اردگان بھی سعودیہ پہنچے۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

پچھلے ہفتے ہمارے نئے وزیراعظم اپنے پہلے دورے پر سعودی عرب پہنچے اور نون لیگ کے مطابق انتہائی کامیاب دورہ فرمایا اور پی ٹی آئی کے دوستوں کے مطابق یہ پاکستانی تاریخ ناکام ترین دورہ تھا۔ ہمارے ہاں بین الاقوامی خبریں ویسے بھی قابل توجہ نہیں ہوتیں اور جب سیاسی کشمکش عروج پر ہو تو دھیان صرف اسی کی طرف ہی محدود ہو جاتا ہے۔ اس دوران میں ہلکی پھلکی خبر یہ سنی گئی کہ ترکی کے صدر جناب طیب اردگان بھی سعودی عرب میں ہیں۔ پچھلے پانچ سال بالخصوص کمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودیہ ترکی تعلقات میں سرد مہری بلکہ کشیدگی آچکی ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ہر جگہ ترکی کو نقصان پہنچانے کے درپے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یونان اور ترکی کے قبرص پر اختلافات کے باوجود امارات نے یونان کی حمایت میں باقاعدہ یونانی فوج کے ساتھ مشقیں بھی کی تھیں۔ جمال خاشقجی کے قتل سے پہلے بھی ترکی اور سعودی عربیہ کے درمیان اخوان المسلمین کو لے کر تعلقات کافی خراب ہوچکے تھے۔

اردگان اس سے پہلے 2017ء میں سعودی عرب آئے تھے اور اس وقت ان کا مقصد یہ تھا کہ قطر اور سعودی عرب کے درمیان ہوئے اختلافات کو دور کیا جائے۔ قارئیں کو یاد ہوگا کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے قطر کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور کوشش کی تھی کہ اس کی ناکہ بندی کر دی جائے، جس سے وہ مجبور ہو کر سعودی ولی عہد کے قدموں میں آ پڑے۔ ترکی عرب بہار اور اخوان کا خطے میں بڑا سپورٹر ہے اور سعودیہ سمیت خطے کی دیگر مطلق العنان بادشاہتیں اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتی تھیں۔ یوں یہ اختلافات بڑھتے گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اردگان پانچ سال بعد سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں۔ اس دورے کے لیے اردگان نے پچھلے ماہ سے ماحول بنانا شروع کر دیا تھا، جب یہ خبریں آنے لگیں کہ ترکی نے ان چھبیس افراد کے کیسز کو سعودی عرب منتقل کر دیا، جو خاشقجی کیس میں ملوث تھے۔ یوں محمد بن سلمان کو گرین چٹ دینے کا عمل تکمیل کو پہنچا، کیونکہ سعودی نظام انصاف ولی عہد محمد بن سلمان کی اس قتل میں تحقیقات کرنے کا گناہ کبیرہ نہیں کرسکتا۔

ایسا کیا ہوا ہے کہ اردگان محمد بن سلمان کے حضور پیش ہوگئے ہیں؟ تجزیہ کار اس کی مختلف وجوہات بیان کر رہے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ترکی مالی مفادات سمیٹنے کی پالیسی پر گامزن ہے، اس نے دیکھا کہ محمد بن سلمان کو چیلنج کرکے اسے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا بلکہ عرب ممالک میں سعودی اشاروں پر باقاعدہ ترکی کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی۔ عرب ممالک سے بڑی تعداد میں سیاح ترکی آتے ہیں، جو ترکی کا بڑا ذریعہ آمدن ہے، تعلقات کی خرابی سے ان میں بھی واضح کمی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی خطے میں تبدیل ہوتے حالات میں اپنا حصہ لینا چاہتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یوکرین روس جنگ میں ترکی نے اپنے پتے بڑی مہارت سے کھیلے ہیں۔ اس نے روس سے تعلقات کو بگڑنے نہیں دیا اور یوکرین و روس کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ جو بھی ہے، بظاہر ترکی امریکہ اور روس ہر دو کے ساتھ تعلقات رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔

ترکی اپنے ہتھیار بالخصوص ڈرون بیچنا چاہتا ہے اور یوکرین پر روسی حملے سے سکیورٹی کی جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، ہر ملک پہلے سے زیادہ سرمایہ ہتھیاروں پر خرچ کر رہا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے نے سعودی عرب کو جو مالی نفع پہنچایا ہے اور خود ساختہ دشمنوں کے خوف سے سعودی شاہی خاندان ویسے ہی ضرورت سے زیادہ اسلحے پر خرچ کرنا چاہتا ہے۔ ترکی کے لیے یہ نادر موقع ہے کہ وہ اپنے ڈرونز اور دیگر اسلحہ بڑے پیمانے پر سعودی عرب کو بیچے۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپ اس وقت شدید انرجی بحران سے نبرد آزما ہے۔ روس سے گیس اور تیل نہ لینے کی خواہش موجود ہے اور اس کے نعم البدل دیکھے جا رہے ہیں۔ اس میں مختلف روٹ زیر غور ہیں، ایک روٹ آذربائیجان سے ترکی اور ترکی سے یورپ کا ہے اور آرمینیا کی جنگ اور آذربائیجان کی فتح کو اس تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیئے۔

اس کے ساتھ ساتھ دوسرا روٹ اسرائیل سے ترکی اور یہاں سے یورپ تک گیس فراہم کرنے کا ہے۔ اسی لیے پچھلے کچھ عرصے میں ترکی اور اسرائیل بڑی تیزی سے قریب آئے ہیں(اگر پہلے نہیں تھے تو)۔ اسرائیلی صدر نے ترکی کا دورہ کیا اور اس کا پرتپاک استقبال ہوا۔ ہر دو صورت میں یورپ جانے والی گیس کا راستہ ترکی سے ہو کر جاتا ہے۔ اس سے ترکی پورے یورپ کی ترقی کی شہ رگ کا مالک ہوگا اور اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا۔ ان مالی منافع کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ خطے میں امریکی اتحادیوں سے تعلقات بحال کیے جائیں اور اس میں سعودی عرب پہلے نمبر آتا ہے۔ اردگان کا دورہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس کے نتائج آہستہ آہستہ آئیں گے، جن کا آغاز ہوچکا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مشہور تجزیہ نگار وصی بابا کے مطابق صدر اردوان نے سعودی دورے سے واپس پہنچتے ہی اخوان المسلمین کا چینل المکلمین فوری طور پر بند کر دیا۔ اس چینل کے عہدیداروں کو بلا کر سمجھا دیا کہ سفارتی نزاکتیں کیا ہوتی ہیں۔ زمانہ بدل گیا۔ چینل کے ایگزیکٹیو بطور مہمان رہ سکتے ہیں، لیکن اس چینل کی سرکاری سرپرستی اب بند سمجھیں۔ اس ایک اقدام کے ساتھ ہی ترکی نے مصر اور اسرائیل کو بھی خوش کر دیا۔ حماس کے عہدیداروں کو بلا کر کہہ دیا گیا کہ تمھارے ملٹری ونگ عزاالدین قسام بریگیڈ کے لوگ ترکی سے چلے جائیں۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے۔ اگر مالی مفاد کی قیمت پر قومی غیرت اور اسلامی ذمہ داریوں سے دستبردار ہونا پڑے تو یہ بہت ہی گھاٹے کا سودا ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ بظاہر ترکی یہی کرچکا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply