پوچھتے ہو کیا یارو ! مُغَنّیہ کے بارے میں اُس حسیں پری زادی مطربہ کے بارے میں وہ پری تو جیسے اک ساز کا سراپا ہے نغمۂ مجسم ہے، رشک ہائے مینا ہے، وہ سراسوتی دیوی راگ جب لگاتی← مزید پڑھیے
ان گنت خوبیوں کے مالک، لا تعداد گُنوں کی گُتھلی، بے مثال انسان اور بندہ پرور دوست، ڈاکٹر سید امجد حسین شاعر نہیں ہیں، افسانہ نگار نہیں ہیں، انشائیے نہیں لکھتے، لیکن جو کچھ بھی وہ لکھتے ہیں ان میں← مزید پڑھیے
رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلـف سے تکلف بر طرف، تھا ایک انداز ِ جنوں وہ بھی ———— ستیہ پال آنند بناوٹ پر تھی مبنی آپ کی آزردگی ، غالبؔ؟ جنوں کیا اس بناوٹ کی تھی واضح آشکارائی؟← مزید پڑھیے
اک شرر دل میں ہے، اس سے کوئی گھبرائے گا کیا آگ مطلوب ہے ہم کو جو ہوا کہتے ہیں ——————— ستیہ پال آنند آتش و باد میں مطلوب فقط آتش تھی اور وہ دل میں ہے موجود شرر کی← مزید پڑھیے
ری ڈکت یو ایڈ ابسرڈم کی تکنیک میں آج سے تیس سال پہلے سعودی عرب کے قیام کےدوران، میں نے غالب کے دس فارسی اشعارکو اردو نظموں کا جامہ پہنایا تھا۔ کہ یہ اشعار فارسی میں بدشکل دکھائی پڑ تے← مزید پڑھیے
خالد سہیل کا پہلا ادبی محبت نامہ۔ ابن کنول صاحب! میری جب آپ سے برسوں پہلے ۔۔۔جب آتش جوان تھا,دہلی میں ملاقات ہوئی تھی تو میں آپ کی شخصیت اور تخلیقی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوا تھا۔ اگر میں دہلی← مزید پڑھیے
سلطنت دست بدست آئی ہے جام ِ مئے خاتم ِ جمشید نہیں ———- نوٹ۔مر زا غالب کے شعرکی تقطیع “فاعلاتن فعلاتن فعلن”سے ممکن ہے۔ میں نے اپنی جد ت طراز طبعیت کی تسکین کے لیے اس مکالمے میں بحرخفیف مسدس← مزید پڑھیے
اپنے سرپھرے جنون کے ہاتھوں ایک دن وہ بدن کی تنگ گھپّا سے باہر نکل پڑا اندھے غار سے نکلتے ہی آنکھیں چندھیاں گئیں روشنی کا سیلاب آوازوں کا ہجوم سروں کا سمندر بھاگتے قدم مرتے تڑپتے انسان روندتے پیر← مزید پڑھیے
”میں چاہتا ہوں تم میرے ساتھ ایک پوری رات گزارو۔“ اُس وقت وہ باہر نظاروں میں گُم تھی۔ تاحدّ نظر دھان کے سر سبز کھیتوں کے پھیلاؤ نے دھرتی پر گہر ے سبزے کے جیسے قالین بچھا رکھے تھے۔ اِن← مزید پڑھیے
لکھا کرے کوئی احکام ِ طالع ِ مولود کسے خبر ہے کہ واں جُنبش ِ قلم کیا ہے (غالب) —————— ستیہ پال آنند “لکھا کرے کوئی احکام ِ طالع ِ مولود” حضور، “کوئی” سے آخر مر اد کیا ہے یہاں؟← مزید پڑھیے
یہ مضمون 26 اپریل 2015 کو رائیٹرز فورم ٹورونٹو کینیڈا کے اجلاس میں پڑھا گیا تھا معزز خواتین و حضرات: ہماری اردو تحریر کی نجابت میں دو چیزیں حائل ہیں۔ ایک انگریزی اور دوسرے ڈاکٹری۔ آج بہت زمانے کے بعد← مزید پڑھیے
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ِ ناسخؔ اپ بے بہرہ ہے جو معتقد ِ میر نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو، غالب کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند مدح میں← مزید پڑھیے
وہ اس وقت ڈیوٹی پر موجود شخص کے سامنے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا تھا۔ اس کے لہجے میں چھپی بے بسی اور التجا کو اس بوڑھے خاکروب نے بھانپ لیا اور کچھ ہی دیر میں خلاف قانونی کاغذ قلم← مزید پڑھیے
ایسا ٹائٹ شیڈول تھا کہ جس نے دو دنو ں کے گھنٹوں اور منٹوں کو جکڑ کر رکھ دیا تھا۔ ذرا دم لینے کی فرصت نہیں مل رہی تھی۔ بہتیرا چاہا کہ تھوڑی سی گنجائش کسی نہ کسی طر ح← مزید پڑھیے
(ایک) انیس سو ساٹھ ستر کے عرصے میں فرانس میں “پتیت پوئمز” کی ایک تحریک شروع ہوئی، جس میں زیادہ سے زیادہ دس سطروں پر مشتمل ایسی نظمیں پیش کی گئیں، جو نرم رو تھیں، صرف ایک استعارے کی مدد← مزید پڑھیے
آخری ملاقات ! قرۃ العین حیدر ( عینی آپا) سے آخری ملاقات دہلی میں ہوئی۔ میں پاکستان کے ایک ماہ کے دورے سے لاہور، پنڈی، میر پور، پشاور، سرگودھا، کراچی ہوتاہو ا لوٹا تھا۔ دہلی میں سات دنوں کے لیے← مزید پڑھیے
سک کڈ ٹورنٹو میں ایک چودہ پندرہ سال کا بچہ کینسر جیسے موذی مرض کے ہاتھوں مر رہا تھا۔ بچے سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی۔۔بچے نے کہا:میں فٹ بال کا ورلڈکپ دیکھنا چاہتا ہوں۔ نہ صرف بچے کو← مزید پڑھیے
خامہ بگوش غالب سلسلے کی دو نئی کڑیاں۔ ساٹھ اشعار پر مشتمل یہ کتاب جلد چھپے گی۔ یہ دو اشعار “ہزار معنی ء دارد کہ در گفتن نمی آید” کے بمصداق ہیں اور مرزا غالب ان پر اپنی رائے دیتے← مزید پڑھیے
سارا دن وہ گلیوں میں آوارہ پھرتے گزارتا اور رات باقی بہن بھائیوں کے ساتھ پھٹی ہوئی ایک رضائی میں۔ اُسے آج تک زیادہ بہن بھائی ہونے کا ایک ہی فائدہ سمجھ میں آیا تھا کہ سردیوں میں اُن کی← مزید پڑھیے
آج آٹھ برسوں کے بعد مرحوم لطف الرحمن کا تحریر کر دہ ایک مضمون جو شاید انڈیا کے کسی رسالے اور الحمرا (لاہور) میں شامل اشاعت ہوا تھا، نظر سے گزرا۔ یہ مضمون اس قدر بلیغ تھا کہ میرے دل← مزید پڑھیے