اس چھپی ہوئی کھڑکی میں جھانکو/محمد سلیم حلبی

کوشلیہ کماراسنگھے کی کتاب “اس چھپی ہوئی کھڑکی میں جھانکو” کا سنہالا سے اردو میں ترجمہ اجمل کمال نے کیا ہے،ترجمہ مصنف اور مترجم دونوں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے،مصنف نے لفظ بلفظ کہانی سنہالا سے انگریزی میں مترجم کے گوش گزار کیا،مترجم نے لفظوں کو اردو میں پرونے کی حتی المقدور کوشش کی اور یوں کتاب کا ترجمہ ڈیڑھ سال میں مکمل ہوا۔

کتاب میں تین پہلو خاص اور نمایاں دکھائے گئے ہیں۔جنسی پہلو جس میں شوہر،بیوی کے روایتی تعلق میں دراڑ دکھائی گئی  ہے جبکہ انہی رشتوں سے فراریت کے عنصر واضح ہیں۔شوہر اور بیوی کے تعلق کو جبرا ً ڈالی گئی   ذمہ داری کے طور پر ایک دوسرے کو جھیلتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ انسیت و الفت میں کمی اور قربت کو لاچاری و بے بسی کے رنگ میں رنگا ہوا پیش کیا گیا ہے۔ یہ فراریت محض گھر کی لونڈی اور ساتھی سے ہے،جبکہ بیرون گھر اُنسیت کے خمار کا گراف بڑھتا ہوا پیش کیا گیا ہے۔

دوسرا پہلو زندگی کو رفتار اور سفر میں دکھانا ہے۔سفر جو ہم خود سے نہیں کرنا چاہ رہے بلکہ مجبور کیا جارہا ہے ہماری زندگی ہے،بھاگ دوڑ میں ایسے نادیدہ،ناشناس راستوں پر ہم اپنی توقع،پسند اور مرضی کے برعکس گھسیٹے جارہے ہیں۔اس بھاگ دوڑ میں ہم اتنے مصروف عمل ہیں کہ ہمیں اپنے اردگرد کے ماحول کا حتی کہ گھر کا علم نہیں کہ کیا ہورہا ہے۔

تیسرا پہلو ستر کی دہائی اور 89-1988 کی دہائی میں اٹھنے والا مارکسی و اشتراکی تحریک ہے جسے پیپلز لبریشن فرنٹ یعنی jvp نامی پارٹی لیڈ کررہا ہے۔ پیپلز لبریشن فرنٹ تحریک کے 89-88 کی تحریک کا مقصد ملک میں غیرمساوی،نااہل گورنمنٹ کا تختہ الٹنے،سوشلسٹ حکومت لانے اور فوجی تنصیبات پر قبضہ کرکے اور انہیں عوام کے زیر تحت لانے کی ایک کوشش ہے۔اس کوشش میں گورنمنٹ اور jvp کے کارکنوں کا تصادم بہت بھیانک اور المناک ہے۔شعرا،ادیبوں اور دانشوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاتا ہے۔لاشیں گرتی ہیں،اجتماعی قبریں دریافت ہوتی ہیں۔لوگ اچانک گم اور مسنگ ہوجاتے ہیں،اسی منظر کا موازنہ ہم پاکستان میں بلوچوں اور پشتونوں کی گمشدگی اور لاپتہ ہونے سے کرسکتے ہیں،جہان صبح گھر سے شہر اور یونیورسٹی کےلئے نکلا آدمی بیچ راستے مسنگ ہوجاتا ہے،ریاست جواب دہی اور انہیں عدالت میں لانے سے گریزاں دکھائی دیتا ہے۔

مصنف اجتماعی لاشوں اور قبروں کی دریافت پہ نوحہ کناں اور پرملال دکھائی دیتا ہے۔ناول میں ٹی وی کے ہیڈلائن میں اجتماعی قبروں کی دریافت عدالتی بلڈنگ کے نیچے ہونے اور دکھانے سے لگتا ہے مصنف عدالتوں کی جانبداری اور غیر آئینی اقدامات اور مسنگ اور قتل کئے گئے لوگوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام دکھائی دینے والے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں شرم و عار دلانے کی کوشش کرتا ہے۔

تتلیوں کا استعارہ بہت زیادہ استعمال کیا گیا ہے،مصنف بے بس عورتوں،شعرا اور ادیبوں کے قتل اور گمشدگی کو تتلیوں سے تعبیر کرتا ہے۔انہیں نرم دل،شفیق،امید کی کرن،روشنی کا استعارہ،معاشرے کے بہترین فرد اور رہبر کے طور دکھاتا ہے جبکہ تتلیوں کی معدومیت کو معاشرے سے شعرا،ادیبوں،آرٹسٹوں اور نقادوں کی گمشدگی،معدومیت اور قتل سے تعبیر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔تتلیوں کی گمشدگی پہ بعض اوقات مصنف کرداروں کو اندھا اور بصارت سے محروم دکھا کر تاریک مستقبل کی نوید سناتا ہے۔

معاشی کشمکش و سیاسی کشمکش اور تصادم میں درد و رنج سب سے زیادہ عورت کے کھاتے میں آتے ہیں۔دانشوروں،ادیبوں،نقادوں اور عورتوں کے قتل اور گمشدگی پہ عورتوں کو سر دھنتے دیکھا جاسکتا ہے۔ پدمی ایک کردار کا ڈائیلاگ جس میں وہ اس رنج کو بتانے کی کوشش کرتی ہے :

“میرے اندر ایک بڑی ساری گٹھلی ہے۔اس سے بھی بہت بڑی”

“اس میں درد ہوتا ہے؟” چھپکی اپنی آنکھیں میچتے ہوئے کہتی ہے۔

“ہاں بہت درد ہو رہا ہے۔”

“اس میں ددو بھرگیا ہوگا”، وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد کہتی ہے۔

“نہیں میری بچی ، اس میں بارود بھرا ہوا ہے ۔”

” کیوں ؟ وہ کیسے؟”

” آنٹی بہت اداس تھی، اس کو بہت رونا آیا تھا۔ لیکن آنسو آنکھوں سے باہر نہیں نکلے، سینے کے اندر چلے گئے ۔ جب آنسو بہت دنوں تک سینے میں دبے رہتے ہیں تو وہ ہاردو بن جاتے ہیں”۔

گویا اس وحشت و المناک واقعے نے عورتوں پہ بہت برا اثر ڈالا،جسے سینے میں زہر کے اترنے اور درد سے تعبیر کیا گیا ہے۔

عورت کا کردار نڈر،بے باک اور بلند حوصلوں والا بھی دکھایا گیا ہے مگر مجموعی طور پر عورت کی بے بسی و لاچاری ناول میں نمایاں طور پر دیکھنے میں آئی ہے۔

قطر میں سری لنکن محنت کش عورت کی وفات،سندا (ایک کردار)کی غیر ملکی بوڑھے سے شادی کی نیت اور سری لنکا سے فرار ہونے کی خواہش اور وہاں کے باشندوں کی پریشانیوں اور مصائب اور شکستہ جمہوریت اور لاقانونیت اس بات کی نشاندہی  کرتے ہیں کہ محنت کش طبقے کو روزی روٹی کے ساتھ ساتھ اپنی شناخت کےلئے جدوجہد کرنا پڑتی  ہے۔

کتاب کی زبان سادہ ہے،جملوں میں اچھوتا پن مفقود ہے،استعاروں کو استعمال کرکے کہانی میں گہرائی  پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے،استعاروں کے لبادے میں گورنمنٹ پہ تنقید،مستقبل کی فکر،عدلیہ اور گورنمنٹ کے ناجائز اقدامات پر ملال اور افسردگی کا رویہ اپنایا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کتاب ٹائٹل “اس چھپی ہوئی کھڑکی میں جھانکو” کی طرح خوبصورت،معنی خیز اور دلکش ہے۔لگتا ہے مصنف کھڑکی میں جھانکنے کو اردگرد اور اپنے من میں جھانکنے اور ہمارے ہر فیصلے اور اٹھتے قدم اور عمل کو جھانکنے سے تعبیر کررہا ہے۔کیا پتہ ہمارے جھانکنے سے اردگرد میں بہتری،معاشرہ میں بدلاؤ آئے اور مظلوم کو راحت و انصاف مہیا ہو؟۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply