• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کمپاؤنڈنگ فارمیسی اور بھاری خطرات /ڈاکٹر عبید علی

کمپاؤنڈنگ فارمیسی اور بھاری خطرات /ڈاکٹر عبید علی

منافع میں فطری دلچسپی دراصل ادویہ سازی کی صنعت افقی پھیلنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ منافع اور لالچ کے درمیان حائل لکیر کی موٹائی کا تعلق شعور کی بلندی اور دوسروں کا خیال رکھنے کے جذبہ سے وابستہ ہے ۔ بچکانہ ذہن کہیے یا آمرانہ ذہن کہیے ، شعور کی یہ سطح ہر قیمت پر اپنا فائدہ دیکھتی ہے ۔ جنھیں آپ نہ جانتے ہوں اور نہ ان سے کوئ واسطہ ہو ، انکا بغیر کسی لالچ کے خیال رکھنا اور اس ذمہ داری کیلئے جان لڑانا ہی انسانیت کے شعور کی معراج ہے ۔

بعض دوائیں کم خوراک میں دستیاب نہیں ہوتیں ۔ یا یوں جانیے کہ اس ادویات کا استعمال بہت کم ہے ، اس لئے اس بڑے پیمانے پر بنانے میں خاطر خواہ منافع کے امکانات معدوم ہوتے ہیں ۔ جس کے سبب ادویہ ساز صنعتکار اس میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔ اب اگر یہ ادویات مریض کیلئے ضروری ہوں یا ناامید حالات میں روشنی کی کرن بن سکتے ہوں تو ڈاکٹرز ان ادویات کو اس مریض کی صحت کی خاطر تجویز کرتے ہیں ۔ فارمیسی والے ان ادویات کو بازار میں دستیاب کیمیکل کی مدد سے اس مخصوص مریض یا اسپتال کے مریضوں کیلئے بناتے ہیں ۔ یقینا ان ادویات کی کوالٹی ، تحفظ اور اثر انگیزی پر وہ کام یا وہ محنت نہیں ہوتی جو ایک ادویہ ساز کمپنی میں ہوتی ہے ۔ ان ادویات کے بنانے پر نہ کوئ ضروری تحقیق ہوتی ہے اور نہ ہی ان پر نظر ثانی جسکی ذمہ داری ریگولیٹری اتھارٹی اٹھاتی ہو ۔

چونکہ بعض ادویات مخصوص انسانی گروپ میں پہلے کبھی باقاعدہ آزمائی نہیں گئی ہوتیں ، اس لئے اسکے بارے میں حقیقی معلومات حوالے کیلئے نہیں ملتا ۔ یہ مریضوں کے مخصوص گروپ جیسے بچے ، جیسے حاملہ خواتین ، جیسے کسی اور ساتھ دوسری بیماری کے مریض وغیرہ ہوتے ہیں ۔ انتہائی ضرورت محسوس ہونے پر ڈاکٹرز انھیں مریض کی آزادانہ مرضی سے یہ ادویات تجویز کرتے ہیں جسے فارمیسی میں مریض کیلئے بنائ جاتی ہے ، اس مشق کو ہم دوا کے منظور دعویٰ کے علاؤہ استعمال کے نام سے پہنچانتے ہیں ۔

آپ جانتے ہیں کہ بعض ادویات صرف منہ سے کھائ جاسکتی ہیں ، ان کا انجکشن دستیاب نہیں یا بعض کا انجکشن ہے مگر منہ سے کھانے والی دوا دستیاب نہیں وغیرہ وغیرہ ۔ بعض کیمیائی اجزا کسی دوسرے امراض کیلئے منظور ہوتی ہے اور ان اجزا کا ایک ساتھ دوا دستیاب نہیں ہوتی تو اس صورتحال میں خطرات مول کر یعنی ناپ تول کر انھیں بھی فارمیسی میں مخصوص مریض کیلئے ان ادویات کو ضروری احتیاط کے ساتھ بنانے کی اجازت ہوتی ہے ، اسطرح کی اجازت کا مقصد مریض کی جان بچانا اور مشاہدات میں اضافہ کرنا ہوتا ہے ۔

یعنی فارمیسی میں دوا کسی ایسے مریض کے لیے بنائی  جاسکتی ہے جس کا علاج منظور شدہ دستیاب دوائیوں سے نہیں کیا جا سکتا ہو مثلاً  مریض جس کو کسی خاص رنگ سے الرجی ہو اور اسے اس کے بغیر دوا بنانے کی ضرورت ہو ، یا ایک بوڑھا مریض یا بچہ جو دوا حلق سے نگل نہیں سکتا ہو اور اسے محلول خوراک کی شکل میں دوا کی ضرورت ہو ۔ ایسی صورتحال میں ہسپتالوں ، کلینکس ، اور دیگر صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات میں موجود فارمیسیز کے فارماسسٹ مریضوں کو یہ ادویات فراہم کرتے ہیں ۔ یہ ایک بہت اہم معاملہ ہے اور اکثر اوقات اس میں لالچ مریضوں کے مفادات پر غالب آجاتا ہے ۔ بہرکیف فارمیسی میں کمپاؤنڈنگ کی خدمات مریض کی ایک کلیدی ضرورت کو پورا کر سکتی ہے ۔ تاہم ، کچھ فارمیسیز اور کمپاؤنڈر ایسی سرگرمیوں میں مشغول ہوتے رہے ہیں جو مریضوں کی جان کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں اور/یا ادویات کی منظوری کے عمل کو سنگین نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر کچھ پیشہ ور لوگوں نے غلط اور گمراہ کن دعویٰ  کرتے ہیں کہ یہ کمپاؤنڈڈ ادویات محفوظ اور موثر ہیں ، غلط تاثر دیتے ہیں کہ یہ منظور شدہ اور محفوظ ادویات ہیں ۔ جبکہ انھیں ریگولیٹری اتھارٹی نے نہ جانچا ہوتا ہے اور نہ ہی پرکھا ۔

اکتوبر 2012 میں امریکہ کو حالیہ تاریخ میں آلودہ مرکب ادویات سے منسلک سب سے سنگین جان لیوا وبا کا سامنا کرنا پڑا جہاں میساچوسٹس کی ایک فارمیسی میں تیار کیے گئے انجکشن ادویات میں فنگس (پھپھوند سمجھ لیجیے) کی آلودگی شامل تھی ۔ اور یہ الودہ دوائیں مریضوں کی ریڑھ کی ہڈی اور جوڑوں میں داخل کی گئیں ۔ 20 امریکی ریاستوں میں تقریبا 14 ہزار مریضوں کو یہ دوا دی گئی ، 750 سے زیادہ لوگوں کو فنگل انفیکشن رپورٹ ہوا اور 60 سے زیادہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ یہ کوئی  معمولی یا الگ تھلگ واقعہ نہیں تھا ۔ چونکہ اسپتال کی فارمیسی میں دانستا بد احتیاطی یا نادانستہ لاعلمی کا سنگین خمیازہ مریض بھگتے ہیں اس لئے مریضوں کی دی گئی رضاکارانہ معلومات و شکایات پر توجہ کے ساتھ ساتھ فارمیسی میں ادویات کی تیاری پر نظر رکھنا ناگزیر ہے ۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں بھی اچھے کام کو بھی برے طریقے سے سر انجام دینے کی وجہ کچھ نہیں بس لالچ اور استحصال ہے ۔ اسپتال میں تیار کی جانے والی ادویات کی قیمت پر حکومتی نگرانی غیر موثر ہونے کی وجہ سے افراتفری میں لوٹ مار بے قابو ہی رہتا ہے ۔ لیبل کے برخلاف دوا کا مریض پر استعمال ہو یا دوا سے دوسری ادویہ یا خوراک بنائ جائے دونوں عمل یقینی طور پر خطرات کو دعوت دیتے ہیں ۔ معلومات اور ذمہ داری کے بغیر ڈاکٹرز کا غیر منظور شدہ بیماری یا خوراک میں ادویہ کا تجویز کرنا اور فارماسسٹ کا لیبیل کے ہدایات کے برخلاف ازخود دوا بنانا سنگین غیر ذمہ داری ہے ۔

یاد رکھیے ۔ فارمیسی کی سہولیات کے موثر انسپکشن کے بغیر اس طرح بنائی  گئی ادویات کو محفوظ سمجھنا کبوتر کیطرح آنکھ بند کرنے کے مترادف ہے ۔ انسپکشن کرنے کیلئے مطلوبہ علم ، اہلیت اور ہنر درکار ہوتا ہے ۔ جس کیلئے خاصا  پڑھنا ،جاننا اور سمجھنا پڑتا ہے ۔ فارمیسی کی سیر اور فارمیسی کا معائنہ دو یکسر مختلف باتیں ہیں ۔ لاچار مریضوں کا درد محسوس کریں ، خاص طور پر ان کا جن کو آپ جانتے بھی نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر عبید علی حیاتیاتی اور ادویاتی علوم سے تعلق رکھنے والے معروف پیشہ ور ہیں ۔ آپ نے 27 برس سے زائد وقت ادویات کی کوالٹی اور اسکے قوانین نافذ کرنے اور تدریسی سرگرمیوں میں گزاری

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply