سفر نامہ۔قسط 1

“گھر سے تھر تک”۔
یہی کوئی سال دو سال پرانی بات ہے جب دل نے خواہش کی تھی کہ تھر بھی دیکھنا چاہیے مگر جیب نے آنکھیں دکھاتے ہوئی یاد کروایا کہ بیٹا”پہلے منہ تو دیکھ لو،تھر بھی دیکھ لینا پھر”۔مگر وہ کہتے ہیں نا کہ دل کی بات ہی غالب آتی ہے اور عقل۔۔”عقل ہے محو ِ تماشائے لب ِ بام ابھی”۔ یونیورسٹی آف لاہور کے چند دوستوں کو اللہ نے توفیق دی کہ انہوں نے کچھ روپے اکھٹے کیے اور سفر میں مجھے بھی ساتھ لے لیا ۔سفر کا آغاز یوں تو چھے تاریخ کو ہوا مگر میں 4 تاریخ سے سفر میں تھا۔ راولپنڈی میں کام کی غرص سے گیا اور لیٹ ہوگیا۔۔ احباب ہمارے انتظار میں بیٹھ گئے خیر احباب بھی میرے ہی جیسے ہیں ۔میں نے راولپنڈی ہمراہی اڈے سے ہی ان کو کہہ دیا کہ آپ اپنی تیاری پوری رکھیں۔ مجھے پتا ہے کہ آپ نے میرے آنے کے بعد بھی آدھا گھنٹہ تاخیر کر دینی ہے۔مزے کی بات ہوا بھی یہی۔۔۔ 7 بجے کے بجائے 10 بجے گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے ہی انہی میں سے ایک دوست کو گھر بھیج کر اپنے کپڑے منگوا لیے تاکہ مزید تاخیر نہ ہو ۔۔۔۔ مگر میرے پہنچنے کے 40 منٹ بعد ہم روانہ ہوئے کیونکہ گوجرانوالہ سے جانے والے دوست لیٹ تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیر اس بات سے آپ بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن خدمت خلق کا ایک بڑا ادارہ ہے۔ الحمدلله یہ تنظیم پاکستان اور ہندوستان سمیت دنیا بھر میں خدمات خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

Facebook Comments

نعمان علی ہاشم
کالم نگار بننے کی مسلسل کشمکش میں ہیں۔ امی ڈاکٹر اور ابو انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ ہم نے کالج سے راہ فرار لی اور فیس بک سے باقاعدہ دانشوری شروع کر دی۔ اب تک چند اخباروں میں مہمان کالم چھپ چکا ہے۔ مگر کسی نے مستقل قبول نہیں کیا. قبول سے یاد آیا کسی نے ابھی تک قبول ہے قبول ہے قبول ہے بھی نہیں کیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply