بی بی رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔ آنسو بے روک ٹوک گالوں پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ “مجھے کوئی خوشی راس نہیں آتی۔ میرا نصیب ہی ایسا ہے۔ جو خوشی ملتی ہے، ایسی ملتی ہے کہ گویا کوکا← مزید پڑھیے
مرنے والوں کے ساتھ اگر مرا جاتا تو حسرت وہ آدمی تھا جس کے ساتھ میں خوشی سے مر جاتا۔دونوں کی قبریں ایک ساتھ ہوتیں۔ نہ بھی ہوتیں توکوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔فرصت کے یہ رات دن ہمیں کہاں← مزید پڑھیے
تم نے دیکھی ہے کبھی سولی پر لٹکی آس خزاں میں درختوں پر سوکھتی امید سمندر میں ڈوبتی خواہش صحرا میں سلگتی خوشی خاک ہوئی بصیرت راکھ ہوئی سماعت نیزے پر لٹکی سوچ بھٹکتی ہوئی دیوانگی تڑپتی ہوئی حسرتیں سسکتے← مزید پڑھیے
ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر پاؤں بھی شل ہیں ،شوق سفر بھی نہیں جاتا! “اجالا! تمہارا پیمانِ وفا اب تلک یاد ہے مجھے ،اب تک تمہارے اس دلاسے کے سہارے شب و روز گزارتا ہوں کہ ساتھ نہیں چھوٹے← مزید پڑھیے
ٹوپکاپی سرائے میوزیم گائیڈ نے پورے گروپ کے ٹکٹ خود خریدے،یہ میوزیم درحقیقت شاہی خاندان کی رہائش،اُن کی خواتین کی حریم،فوجی تربیت گاہ،سفارت خانہ اور اُس دوران استعمال ہونے والے ہتھیاروں کا اسلحہ خانہ،اور موجودہ دور میں سیاحوں کے لیے← مزید پڑھیے
علامہ اقبال رح نے رموز بےخودی میں’’در معنی حریت اسلامیہ و سیر حادثہ کربلا‘‘ کے عنوان سے امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کو خراج عقیدت پیش کر کے اپنے کلام کو دوام بخشا ہے۔ واقعہ کربلا← مزید پڑھیے
رونا اور یوں رونا کہ ہڈیاں آنکھ سے گھل کے بہنے لگیں لکھنا اور یوں لکھنا کہ قلم یوسفِ حرف کے دیکھنے کو بہ مثلِ دیدئہ یعقوب نابینا ہو جائے فقط اک کارِ زیاں ہے سو اب اس تسلسل سے← مزید پڑھیے
تکیہ، سلیمانیہ بھی دمشق کی خاص الخاص چیزوں میں سے ایک ہے۔ ایک تو عثمانی خلیفہ کی بنوائی ہوئی۔ رنگ ڈھنگ کا تڑکا بھی اُن کے انداز کا لگا ہوا۔نہر برادہBarada کے کنارے نے خوبصورتی اور محل وقوع کو اور← مزید پڑھیے
اس کو صرف کتابیں پسند ہیں دنیا کھوجنے کا شوق رکھتا ہے رنگ برنگے موسموں کو پڑھتا ہے محبت کی الگ الگ دنیا دیکھتا ہے کتابوں میں ہجر اور وصل کو دیکھتا ہے سمندر کے شور کا مطلب سمجھتا ہے← مزید پڑھیے
بے خار جھاڑیوں اور پتھروں پر چھوٹی چھوٹی چڑیاں اُچھل کود رہی تھیں اور چہک رہی تھیں۔مشرقی جنگل پوراانہی سے بھرا ہواتھا۔مشرقی سمت چڑیوں کی چہکاریں تھیں تو مغربی سمت نیچے پانیوں کی گونج۔سوائے اس کے یہاں زندگی سوئی ہوئی← مزید پڑھیے
لگا کہ وقت کچھ تھم سا گیا ہے ۔۔۔۔ میں جو صوفے پر اکڑوں بیٹھا تھا ،ایک دم پیچھے کو ہو لیا اور سر صوفے کی پشت کے ساتھ ٹکا لیا ۔۔ مگر نظریں اس کی نظروں سے آزاد نہ← مزید پڑھیے
آج قلم اور کاغذ لے کر بیٹھا ہوں تو زندگی میں کبھی اتنے فکری انتشار کا شکار نہیں ہوا جتنا اس وقت ہوں۔یاد داشتوں کا ایک سمندر ہے جس میں غوطہ زن ہوں اور مسلسل ڈوب رہا ہوں, ایک جست← مزید پڑھیے
اپنے شکستہ جسم سے کہتا ہوں میں جھک کر باغ ِ ارم ہے، ایک خیاباں ہے یہ جہاں تو مرغزار زیست کا وہ مرزبان ہے جو ذوق وشوق و تاب وتواں میں تھا مستعد جس میں قرار تھا نہ تعطل← مزید پڑھیے
غمِ دوراں بھی منا کر دیکھوں رنگ میں بھنگ مِلا کر دیکھوں آنکھ مِلتے ہی مِلالوں دل بھی ہاتھ پہ سرسوں جما کر دیکھوں پیار گرچہ ہے مکمل اپنا جسم بھی اِس میں مِلا کر دیکھوں ؟ وہ بھی شاید← مزید پڑھیے
وقت کی تنگی نہیں تھی کہ میں جو کہنا چاہتی تھی کہہ نہ پائی یا ٹھیک سے کہہ نہ پائی مگر حالات ضرور تنگ ہو گئے تھے۔ یہ قصہ ہے میری کتاب” گمشدہ سائے “کی تقریب ِ رونمائی کا۔ رونمائی← مزید پڑھیے
ایک پل پار کیا،مڑے تو چوکی پر رکے،چوکی کے چوکی دار نے کہا بھائی صاحب!انٹری کرانی ہوگا۔چوکی سے بالکل جڑ کر،بائیں ہاتھ نشیب میں ایک ہوٹل تھا۔وقاص جمیل نے کہا کھانا کھا لیتے ہیں،آگے ممکن ہے کھانا نہ ملے۔گاڑی نیچے← مزید پڑھیے
نہیں، نہیں، مجھے جانا نہیں، ابھی اے مرگ ابھی سراپا عمل ہوں، مجھے ہیں کام بہت ابھی تو میری رگوں میں ہے تیز گام لہو ابھی تو معرکہ آرا ہوں ، بر سر ِ پیکار یہ ذوق و شوق ،← مزید پڑھیے
کہہ نہیں سکتی یہ گھاؤ کب سے میرے سینے میں ہے۔ تکلیف کے ساتھ شروع ہوا ہو ،یہ بھی یاد نہیں۔ نہ کوئی پھوڑا یا چھالا تھا جو پھوٹ کر ناسور بن گیا ہو، نہ ہی کوئی چوٹ تھی جو← مزید پڑھیے
فوجی سدا کا مسافر ہوتا ہے- بلوچستان کی بے آب و گیاہ وادیاں ہوں یا سیاچین کی برف پوش پہاڑیاں ، اس کی مسافت ہمیشہ جاری رہتی ہے- زمانہء امن میں ہمارے تحفظ کےلئے وہ در بدر اپنی جان اٹھائے← مزید پڑھیے
کانوائے کی تمام گاڑیاں بیک کورڈ ہونگی, صرف ایک ڈرائیور ہوگا جو گاڑی چلا رہا ہو ،اس کے علاوہ گاڑی میں کوئی آدمی نہ ہو۔ ہر دو گاڑیوں کے درمیاں کم از کم دو میٹر کا فاصلہ ہونا چاہیے۔ اگر← مزید پڑھیے