آخری ملاقات
آخری ملاقات کے بعد
میں نے
سماج سے کشید کردہ خواہشات کی الکوحل کے دور کا
آخری جام پیا ‘ اور
محبت کے تاکستانوں سے
زندگی کی منڈی میں منتقل ہوگیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری ملاقات پر
میں نے
آخری بار اس سے کہا
میرا راستہ چھوڑ دو
اس نے وحشت زدہ قدم بڑھائے
کپکپاتے ہاتھوں سے مجھے تھام لیا اور
مرے ساتھ لگ کے بہت روئی
آج ایک مدت کے بعد
میں شِدّت سے رویا ہوں
وہ احساس کی دیوی کے روپ میں
جلوہ گر ہوکر
ہم کلام ہوئی تو
میری شرم آلود نِگاہوں نے
اپنے ضمیر کے وجود پر کاری ضرب لگائی
مجھے روح کی گہرائیوں تک
زخموں کا کرب محسوس ہوا
جانکاری ہوئی کہ
میں دنیاوی منافقت کے تجارتی عمل کا حصہ
بن چکا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے اپنے سامنے پاکر
مجھے اپنی پلکوں پر
صدیوں کا بوجھ محسوس ہوا
وہ بہت دکھی تھی‘ اور
اس کا بدن چھلنی
اس کے پاک وجود پر
صدیوں کی تاریک استحصالی تاریخ نے
جبر کے پانچ ہزار پانچ سو پانچ نشان
ثبت کیے تھے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں