کیسی طوفانی بارش تھی۔ لگتا تھا جیسے آسمان کے سینے میں چھید ہو گئے ہوں۔ گھُلے ہوئے بادلوں میں سارا ماحول دُھواں دُھواں ساہو رہا تھا۔ہوا کے تیز تھپیڑے کسی پاگل جنونی کی طرح جو بپھرا ہوا اپنے شکار کا← مزید پڑھیے
بول کر سب کو سنا، اے ستیہ پال آنند! بول اپنی رامائن کتھا، اے ستیہ پال آنند ! بول تو کہ کامل تھا کبھی، اب نصف سے کم رہ گیا دیکھ اپنا آئنہ ، اے ستیہ پال آنند ! بول← مزید پڑھیے
جہاں اما ں آج خوش تھیں۔ وہاں دل وسوسوں کا شکار بھی تھا ۔ خاندان میں کوئی بھی رشتہ نہیں تھا اسی لیے رشتے والی کو کہا گیا تھا، اچھے رشتوں کا تو ویسے بھی کال پڑا ہے، و ہ← مزید پڑھیے
پیکر ِ عشّاق ساز ِ طالع ِ ناساز ہے نالہ گویا گردش ِ سیارہ کی آواز ہے ——————- ستیہ پال آنند مت ہنسیں، اے بندہ پرور ، میرے استفسار پر جسم عاشق کا بھلا کیا اک سریلا ساز ہے جو← مزید پڑھیے
اب کہیں جو رفتگاں کا غم منانا دوستو ذکر میرا بھی وہاں خاطر میں لانا دوستو سب تلاطم نَخوتِ گردوں کی دیمک کھاگئی اب کہاں شوخی ، کہاں لہجہ پرانا دوستو شامِ غم ہےجوش میں اورصبح کاامکاں نہیں زندگی جیسے← مزید پڑھیے
“یہ لو خنجر! اور اڑا دو گردن اپنے قاتل کی۔ جس نے تم سے زندگی چھینی اس کی سانسیں چھین لو۔” معصوم ہاتھوں میں تلوار تھما دی گئی۔ اس نے ایک نظر ہاتھ میں پکڑے ہوئے خنجر پر ڈالی اور← مزید پڑھیے
”ٹھیک سے بیٹھو۔گھبرا کیوں رہی ہو؟ اور ہاں شیشہ نیچے کرو۔ تمہیں ٹھنڈی ہوا لگے۔“ اُس نے شیشہ آہستہ آہستہ نیچے کیا۔ اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ سختی سے بھینچے ہونٹ یوں بند تھے جیسے کبھی نہیں کھُلیں گے۔← مزید پڑھیے
کل آئسکریم کھاتے ہوئے اپنے دھیان کے بے رنگ کینوس پر میں نے ایک نظم تمہارے لیے رنگ دی نظم رنگتے رنگتے نہ جانے کتنے مصرعے آسمان پر پینٹ ہوگئے سنا ہے تمہارے علاقے میں کرفیو لگا ہے انہی سوچوں← مزید پڑھیے
مرزا غالب کے دس فارسی اشعار پر دس نظموں میں سے ایک، جوعلم منطق کی تکنیک “ریدکتیو اید ابسرڈم” کے استعمال سے لکھی گئیں اور میری کتاب “میری منتخب نظمیں” میں شامل ہیں۔یہ کتاب کچھ برس پہلے شائع ہوئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔← مزید پڑھیے
” تُف ہے اِس لُتری پر۔“ اتنی لگائی بُجھائی کی اُس نے رحمان بھائی سے کہ خود چیزیں پہچانے کی بجائے اُس نے اُنہیں اِس چھمک چھلّو کے ہاتھ بھیج دیں اور وعدہ کرنے کے باوجودخود نہیں آئے۔ ٹام بوائے← مزید پڑھیے
میر جملہ ہیں جناب آپ ولی نعمت ہیں اور میں آپ کی پرجا ہوں رعایا ہوں ، فقط باج گذار آپ کے خیل و حشم میں ہوں مرے ان داتا دیکھیے میری طرف ، عالی جاہ (جیسا کہ آپ کا← مزید پڑھیے
ڈاکٹر انور سجاد اپنے آخری دنوں میں اعزازی طور پہ مکالمہ کے چیف ایڈیٹر رہے جو مکالمہ کیلئیے باعث فخر ہے۔ مکالمہ کے ہی ایک مہربان دوست اور معروف صحافی انور سن رائے نے ڈاکٹر انور سجاد کا بی بی← مزید پڑھیے
تیز ہوا زرد اور خشک پتوں کی سوتن ہے۔ یہ دل جلے ، سوختہ پتے شاخوں کے طعنے برداشت نہیں کر پاتے۔حساس دل بھی کبھی شرم سے عاری ہوئے ہیں کیا! تیز ہو ا کی سرگوشیاں، گھاس کی ہل ہل← مزید پڑھیے
ایسے موقع پر زیادہ تر مرد یہی سوال پوچھتے ہیں اس نے بھی پوچھ لیا “تم اس لائن میں کیوں آئی ہو؟” عورت مسکرائی, خود کو مزید ڈھیلا چھوڑتے ہوئے اس نے سگریٹ کا ایک گہرا کش لگایا “کوئی بھی← مزید پڑھیے
چٹا گانگ کے اِس اعلیٰ درجے کے چینی ریستوران میں کھانا کھاتے ہوئے اُسے شدید خفّت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ایسے کھانے اور کھانوں کے یہ ایٹی کیٹس بھلا اُس نے کب دیکھے اور کہاں سیکھے تھے؟ وہ تو← مزید پڑھیے
خبر اتنی اچانک تھی کہ حسن کو یقین ہی نہ آیا اور وہ کچھ دیر خالی نظروں سے جویریہ کو تکتا رہا۔ اک ندی جس کی آبپاشی کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہوں، اگر اچانک اس کے کنارے پانی← مزید پڑھیے
عجب منظر دکھاتے ہیں یہ صفحے جن پہ برسوں سے دھنک کے سارے رنگوں میں مرے موئے قلم نے گُل فشانی سے کئی چہرے بنائے ہیں کئی گُلکاریاں کی ہیں لڑکپن کے شروع ِ نوجوانی کے بیاض ِ عمر کے← مزید پڑھیے
رشیدہ سے سارا گاؤں ڈرتا تھا۔ وہ جب بھی اپنا آدھا پھٹا ڈوپٹہ لے کر گھر سے نکلتی سب جلدی جلدی گھروں کی کھڑکیاں بند کر لیتے۔ گلی میں کھیلتے بچے اپنے کھلونے چھوڑ کر بھاگ جاتے۔ کبھی کبھار کچھ← مزید پڑھیے
پورب کی سمت ایک ہرابھرا جنگل تھا۔یہ جنگل اتنا گہرا تھا کہ مشکل سے سورج کی کرنیں زمین تک پہنچتیں ۔ اسی دھوپ چھاؤں جنگل کے ایک کونے میں سرمئی بابا کی جھونپڑی تھی۔ لمبے بانس کے تنوں اور پتوں← مزید پڑھیے
جب میں مر گئی تو مجھے قبر میں اتارنے والے سب ہاتھوں سے مجھے الجھن ہو رہی تھی۔یہ ہاتھ مجھے نوچتے رہے ہیں۔یہ تمام وجود جو میرا جسم دفن کرنے آئے ہیں، مجھے ان سے گھن آ رہی تھی۔مجھے بس← مزید پڑھیے