یہ میری آنکھ ہے۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​آج آٹھ برسوں کے بعد مرحوم لطف الرحمن کا تحریر کر دہ ایک مضمون جو شاید انڈیا کے کسی رسالے اور الحمرا (لاہور) میں شامل اشاعت ہوا تھا، نظر سے گزرا۔ یہ مضمون اس قدر بلیغ تھا کہ میرے دل میں کھُب گیا اور میں نے سوچا اسے دوبارہ اشاعت کے عمل سےدوستوں تک پہنچایا جاے۔ اس غرض سے “مکالمہ” کی مدد لی۔
ستیہ پال آنند

یہ میری آنکھ ہے
(ایک فینٹسی ۔۔نیوکلیائی جنگ کے تیس برس بعد کا منظر نامہ)

نظر اوپر اٹھائیں، تو بھی دیکھیں کیا؟
کہ بادل کے تھنوں کی تھیلیوں میں
شیر مادرایک قطرہ بھی نہیں
سوکھی ہوا ہے
خشک آہیں ، امتلا، اکراہ کی اک گھن گرج سی ہے
منغض ناگواری ہے !
کڑکتی بجلیوں کی شعلہ سامانی
پریدہ رنگ ہے ، ان کی کڑک جیسے
کسی گونگے کی ہکلاہٹ، گلو گیری سی رِیں رِیں ہے۔
کہاں سے پانی برسائیں ،’’گھٹا گھنگھور‘‘ کی آنکھوں میں کانٹے ہیں

نظرنیچے جھکائیں تو بھی دیکھیں کیا؟
کہ اس تشنہ دہاں دھرتی کے جوف و جوع کے مابین اب کچھ بھی نہیں باقی
یہی لگتا ہے کوئی راکھ کے نیچے پھنسا ہو موت کے منہ میں
نفس ِ واپسیں کی کھڑ کھڑ اتی ہچکیوں میں مر رہا ہو وقت سے پہلے
نمو سے سر بسرعاری خرابہ
راکھ کے اڑتے بگولے
دور تک اک روہڑی، سنسان ویرانہ
مخنث، بے نمو، لا ولد دھرتی، نسل کش ناکارگی۔۔۔

اور میں

یہ میری آنکھ ہے کیا جو
زمان و وقت کے جریان سے آگے پہنچ کر
نیچے اوپر دیکھتی ہے؟ راکھ کے اڑتے بگولے ارض پر
بادل کے بنجر بانجھ ٹکڑے آسماں میں۔۔۔
ہاں، یہ میری آنکھ ہے جو پیش بیں ہے، غیب کے احوال کی واقف
نہفتہ داں میں سب کچھ دیکھتا ہوں۔۔۔۔
آنے والے دور میں کیا ہونے والا ہے
میں سب کچھ جانتا ہوں!!
2008

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نظم پر عملی تنقید کا مضمون
ڈاکٹر لطف الرحمن
مخنث، بے نمو، لا ولد دھرتی
نوٹ
ڈاکٹر ستیہ پال آنند صاحب اوریہ ناچیز دہلی میں ساہیتہ اکاڈمی کے منٹو سے متعلق سیمینار کے مو قع پر جامعہ ملیہ کے نہرو گیسٹ ہاؤس میں آمنے سامنے کمروں میں ٹھہرے ہوئے تھےاور شام کو جب  ان کے کمرے میں محفل جمتی تھی تو کچھ اور دوست بھی شامل ہو جاتے تھے۔اردو شاعری کے بارے میں جب ایک باراس موضوع پر بات چیت ہوئی کہ غزل سے نظم آج تک اپنا دامن بچا نہیں  پائی۔ غزل کی طرح اس میں بھی ماضی ہی ماضی ہے۔
زمانہ ٔ حال کبھی کبھی اپنی شکل دکھاتا ہے لیکن مستقبل تو بالکل ہی عنقا ہے، تب ڈاکٹر آنندنے اپنی یہ نظم سنائی اور کہا کہ مستقبل عموماً اطوپیا کی ممکنہ صورت ہی پیش کرے گا لیکن ان کی یہ نظم آلڈس ہکسلے Aldous Huxley کے مشہورِ زماں انگریزی ناول Brave New World کی طرح Anti-Utopia ہے۔ میں نے اسی وقت ان سے ’’کتاب نما‘‘ کا وہ شمارہ لے لیا، جس میں یہ نظم شامل تھی۔ اور وعدہ کیا کہ دہلی سے واپس امریکا جانے سے پیشتر اس پر لکھا ہوا عملی تنقید کا مضمون آپ کے ہاتھوں میں ہو گا۔یہ مضمون اسی رات لکھا گیا اور دوسری صبح آنند صاحب کے لیَپ ٹاپ پرہی
انسائکلوپیڈیا سے حوالہ جات چیک کرنے کے بعد ان کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا۔

۔ لطف الرحمن۔ (دہلی، نومبر 2012)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یوٹوپیا اردو کے لیے نیا لفظ ہے۔اس کا اردو نعم البدل نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک ناول کا عنوان ہے جو1516 میں سرٹامس مور نے تحریر کیا ۔ اس میں ایک فرضی جزیرے کے سماجی، معاشی، معاشرتی نظام کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو سیاسی اور سماجی مساوات پر مبنی ہے۔ یہ ایک ایسی فلاحی ریاست ہے، جہاں سب لوگ امن سے رہتے ہیں۔ اس کے بعد یورپ کی مختلف زبانوں میں کئی اور کتابیں ایسی لکھی گئیں، جن میں اسی موضوع پر مبنی خیالی مملکتوں کا نقشہ تھا۔ پہلی اور دوسری جنگ ِ عظیم کے وسطی برسوں میں البتہ “اطوپیا مخالف” یعنی “اینٹی یوٹوپیا” کا تصور بھی پیش ہوا اورآلڈس ہکسلے کے علاوہ جارج آرویل نے ، دو ناول لکھ کر اس صنف کو فروغ دیا۔

ڈاکٹر ستیہ پال آنند صاحب کی نظم مختصرہے ، لیکن اجزائے ترکیبی کے آپس میں مضبوطی سے جُڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے جسامت رکھتی ہے۔ صرف ستائیس سطروں میں شاعر نے نہ صرف ایک منظر نامہ ترتیب دیا ہے، جو قاری کے سامنے ایک مکمل تصویر پیش کرتا ہے، بلکہ نظم کے عین وسط میں گریز کی سطر تک پہنچتے ہی شاعر خود اعلانیہ بنفس ِ نفیس جیسے نظم کے میدان میں کود کر وارد ہو جاتا ہے، اور اس دعویٰ کے ساتھ کہ شاعر ہونے کی وجہ سے وہ ’’نہفتہ دان‘‘ ہے اور مستقبل میں کیا ہونے والا ہے، پہلے ہی بتا سکتا ہے، اس تصویر میں مزید رنگ بھر دیتا ہے۔

نقشہ نویسی خطوط میںکی جاتی ہے، لیکن الفاظ میں عمل اقلیدس کا در آنا ایک ایسی تکنیک ہے، جس سے ستیہ پال آنند جیسا ہی کوئی’’لینڈ اسکیپ‘‘ یا ٹیبلیو بنانے والا شاعر کامیابی سے عہدہ برا ہو سکتا ہے۔ پہلی کچھ سطروں میں ’زمین‘،’ آسمان‘ اور اِن دو حدود کے درمیان ’ہوا‘ کی آئوٹ لائن ترتیب دی جاتی ہے، اسے تمثیلی اور ناقلانہ ماڈل میں تبدیل کیا جاتا ہے، اور پھر اس سے معانی اخذ کئے جاتے ہیں۔شروع کا یہ ’’بلیک اینڈ وہائٹ‘‘ خاکہ ہر نئی سطر کے ساتھ یہی تکنیک استعمال کرتے ہوئے کیمرے اور کیمکارڈر کی مدد سے تصویری بیانیہ میں ڈھلتا جاتا ہے، اور (تصغیریہ) سے طائرانہ اسکایا گرافی تک پہنچتے ہوئے ایک آفاقی تصویر پیش کرتا ہے۔

نظر نیچے جھکائیں تو بھی دیکھیں کیا؟
کہ اس تشنہ دہاں دھرتی کے جوف و جوع کے مابین اب کچھ بھی نہیں باقی
یہی لگتا ہے کوئی راکھ کے نیچے پھنسا ہو موت کے منہ میں
نفس ِ واپسیں کی کھڑ کھڑ اتی ہچکیوں میں مر رہا ہو وقت سے پہلے
نمو سے سر بسرعاری خرابہ
راکھ کے اڑتے بگولے
دور تک اک روہڑی، سنسان ویرانہ
مخنث، بے نمو، لا ولد دھرتی، نسل کش ناکارگی۔۔۔
یہ تو اس اُجاڑ خرابے کا ذکر ہے جس میں جوہری ہتھیاروں کی جنگ ہنستے بستے شہروں کو انہدام کی آخری حد تک پہنچا گئی ہے، جہاں نباتات اور حیوانات کا تُخم تک مٹ گیا ہے۔ زندگی بیخ وبُن سے اکھڑ گئی ہے۔ نیستی اور فنا کا منظر نامہ ’’روہڑی، سنسان ویرانہ‘‘ سے تو ظاہر ہے ہی، لیکن تخم ریزی کے نام پر اس ویرانے کے پاس کیا ہے، اس کا مذکور ان الفاظ میں مستور ہے۔ ’’مخنث، بے نمو، لا ولد، نس کش، ناکارہ‘‘ ۔۔۔

و ایک وقت ایسا تھا جب زمین کی گود بھی حیوانی اور نباتاتی نمو سے ایسے ہی آباد و شاداب تھی، جیسے کہ انسان کی ، لیکن اس منظر نامے میں تو زمین ایک مخنث کی طرح ہے جو اولاد پیدا کرنے کے نا قابل ہو،لا ولد ہے، اس میں نمو نہیں ہو سکتا۔ ہر طرف نسل کشی کا دو ر دورہ ہے۔
اس سے پہلے آفاقی منظر نامہ ہے۔ جیسے کہ پہلے کہا جا چکا ہے۔ شاعر کا کیمرہ (تصویر اور آواز ۔ دونوں کو ریکارڈ کرتے ہوئے) کے زاویوں سے کام لیتا ہے، اور کا یہ زاویہ ہے جو قاری کی آنکھ کھولتا ہے۔

دیکھیں کیا؟
کہ بادل کے تھنوں کی تھیلیوں میں
شیر مادرایک قطرہ بھی نہیں
سوکھی ہوا ہے
خشک آہیں ، امتلا، اکراہ کی اک گھن گرج سی ہے
منغض ناگواری ہے !
کڑکتی بجلیوں کی شعلہ سامانی
پریدہ رنگ ہے ، ان کی کڑک جیسے
کسی گونگے کی ہکلاہٹ، گلو گیری سی رِیں رِیں ہے۔

تین مظاہر ِ قدرت ہیں، جن کا تعلق زمین و آسمان کے درمیانی ’’علاقے‘‘ سے ہے۔ یہ ہیں بادل، ہوا، اور کڑکتی بجلیاں ۔۔۔بادل مینہ برساتا ہے، جو شیر ِ مادر سا ہے۔ دھرتی کے لیے امرت ہے۔ زمین کی ساری ہریالی اس کے دم سے ہے۔ لیکن بادل کو ’ماں‘ کے استعارے کے ساتھ منسلک کر تے ہی یہ کہہ دیا گیا کہ اس کے ’’تھنوں کی تھیلیوں میں شیر ِ مادر ایک قطرہ بھی نہیں۔‘‘ تھنوں کی تھیلیاں‘‘ کم از کم میری نگاہ سے دیکھیں تو اردو شاعری میں پہلی بار استعمال میں لایا گیا ہے۔ صوتی یک آہنگی ،تصویری یگانگت (تھ، تھ کی صوتیات، اور تھن اور تھیلیاں کی ہم شکل تصویر) کے علاوہ ’’شیر ِ مادر کا ایک قطرہ‘‘ تک نہ ہونا، اور سوکھی ہو اکا اُس کی کرخت ، درشت۔ کھرکھرے پن کی کریہہ الصوت آوازوں سے یہ تصویر باصری اور سمعی دونوں سطحوں پر قاری کو گرفت میں لے لیتی ہے۔
خشک آہیں، امتلا، اکراہ کی اک گھن گرج سی ہے

تیسرا قدرتی عنصر ’’کڑکتی بجلیاں‘‘ ہیں، لیکن ’’کڑکتی ‘‘ کہہ چکنے کے بعد شاعر فوراً اس بات کی تردید کر دیتا ہے، کہ بجلیوں کی ’’شعلہ سامانی‘‘ اور ’’بجلیوں کی کڑک‘‘ ، ’’پریدہ رنگ ‘‘ہوتے ہوتے صرف گونگے کی ہکلاہٹ اور رونے کی آواز( ’’ریں، ریں‘‘) ہے۔ گویا وہی بجلی جو چمک کر اور کڑک کر دھرتی کے باسیوں کے دلوں میں خوف بھر دیتی تھی، اب خود خوف زدہ ہے، گونگے کی طرح ہکلا رہی ہے، بے بس بچے کی طرح ریں ریں کر رہی ہے۔
اس مرکزی نقطۂ ارتکاز تک پہنچنے کے بعد گریز کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کے بارے میں پہلے کہا جا چکا ہے کہ نظم کا واحد متکلم، بیان کنندہ یا شاعر یکدم اپنے ’’میَں‘‘ کے ساتھ نظم میں وارد ہو جاتا ہے۔ یہ سیناریو اس قدر ڈرامائی ہے کہ دیکھتے ہی بن پڑتا ہے۔صرف ایک نعرہ ٔ مستانہ سا سنائی دیتا ہے اور میَں!
یعنی بربادی اور تحس نحس کے اس منظر کو دیکھنے والا، یا اس کا تصو ر کرنے والا مَیں یعنی شاعر ہوں۔ پھر فورا ہی اس بات کا اعلامیہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ شاعر ہونے کی وجہ سے مَیں پیش بین ہوں، نہفتہ دان ہوں، غیب کے احوال کا واقف ہوں۔ اس لیے اکیلامَیں ہی یہ احوال نامہ لکھ سکتا ہوں جو ابھی ظہور پذیر نہیں ہوا ہے، یعنی وہ سیناریو جو نیوکلاائی یا جوہری بموں والی جنگ کے تیس برسوں کے بعد ہونے والا ہے۔اس کا نقشہ صرف (اور صرف) میں ہی کھینچ سکتا ہوں۔ اس بند کے مخفی معانی یہ ہیں کہ دنیا کے سیاست دان شاید اس خطرے سے آگاہ نہیں ہیں، لیکن ایک شاعر ہونے کی حیثیت سے میر ا یہ فرض ہے کہ انہیں اس سے آگاہ کروں۔

یہ میری آنکھ ہے کیا جو
زمان و وقت کے جریان سے آگے پہنچ کر
نیچے اوپر دیکھتی ہے؟ راکھ کے اڑتے بگولے ارض پر
بادل کے بنجر بانجھ ٹکڑے آسماں میں۔۔۔
ہاں، یہ میری آنکھ ہے جو پیش بیں ہے، غیب کے احوال کی واقف!
نہفتہ داں میں سب کچھ دیکھتا ہوں۔۔۔۔
آنے والے دور میں کیا ہونے والا ہے
میں سب کچھ جانتا ہوں

Advertisements
julia rana solicitors

’’نیچے ، اوپر ‘‘ دیکھ کر اس کی عکاسی کرنے والا شاعر’’زمان و وقت ‘‘ کے ’’جریان‘‘ کا ذکر کرتا ہے۔ ان دو اصطلاحات پر ، خصوصی طور پر لفظ ’’جریان‘‘ کے استعمال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ زمان و وقت کا اشارہ براہ راست اس طرف ہے۔ زمان کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ ہر پانچ سات برس کے بعد، کبھی مشرق وسطیٰ میں، کبھی جنوبی ایشیا میں، کبھی جزیرہ نمائے کوریا میں، کبھی یورپ میں جوہری جنگ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
’’جریان‘‘، اشتہاری طبیبوں کی وجہ سے ایک خاص قسم کے جنسی مرض کا سکہ بند نام تسلیم کر لیا گیا ہے، لیکن اس کے معنی لغت میں یہ ہیں(۔ ’’پانی کا رُک رُک کر بہاؤ ، رواں ہونا ـ) یہ معنی عربی میں مستعمل ہے جبکہ منی کے خارج ہونے کے معنی یونانی طب سے وارد ہوئے ہیں) یہاں شاعر نے شاید ذو جہتی معنویت کو زیادہ جِلا دینے کے لیے اردو تنقید کے لیے اس غیر مستعمل لفظ کا استعمال کیا ہے۔ (گستاخی نہ ہو، تو یہ عرض کر دوں کہ ستیہ پال آنند سے الفاظ کے استعمال میں ذو جہتی، سہ جہتی، بسیار جہتی معانی ۔۔۔۔کچھ بھی بعید نہیں ہے، کہ وہ کئی زبانوں کے عالم ہونے کے علادہ مشرقی اور مغربی علوم کے ماہر ہیں) ۔
یہ نظم، جیسے کہ میں پہلے تحریر کر چکا ہوں، “اطوپیا کی نفی ” کے قماش کی ہے اور اردو میں ایک نئی قسم کا باب کھولتی ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply