۔ شاید میری کوئی منزل تھی ہی نہیں یا اگر تھی بھی تو میں اسے کھو چکا تھا۔ بارش کی شدت نے میری رہی سہی قوت کو موقوف کردیا اور میں کیچڑ زدہ راستے میں ٹھوکر کھا کر دنیا و مافیہا سے بےنیاز ہوگیا شاید ہمیشہ کے لئے۔

وباء کے بعد حالات اِس موڑ پر آچکے تھے کہ اب شہر میں ہلکی پھلکی رفتار جاری ہوگئی تھی۔ لوگ گھروں سے نکلنے لگے تھے اور رونق بحال ہونی شروع ہو گئی تھی۔ بہت سے چہروں پر اُمید کی روشنی اور اچھے حالات کی واپسی پر خوشی تھی۔ ہسپتالوں میں ہجوم کچھ کم ہوچکا تھا اور زندگی کی رفتار میں مثبت تبدیلی آئی ہوئی تھی۔ میری آنکھیں اگر دھوکہ نہیں دے رہی تھی اور اگر یہ ذہن کا فرضی خاکہ نہیں تھا تو پھر کیا تھا؟ میں اپنے مسکن میں اپنی منزل پر پڑا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اگر یہ سچ ہے تو کل وہ کالی سرد رات میں میری ہیجانی کیفیت کو کیا نام دوں؟ انہی ذہنی کشمکش میں ڈوبا ہوا تھا کہ میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور دو لوگ اندر داخل ہو گئے۔ اُن کے چہروں پر پردے پڑے تھے اور اُن کے بدن سفید لباس سے ڈھکے ہوئے تھے۔ میں نے سوچا کہ اِس طرح بغیر اجازت کے کسی کے مسکن میں داخل ہونا سراسر غلط ہے۔ وہ دونوں داخل ہونے کے بعد فرش پر جھک گئے اور کسی وجود کو ٹٹولنے لگے۔

“مرچکا ہے! شاید زیادہ دیر نہیں گزری”۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے اُس فرش پر پڑے جسم کی طرف دیکھا اور ایک یخ اور خوف کی لہر میری رگ و پے میں بجلی کی طرح کوند گئی وہ تو میں تھا۔ ہاں بالکل وہ میں ہی تھا۔ لیکن اگر وہ میں تھا تو جو میں دیکھ رہا تھا وہ کون ہے؟ میں نے اپنے ہاتھوں کو خود تک کھینچا اور اپنے آپ کو محسوس کرنے لگا۔ لیکن یہ کیا میرا کوئی ٹھوس بدن تھا ہی نہیں۔ میں تو ایک خیال تھا ایک تصور جو صرف سوچ رہا تھا۔ ایک انجانی سی بات یہ بھی تھی کہ مجھ پر اب بھوک کا کوئی اثر نہیں تھا شاید کل رات ہی بھوک کا احساس بھی فنا ہوچکا تھا۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply