مبر گمان تو ا ورد یقیں شناس کہ دزد
متاع من ز نہاں خانہٗ ازل بر دست
(غالبؔ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون و فساد و بودنی نابودنی
ہے تو وہ شاعر یقیناً
ساری اصناف ِ سخن املاک میں شامل ہیں اس کی
نظم ، دوہے، ماہیے ، ہائیکو،غزل۔۔۔اللہ جانے اور کیا کیا
مختصر مضمون بھی لکھتا ہے اکثر
ایک خوبی اوربھی ہے
اپنے ہمعصروں کی تخلیقات میں، اور
سابقین و مقتدا شعرا کے مضمون و متن میں کچھ
مماثل دیکھ لیتا ہے ، اگر تو
ماورائے غور
فکر و خوض سے بیگانہ ، فوراً بیٹھ جاتا ہے
سمجھتا ہے۔۔۔۔۔
کہ یہ “تحقیق” ہے ۔۔۔۔”ریسرچ” اصلی
“نقل”
“چربہ”
” کاربن کاپی”
“بعینہ”
ہو بہو
“سرقہ”
وغیرہ
لفظ تو موجود ہی ہیں
ان کے استعمال سے بس
آدھ گھنٹے میں ہی
اپنا نا مشخّص
“تجزیاتی تبصرہ” لکھ کر
سمجھتا ہے کہ جیسے
معرکہ سر کر لیا ہو
نا سپاس و ناستودہ یہ”مدّبر”
ایسے دستور العمل کوکب بھلا پہچانتا ہے
جس میں بین المتونیت کی رو سے
سب مضامین و متون و ماحصل
ہم زائیدہ ہیں
حاشیہ آرائی یا تفسیر
یا توجیہہ ۔ سب ہم نسل ہی ہیں
تبصرہ، تاویل و استنباط
یا تلمیح، تلطیف عبارتاً
سب ہم زوج یا ہم زلف۔۔۔۔ گویا ایک سے ہیں
ذہن انسانی کے تہہ در تہہ خزانے
میں نہ جانے کب سے ایسے
سینکڑوں مکنون و مخفی زاویے
موجود ہیں جو
ہر نئے دن گفتگو میں
شاعری میں، نثر میں ڈھلتے ہیں
روشن اور بیّن دیکھنے میں
بودنی نا بودنی یہ،
شخص، کب سمجھا ہے پہلے یہ حقیقت
جو سمجھ جائے گا میری نظم سے اب؟
۔۔۔۔جانتا ہوں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں