گھروندا ریت کا(قسط16)۔۔۔سلمیٰ اعوان

ایسا ٹائٹ شیڈول تھا کہ جس نے دو دنو ں کے گھنٹوں اور منٹوں کو جکڑ کر رکھ دیا تھا۔ ذرا دم لینے کی فرصت نہیں مل رہی تھی۔ بہتیرا چاہا کہ تھوڑی سی گنجائش کسی نہ کسی طر ح نکل آئے۔مصرُوفیت کے اژدہام میں سے چند لمحے ہی میسّر آ جائیں۔ وقت کی تنی طنابیں ذرا سی ڈھیلی ہو کر اُسے راہِ فرار دے دیں۔وہ بھاگم بھاگ رُقیہ ہال کا ایک چکر لگا آئے۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نہ وقت مرضی کے تابع رہتا ہے اور نہ صورتِ حال۔ وہ ایسی ہی گھمن گھیریوں میں پھنس گیا تھا۔ یہ خیال اُس کے لئے پریشان کُن تھا کہ پاگل احمق لڑکی سوچوں کے بھنور میں پھنسی اُن سے لڑتی اُلجھتی ہلکان ہو گئی ہوگی۔ پر وہ اپنی بہترین کوشش کے باوجود کچھ نہیں کر پا رہاتھا جو وہ چاہتا تھا۔ کام یوں پیر پسارے بیٹھا تھا کہ کسی طرح سمیٹنے میں نہ آرہا تھا۔
مغر بی پاکستان سے دس انجینئرز اور برطانیہ سے دو آرکی ٹیکٹ آئے ہوئے تھے۔ ہیڈ آفس کی نئی عمارت کا پروجیکٹ موتی جھیل کمرشل ایریا میں تعمیر کے لئے زیر غور تھا۔ کل سے اب تک کوئی دس میٹنگزMeetings ہو چکی تھیں۔ ابھی گھنٹہ بعد پھر منسٹرکے پاس حاضری تھی۔ رات کوئی دو بجے تک اُن میں مصروف رہا اور آج بھی فراغت کی اُمید نہ تھی۔
خیال آیا کہ اُس کے ڈپارٹمنٹ فون کر کے ہی اُسے کچھ کہے۔چلو تھوڑی سی دل جوئی تو ہوگی۔ فزکس ڈپارٹمنٹ کا نمبر ملانے کے لئے اُس نے آپریٹر سے بات کی۔ ابھی بات جاری تھی جب بادل کمرے میں داخل ہوا۔بادل سے دوستی ضرور تھی پر اتنی گہری بھی نہ تھی۔
”بھئی ایک ضروری پیغام دینا ہے جیسے بھی ہو اِس لڑکی سے بات کرواؤ۔“
”کوئی نیا شکار پھانسا ہے؟“ بادل نے ہنستے ہوئے پیپر ویٹ ہاتھوں میں پکڑا۔
”تمہیں میں شکاری نظر آتا ہوں؟“ اُس کا انداز طنز سے کہیں زیادہ افسوسناک تاثر کا حامل تھا۔
”کچھ کچھ تو ہو۔“ بادل کی مسکراہٹ بھی گہری تھی۔
”تو پھر سمجھ لو کچھ ایسی ہی با ت ہے؟“
”تعارف نہیں کراؤگے؟“ بادل اُس کی آنکھوں میں جھانکا۔
”ہرگز نہیں۔“
”کیوں کیا اُڑا لوں گا؟“ بادل کے لب ولہجے میں شوخی کے ساتھ ساتھ جو اعتماد کی جھلک تھی وہ اُسے اُس سمے بُہت ناگوار گذری۔ اُس نے بھی دل جلانے والے انداز میں کہا۔
”اتنا زعم ہے تمہیں خود پر۔ پر بات یہ ہے کہ وہ مال اُڑنے والا نہیں یہ مسٹر ای۔آر۔ خان کاانتخاب ہے۔“
اور بادل نے زور دار ہنکارہ بھرتے ہوئے کہا تھا۔
”ہوں تو یہ بات ہے۔“
منسٹرز کی میٹنگ سے فارغ ہوکر وہ نیچے آیا اور سیدھا یونیورسٹی کی طرف بھاگا۔ ڈیپارٹمنٹ میں وہ نہیں تھی۔ دو تین لڑکیوں سے پُوچھا تو پتہ چلا کہ ہال چلی گئی ہے۔ اُس کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا۔ یہ سوچتے ہوئے کہ شام کو بہر حال وقت نکالے گا۔ اُ س نے گاڑی موڑدی۔ پر جب وہ ریس کورس روڈ کی طرف ٹرن لے رہا تھا۔اُسے دفعتاً وہ نظر آئی تھی۔ قرمزی ساڑھی میں لپٹی ہوئی اُداس سی۔ وہ ٹی۔ایس۔ سی سنٹر سے نکل رہی تھی۔
اُسے دُکھ ہوا۔ اُس کا اُداس چہرہ سرما کی چاندنی رات جیسا لگ رہا تھا۔
”لیکن یہ ساڑھی اُس پر کتنی خوبصورت لگ رہی ہے۔“ اُس نے خود سے کہا۔
اُ س کے قریب جا کر بریکیں لگائیں۔ وہ یکدم خوف سے اُچھلی۔ اُس پر نظر پڑتے ہی اپنی جگہ جم سی گئی۔ وقت کے اِس ایک لمحے میں اُس کی آنکھوں میں کتنے رنگ کتنے جذبے اُبھرے۔ آنکھیں گیلی ہوگئیں۔ اُس نے فوراً دروازہ کھولا اور بولا۔
”آؤ بیٹھو۔“
”نہیں۔“ اُس کے لہجے میں سختی تھی۔
”سٹوپڈ۔ سڑ ک پر کھڑے ہو کر ضد مت کرو۔ تمہارے اردگرد لوگ ہیں۔ کیا سوچیں گے؟ آؤ۔“
اُس نے ہاتھ بڑھایا۔اِس سے پہلے کہ وہ اُس کی کلائی پکڑتا۔ اُ س نے فوراً بیٹھ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔
”بھاڑ میں جائے آفس اور جہنم میں جائے میٹنگ۔“ اُس نے اپنے آپ سے کہا اور گاڑی کی رفتار تیز کر دی۔
”میں نے تمہیں دوسری بار ساڑھی میں دیکھا ہے۔ ساڑھی بُہت سجتی ہے تم پر۔ یہ کہاں سے خیریدی ہے؟“
”نیو مارکیٹ سے۔“
”اچھی چوائس ہے تمہاری۔“
اُس کے لہجے میں چھلکتا اشتیاق نمایا ں تھا۔
وہ چُپ چاپ گُم سُم سی بیٹھی تھی۔ آنکھیں جو اُسے دیکھتے ہی گیلی ہو گئی تھیں اب سُوکھ گئیں۔ دل جیسے ٹھہر سا گیا۔
ایک دوکان سے اُس نے کھانے کی چند چیزیں خریدیں اور پھر جلدہی وہ شہر سے باہر تھے۔
ایک پُر فضا سی جگہ پر پہنچ کر اُ س نے گاڑی روک دی۔ ٹیک لگائی اور اُس کی طرف دیکھتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں بولا۔
”ہاں تو اب بتاؤ مجھے۔ کیا ناراض ہو؟“
پتہ نہیں اُس کے انداز ِ استفسار میں شفقت اور اپنائیت تھی یا پھر سوچوں نے یکدم مطلع ذہن کو اَبر آلود کر ڈالا تھا کہ بس جیسے اپنے آپ پر اختیار ہی ختم ہوگیاہو۔ ٹپ ٹپ بارش سی شروع ہوگئی۔
وہ گھبرا کر بولا۔
”روتی ہو پگلی۔ مجھے خود بھی افسوس ہے نجمی۔ بخد ا میں شرمندہ بھی ہوں اور معذرت خواہ بھی۔ معاف کردو مجھے۔ میری بُہت پیاری سی دوست ہونا۔“
واقعہ یہ تھا۔
کوئی تین دن قبل وہ فزکس ڈپارٹمنٹ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ آیا تھا۔ وہ پریکٹیکل ختم کرکے جب مونا اور ملکہ کے ساتھ باہر آئی۔ مونا ہیڈسر کے پاس جانا چاہ رہی تھی۔ کاپی پر سائن کرواناتھے۔
”چلو ناتم بھی۔“ اُس نے ملکہ کے ساتھ اُسے بھی گھسیٹنا چاہا۔
اُس نے بہتیرا نہ نہ کی۔ بھُوک کی شدت اور پیٹ میں چوہے بلیّاں کوُدنے کے بارے میں اُسے بتایا۔ پر موُنا چیخی۔
”کمبخت تجھے کیا زیادہ ہابڑا پڑ گیا ہے۔ تیرے ساتھ ہی ہم بھی فارغ ہوئے ہیں۔ چل سیدھی طرح۔ فارغ ہو کر اکٹھے ہال چلتے ہیں۔“
”مونا بائی گاڈصُبح میں نے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا۔ اب وقت دیکھو چار بجنے کو ہیں۔ سچی بات ہے میں نڈھال ہوئی پڑی ہوں۔“
پر مونانے اُس کی ایک نہ سُنی۔
ٹکراؤ ہیڈ سر کے کمرے کے عین دروازے میں ہوا۔ وہ تو اُسے دیکھتے ہی گھبرا گئی۔ چہرے کا رنگ فق ہوا۔ ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا۔غالباً کوئی دوست تھا۔ ملکہ نے جھٹ پٹ نہ صرف سلا م دے مارا بلکہ اُس دن میر پور پہنچانے کا شکریہ ادا کر دیا۔
”میں باسی چیزیں اور باسی شکریئے قبول کرنے کا عادی نہیں۔“ اُس نے ہنس کر کہا۔
وہ پردہ تھامے کھڑی تھی۔ اپنے ساتھی سے تعارف کا سلسلہ اُس نے خود ہی حل کر دیا۔
”یہ نجمہ ہے میرے دوست کی چھوٹی بہن۔ ایکس چینج پروگرام کے تحت لاہور سے آئی ہے۔“
ساتھی نے سر خم کیا اور بولا۔
”موسم خوبصورت ہے۔ آیئے آپ اور آپ کی سہیلیوں کو تھوڑا سا گھُما لائیں۔“
اُس نے چہرے سے کسی ردّ عمل کا اظہار نہیں کیا۔ مگر دل میں خوش ہوئی وہ ہوم سکنس کا شکار ہو رہی تھی۔ دل صُبح سے اُچاٹ اُچاٹ سا تھا۔
”چلو تھوری سی تفریح رہے گی۔“ وہ خود سے بولی۔ ملکہ اور مونا بھی تیار ہوگئیں۔
مونا کو کاپی چیک کروانا تھی۔ یہ اُن دونوں سے معلوم ہوگیا تھا کہ ہیڈ سراندر نہیں ہیں۔
وہیں سے واپسی ہو گئی۔ بڑتلے کے نیچے کھڑی بیلا کو بھی اُنہوں نے گھسیٹ لیا۔
راستے میں اُسے محسن ملا۔وہ ویسٹ پاکستانی طلبہ کی ایسوسی ایشن کے ماہانہ اجلاس میں اُسے شرکت کا دعوت نامہ دینے آیا تھا۔ جو منگل کے دن سر سلیم اللہ ہال میں ہو رہاتھا۔ وہ دونوں کافی آگے جاچکے تھے۔ ملکہ درمیان میں چل رہی تھی اُ س کے ساتھ منصور باتیں کر تا ہوا جا رہا تھا۔ وہ اور مونا پیچھے رہ گئیں۔ بیلا بھی اُن کے ساتھ ہی تھی۔
اُس نے آنے کی حامی بھری اور جان چھڑائی۔ جب وہ کچھ آگے بڑھ آئیں بیلا نے کہا۔
” بُہت باتونی لگتا ہے یہ لڑکا۔ کب سے اٹنڈ کر رہی ہواُن کے اجلاس؟“
”دوبار پہلے گئی تھی یا اب یہ دعوت نامہ ملا ہے۔“
وہ تینوں جب کار کے پاس آئیں ملکہ پیچھے بیٹھ چکی تھی۔ وہ دونوں اگلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ ڈرائیونگ سیٹ اُس کے ساتھی نے سنبھالی ہوئی تھی۔
”تم آگے آجاؤ میرے پاس۔دھان پان سی تو ہو۔“ عام سے انداز میں کہا گیا تھا۔
وہ آگے بیٹھنا نہیں چاہتی تھی پر صورتِ حال ایسی تھی کہ انکار کی گنجائش ہی نہ تھی۔ چُپکے سے اُ س کے پہلو میں دَبک گئی بالکل بلّی کے بچے کی طرح۔
چینگوا میں جب وہ داخل ہوئے وہ کَنّی کُترا گئی۔ اُسے معلوم تھا کہ وہ اُسے اپنے پاس بٹھائے گا اور کھانے کے دوران اُس پر خصوصی توجہ دے گا۔ مونا اور ملکہ، ثریا اور نازلی جیسی کھُلے دل کی لڑکیاں نہ تھیں۔ دونوں خرانٹ تھیں اور اُڑتی چڑیا کے پَر گننے والوں میں شمار ہوتی تھیں۔ اُنہوں نے توفوراً صورتِ حال کو بھانپ لینا تھا۔ اُس کی رُوم میٹ تھیں۔ سارا دن وہ اُن کی زبانوں سے ایسے ہی قصّے کہانیاں سُنتی رہتی تھی۔
وہ ملکہ کے ساتھ چِپک گئی۔ اُ س نے بس ایک گہری نظر اُس پر ڈالی اور خاموش رہا۔
جب شام کا دُھند لکا باہرپھیلنے لگا وہ اُٹھے گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی تیزی سے چلتی پل بھر میں ریس کورس ردڈ پر ڈھاکہ کلب کے کمپاؤنڈ میں آکر رُک گئی۔ تھوڑی دیر کے لئے معذرت کرتے وہ دونوں اندر چلے گئے اور وہ وہیں گاڑی میں بیٹھی گپیں لگانے اور اِدھر اُدھردیکھنے میں محو ہو گئیں۔
کلب کیسے ہوتے ہیں؟ اُس نے پڑھا تھا یا سُن رکھا تھا اور یہ پڑھا اور سُنا ہوا یقیناًاُس کے طبقے کا نمائندہ تھا اور کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا تھا۔ وہ خاموش بیٹھی اُس انوکھی دُنیاکو دیکھنے میں مصروف تھی۔ چاند کافی اُوپر آیا ہوا تھا۔ پر ٹیوبوں کی دوُدھیا روشنی میں بھولی بھالی سادہ سی چاندنی کے لئے کہاں گنجائش تھی؟ بیچاری ماند ہوئی پڑی تھی۔
ویٹرچار سیون اَپ لے کر آیا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا مشروب،پُر سحر ماحول اور یہ احساس کہ یہ لڑکیاں صرف اُس کی وجہ سے اِس خواب ناک ماحول کاحصّہ بنی بیٹھی ہیں اُسے احساسِ بلندی دینے کے لئے کافی تھا۔
لاؤنج میں صاحبِ ثروت لوگ پینے پلانے اور خوش گپیوں میں مگن تھے۔ اَکیسٹرادھیمے دھیمے سُروں میں بج رہا تھا۔ خوش پوش بیرے سروس کے لئے مستعد تھے۔
جلد ہی وہ آگئے۔اُس کا ساتھی بولا۔
”چلو آپ کو سیکنڈکپٹیل کے اُوپر سے گھُماتے ہوئے ہال چھوڑ آتے ہیں۔“
پتہ نہیں اُسے کیا ہوگیا تھا؟ وہ اُس پر جھُکا ہوا کچھ کہہ رہا تھا۔سرگوشیوں کے انداز میں کیا کہہ رہا تھا؟ یہ سُننے کااُسے ہوش نہ تھا۔
”اِسے کیا ہوگیا ہے؟“
اُس کا سانس حلق میں اَٹکنے لگا۔ ہاتھ پاؤں پھُولنے لگے تھے۔
خوف زدہ آنکھوں سے اُس نے اُس کی طرف دیکھا۔ عجیب سے تاثرات وہاں بکھر ے ہوئے تھے۔ اُس کے منہ سے بھی ناگوار سی بُو آر ہی تھی۔
اُسے سمجھ نہیں آتی تھی وہ کیا کرے اور جب کچھ نہ بن پڑا اُ س نے گھبرائے لہجے میں سرگوشی کی۔
”خدا کے لئے ٹھیک سے بیٹھئے نا۔وہ لوگ دیکھ رہی ہوں گی۔ باتیں بنائیں گی۔“
او ر پھر اُس نے ہلکے سے اُس کا ہاتھ بھی دبایا۔
اُس کی سرگوشی پُر اثر تھی یا ہاتھ دبانے کاعمل شوکنگ ثابت ہوا کہ اُس نے فی الفور اپنی نشست درُست کر لی۔
اور جب وہ چاروں گاڑی سے اُتر کر ہال میں داخل ہوئیں۔ ملکہ نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”تمہارے رحمان بھائی نے ڈرنک کی ہوئی تھی۔“
”ارے نہیں۔“ وہ یونہی دفاع پر اُتر آئی۔
”بائی گاڈ۔“
اور وہ سُن سے ہوئی۔کچھ مزید کہنا چاہا پر کہہ نہ سکی۔چُپ چاپ آڈیٹوریم میں آگئی۔
پر دودن کیسے گذرے جیسے بندہ جیتے جی پھانسی کا پھندہ گلے میں ڈال لے۔ نہ مرے اور نہ جئے بس درمیان میں لٹک جائے۔
پر اِس سوچ نے مرے کو مارے شاہ مدار والا کام کیا تھا۔ ایک شراب پینے والے انسان کا کیا اعتبار؟نشے میں کسی وقت بھی بہک سکتا ہے۔ وہ جس پٹڑی پر بدقّت چڑھی تھی یہ تلخ سوچ بار بار اُسے اُس سے اُتاردیتی۔
وہ دوبارہ اُنہی سوچوں اور اُلجھنوں میں گھِر گئی تھی۔جن سے تھوڑا سا نکلی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply