خامہ بدست غالب۔۔ڈاکٹر ستیہ پا ل آنند

غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ِ ناسخؔ
اپ بے بہرہ ہے جو معتقد ِ میر نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو، غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ستیہ پال آنند
مدح میں میرؔ تقی میر کی، یہ دو اشعار
خوب ہیں قدر شناسی کے لیے، پر قبلہ
شعر اوّل کی اکائی کو سمجھنے کے لیے
جو بھی ہے دل میں مرے، عرض کئے دیتا ہوں
قول ناسخ کا ہے جس کا کہ حوالہ ہے ثبوت
اور اس قول میں مضمر ہے یہ معنی بھی، حضور
میرؔ کی مدح اگر غیر کے ناطے سے ہوئی
پھر تو خود آپ نہیں اپنے عقیدے کے مرید
آپ کہتے تو ہیں، “اپنا یہ عقیدہ ہے”۔۔مگر
آپ کا “اپنا ” عقیدہ نہیں یہ ، بندہ نواز

مرزا غالب
بال کی کھال اتارو ہو یونہی ، ستیہ پال
کیا غلط بات ہے ناسخ کے حوالے کی، میاں؟
صرف ناسخؔ ہی نہیں میرؔ کا قائل کہ یہاں
میرؔ کو آتشؔ و سوداؔ نے کیا ہے تسلیم

ستیہ پال آنند
“آپ بے بہرہ ہیں” تھی قدر شناسی کی نفی
خود کو منوانا ہی گویا تھا یہاں قصد، جناب
لوگ “بے بہرہ” کہیں گے مجھے اس قصے میں
گر نہ تسلیم کیا میر کی استادی کو
یہی در پردہ محرک تھا ، جناب ِ عالی
چلئے، آگے چلیں اس تلخ حقیقت سے کہ گر
اس جگہ رک گئے تو آگے کہاں جائیں گے

مرزا غالب
ہے تو دلچسپ یہ پرخاش، یہ بحثا بحثی
اور کیا کچھ تمہیں کہنا ہے، کہو ستیہ پال

ستیہ پال آنند
“ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو، غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا”
واہ ! کیا ہاتھ کی چالاکی ہے، عیاری ہے
اولاً خود کو ہی “استاد” کا رتبہ بخشا
اور پھر میرؔ کو”کہتے ہیں”کی صف میں ڈالا
“کہتے ہیں”(لوگ)۔ مگر میرا یہ فرمان نہیں
“کہنا لوگوں کا تو افواہ سے بڑھ کر کیا ہے”
میرؔ کو “کوئی”۔۔فقط اجنبی تسلیم کیا
اور “بھی تھا”کے معانی ہیں، “کئی اور بھی تھے”
اور سب “اگلے زمانے” کے ہوئے دقیانوس
آپ نےجب بھی یہ ترکیب کہیں برتی ہے
“اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو”
مضمرات اس میں جہالت کے سوا کچھ بھی نہیں
واہ ، استاد، یہ ہے آپ کا حسن ِ تدبیر
کیسی یہ شعبدہ بازی ہے ،کیا چالاکی ہے
میرؔ کے ساتھ یہ کھِلواڑ، یہ حیلہ کاری؟
ہے کوئی اس کی صفائی میں مدلل اشہاد؟

مرزا غالب
کیسی کٹ حجتی ، بل پیچ ہے یہ، ستیہ پال؟
چوں چناں، حیلہ حوالہ ہے یہ ، بک بک، جھک جھک
الٹی منطق ہے یہ، اعراض ہے، کج بحثی ہے
میں نے سمجھا تھا کہ تم بحث و نظر میں ہو اصیل
پر یہ مائل بہ خطا بحث، یہ ادنیٰ منطق
تم سے امید نہیں تھی مجھے دم بازی کی
حضرت ِ میرؔ سے مجھ کو نہیں کوئی پرخاش
اچھے شاعر تھے مگر اگلے زمانے کے تھے

ستیہ پال آنند
عفو، غفران، معافی، میرے قبلہ، مخدوم
میں کف ِدست ہوا آپ کو جھُٹلانے میں!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply