زن۔۔گُل رحمٰن

آج وہ دیوار گرا دی
ہاں ! میں نے
آخر ، وہ دیوار ہی گرا دی
جو حصارتھی میرا
اک طویل فصیل
اونچی میرے شانوں سے
قد آور ۔۔۔مجھے قید کیے
جس میں مَیں ازل سے چُنی ہوئی تھی
جہاں کھڑی تھی
وہیں ساکت ، خاموش، بالکل چُپ چاپ ، دم بخود پڑی تھی
اپنے وجود کو محسوس کرنے سے بھی قاصر
کبھی بے جان سی
کبھی انجان اُس حقیقت سے کہ میں کون ہوں ، کیا ہوں؟
میرا وجود میری بقا
کیا دوسروں کی مرہون منت ہے
کیا میں اغیار کی زمہ داری ہوں؟
میرا پیرہن میرا لباس کون مجھے پہناتا ہے؟
میری بھوک میری پیاس کس کی مرضی پہ مٹتی ہے؟
میں وقت کی ضرورت ہوں یا نفس کی؟
میں کسی کے پیار کا سامان ہوں یا نفرت کا بوجھ؟
کوئی مجھے ڈھونڈتا کیوں نہیں ؟
ڈھونڈلے تو پاتا کیوں نہیں ؟
پالے تو سمجھتا کیوں نہیں ؟
اگر سمجھنا شرط نہیں تو پھر جاؤ
گوندھو نیا مٹی کا پتلا اور اُس کی ایک شکل بناؤ
اپنے ہی کسی سانچے میں ڈھالو
کھیلو ، روندو ،چاہے توڑ ڈالو
میں مٹی ہی تو ہوں
جو آنکھ میں چبھتی ہے
کبھی چمک بن کر اور کبھی گرد
قلیل کرو فقط تذلیل کرو !
لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر
کیوں یہ دیوار بنے
آزاد کرو مجھے اپنی ہر پستہ سوچ سے
اپنے افسردہ خیالوں سے
اپنی حوس سے
جینے دو ۔۔۔جی لینے دو
میں تو ایک پھُلکاری ہوں ہر رنگ خود میں سموتی
محبت ،شفقت ، ایثار ، خلوص سے ڈھانپنے کو تیار
ننھی تمناؤں میں جیے جاتی ہوں
جینا چاہتی ہوں !
مجھ میں سالم ہے وہ وجود زن جس سے تم سب جنے ہو
پھر کیوں ہو یہ دیوار
آج یہ دیوار گرا دو!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply