خواجہ خورشید انور کی کہانی۔۔۔۔۔اصغر علی کوثر/قسط2

خواجہ خورشید انور کی کہانی۔۔۔۔۔اصغر علی کوثر/قسط1

پاکستان کے یگانہ روزگار موسیقار،خواجہ خورشید انور شمع سینما لاہور کے قریب پیر غازی روڈ پر رہتے ہیں۔حضرت پیر غازی ؒ کا مزار اقدس ان کے گھر سے قریباً ایک فرلانگ آگے چوک بابا اعظم کی طرف واقع ہے،خواجہ صاحب پنجگانہ نماز پابندی ء وقت کے ساتھ ادا کرتے ہیں،وہ نمازِ ظہر کے بعد کسی ایسے کام میں ہاتھ نہیں ڈالتے جو نمازوں کی ہمہ وقت ادائیگی میں مزاحم ہوسکتا ہو۔اس لیے ایک رو ز قبل فون پر ہم نے نمازِ ظہر سے پہلے ملاقات کاوقت طے کیا۔میں جب وہاں پہنچا تو انہوں نے ایک ایسے برآمدے میں کرسیاں لگوارکھی تھیں جہاں سے وہ باہر کا منظر بھی دیکھ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں اپنی فلمی زندگی کا ذکر تو کسی ملاقات میں تفصیل سے کروں گا لیکن آج یہ بتانا چاہتا ہوں کہ “گھونگھٹ “،”ہمراز”،اور “چنگاری” میری ایسی فلمیں تھیں جن کی ڈائرکشن اور موسیقی کے علاوہ سکرپٹ اور سکرین پلے بھی میں نے ہی تحریر کیا تھا۔انتظار،زہر،عشق اور جھومر میں موسیقی کے علاوہ دیگر شعبوں میں میرا کیا کنٹری بیوشن تھا،یہ میں بعد میں بتاؤں گا۔

سوال:آپ کہتے ہیں کہ اپنی فلموں کی کہانیاں اور منظر نامے آپ نے خو د تحریر کیے۔تو کیا آپ پہلے ڈرامے لکھتے رہے ہیں؟

یہ ایک دلچسپ داستان ہے۔میرے والدِ ماجد خواجہ فیروز الدین لندن میں اپنے قیام کے دوران تھیٹر دیکھنے اور تھیٹر میں حصہ لینے کے شوقین تھے،جب وہ واپس لاہور آئے تو یہاں   ایک تھیٹریکل کمپنی کا بڑا چرچہ تھا،اس کا مالک ایک پارسی تھا،جو والد صاحب کا بڑا گہرا دوست تھا۔اس کے تمام مقدمات کی سماعت کے دوران بھی وہی بطور ایڈووکیٹ پیش ہوتے تھے۔ایک روز وہ مجھے ا س تھیٹر میں لے گئے،میں اس وقت چھٹی یا ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔مجھے ڈرامہ دیکھ کر بہت لطف آیا۔چنانچہ میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ رات کو اپنے بستر پر تکیہ رکھ کر اس پر چادر ڈال دیتا اور خود تھیٹر دیکھنے چلا جاتا۔اس زمانے میں تھیٹر رات گئے تین تین چار چار بجے ختم ہوتا تھا،میں واپس آ کر بستر پر دراز ہی ہوتا کہ سکول جانے کا وقت ہوجاتا۔رات جاگنے کی وجہ سے روزانہ مجھے کلاس میں اپنے ڈیسک پر نیند آجاتی اس صورت سے برہم ہو کر میرے ٹیچر مجھے بنچ پر کھڑا کردیتے،مگر رت جگا اتنا شدید ہوتا تھا کہ میں بنچ پر کھڑے کھڑے سو جاتا اور گر پڑتا۔یہ شکایت بالآخر میرے گھر تک پہنچی اور والد صاحب نے تھیٹر کے مالک سے کہہ دیا کہ جب تک میری چٹ نہ آئے،خورشید انور کو تھیٹر دیکھنے کی اجازت نہ دیا کیجئے۔میرے لیے بڑا صبر آزما فیصلہ تھا۔میں نے سوچا کہ کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہیے کہ میں دوسرے تیسرے روز تھیٹر دیکھ سکوں،بلآخر ایک ترکیب سمجھ آئی اور میں اس پر عمل کرکے مدتوں تھیٹر دیکھتا ریا۔۔۔بات یوں تھی کہ والد صاحب چونکہ بیرسٹر تھے اس لیے ان کے پاس قانونی کتابوں کی ایک بڑی لائبریری تھی۔انہوں نے ہر کتاب کے آغاز سے پہلے جلد کے گتے کیساتھ والے کاغذ پر اپنا نام لکھا ہوا تھا،میں کسی نہ کسی کتاب سے وہ کاغذ پھاڑتا اور والد کے دستخطوں کے اوپر اجازت نامہ لکھ دیتا۔ اور میں اس طرح مدتوں تھیٹر دیکھتا رہا۔
ایک روز والد صاحب نے میری طرف دیکھ کر کہا کہ چلو آپ کے روز روز تھیٹر جانے پر تو ہم نے قانو پا لیا ہے ،میں نے مسکرا کر کہا کہ ذرا اپنی کتابیں تو دیکھیے ،کسی میں بھی پہلا کاغذ نہیں۔۔۔

بہر حال میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس تھیٹر کے ذریعے میرے اس ذوق نے بڑا فروغ پایا،اس زمانے میں ایک اور دلچسپ واقعہ پیش آیا کہ گجرات کی ایک ممتاز شخصیت پیر قمر الدین کے ایک پوتے جرمنی سے اس فن کی تربیت لے کر آئے جس کا اظہار سٹیج کے ذریعے کیا جاتا ہے،انہوں نے دنیا کے ایک بہت بڑے ڈائریکٹر رائن ہاٹ سے یہ آرٹ سیکھا اور ان کے شاگرد ہوئے۔رائن ہاٹ دنیا کے تین بڑے ڈائریکٹروں میں شمار ہوتا تھا،پھر سکرین سے متعلقہ امور پر دسترس حاصل کرنے کے لیے وہ نوجوان جرمنی ہی کے ایک ادارے یو ایف اے میں شامل ہوئے،ان کا نام تھا رفیع پیر۔۔
انہوں نے جرمنی سے واپس آکر لاہور ٹمپل روڈ میں میرے بہنوئی شیخ محمد مسعود کے گھر پر ڈیرہ جما لیا۔ریڈیو کے لیے بھی لکھنے لگے۔رات گئے گھر واپس آتے پھر صبح دیر تک سوتے رہتے اور بارہ بجے دن تک ناشتہ ان کا انتظار کرتا رہتا۔پھر وہ سر پر پٹی باندھ کر اپنے کمرے سے برآمد ہوتے اور ناشتہ لے کر اسی کمرے کے حوالے ہوجاتے۔وہ تین سال تک یعنی جب تک انہوں نے شادی نہیں کی،شیخ محمد مسعود ہی کے گھر مقیم رہے۔وہیں ان سے میری ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ایک دفعہ رفیع پیر تین روز تک زیادہ وقت اپنے کمرے میں ہی بند رہے،میں نے ان سے کہا کہ آپ ایسا کیا کارنامہ سر انجام دے رہے ہیں کہ اپنے کمرے میں ہی بند رہتے ہیں؟۔۔۔ انہوں نے کہا کہ بھئی پلے یعنی ڈرامہ لکھ رہا ہوں پلے لکھنا کوئی آسان بات نہیں،میں نے ان سے کہا کہ آج جب آپ اپنے کمرے سے نکلیں،مجھے اس میں بند کردیں۔۔میں آپ کے واپس آنے تک ایک ہی نشست میں ایک ڈرامہ لکھ لوں گا۔ انہوں نے حیرت سے مجھے دیکھا لیکن جاتے ہوئے واقعی مجھے اپنے کمرے میں بند کرگئے۔پھر رات کو دو بجے واپس آئے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ میں واقعی اپنا ڈرامہ مکمل کرچکا تھا۔جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں رفیع پیر۔۔۔ خود ایک بہت بڑے فنکار تھے۔اب میں ہر وہ خوبی تھی جو پرانے زمانے کے بڑے سٹیج اداکاروں میں ہوتی تھی۔ان کی ڈئیلاگ ڈلیوری کمال کی تھی۔ان کی عادات بھی بڑے سٹیج اداکاروں والی تھیں،رات کو چار بجے سے پہلے نہ سوتے تھے،عموماً رات ہی کو لکھتے تھے،انہوں نے خود معرکہ آراء ریڈیو ڈرامے لکھے۔پہلے ترجمے کیا کرتے تھے۔وہ ریڈیو ایکٹنگ کے باوا آدم سمجھے جاتے تھے،موہنی حمید سمیت ریڈیو کے تمام بڑے  فنکار ان کے شاگرد تھے،لیکن میرا ڈرامہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔انہوں نے کہا کہ میں ریڈیو سے خود اسے پروڈیوس کروں گا،اور ہیرو کا رول بھی خود ادا کروں گا۔

اس ڈرامے کی تھیم یہ تھی کہ ایک شخص پانچ سال کے بعد لندن سے واپس آنے والا ہوتا ہے،اس کی منگیتر اس کا انتظار کررہی ہوتی ہے،وہ اپنے گھر کو سجاتی بناتی اور صاف ستھرا کرتی ہے،اس کی سہیلیاں اسے روز ڈراتی ہیں کہ جو شخص پانچ سال تک لندن میں رہا ہو،وہ بالکل انگریز بن جاتا ہے،وہ تمہیں کیسے پہچانے گایہ باتیں سن سن کر لڑکی پر دہشت طاری ہوجاتی ہے،وہ گھر کی جھاڑ پونچھ کرنے کے بعد ایک آرا م دہ کرسی پر نیم دراز ہوجاتی ہے اور سوجاتی ہے۔ خواب میں اپنے منگیتر کو آتے ہوئے دیکھتی ہے۔وہ واقعی ایک انگریز کی طر ح ہے،گھر آتے ہی عجیب سی سنسنی پھیلا دیتا ہے،اس کے طور اطوار دیکھ کر لڑکی گھبرا جاتی ہے،اسی اثنا میں اس کی آنکھ کھل جاتی ہے اور جب اس کا منگیتر آجاتا ہے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے کہ اس میں انگریزوں والی کوئی بات نہیں ہوتی،نہ ہی وہ اپنی منگیتر سے کوئی نفرت کرتاہے،حتیٰ کہ اس نے انگریزی لباس بھی زیب تن نہیں کیا ہوا۔اچکن اور ترکی ٹوپی پہنے ہوئے ہے،۔اس ڈرامے کا نام تھا۔۔۔واپسی!

رفیع پیر نے جب اسے ریڈیو سے پروڈیوس کیا تو بے حد پسند کیا گیا۔حتیٰ کہ اس نے اتنی مقبولیت حاصل کرلی کہ اس کو لکھنو،دہلی،کلکتہ،بمبئی اور آل انڈیا ریڈیو کے تمام بڑے سٹیشنوں سے پروڈیوس کیا گیا۔۔یہ قیام پاکستان سے بہت پہلے کا قصہ ہے۔
لاہور سے پہلی دفعہ تو اسے رفیع پیر نے پروڈیوس کیا،مگر دوسری دفعہ سید امتیاج علی تاج نے بھی پیش کیا۔۔دلّی سے دیوان آنند شرر نے اس کو پروڈیوس کیا،انہوں نے فلم اشارہ کی کہانی بھی لکھی تھی،اور بڑے مشہور ناول نگار تھے،لکھنو میں حفیظ جاوید اور بمبئی سے ز یڈ اے بخاری نے پروڈیوس کیا۔اس طرح اس ڈرامے نے حیران کن مقبولیت حاصل کی،پہلی بار براڈ کاسٹ ہوتے ہی مجھے اس کا معاوضہ تیس روپے ملا۔پھر مدتوں تک دس دس پندرہ پندرہ روپے آتے رہے،

Advertisements
julia rana solicitors

اب آپ ن یاندازہ لگا لیا ہوگا کہ بچپن میں مجھے ایکٹنگ اور سکرین پلے کی بڑی سمجھ آچکی تھی۔لہذا اپنی فلموں کے سکرپٹ تیار کرتے وقت یا ڈائریکشن دیتے وقت میں جزئیات تک کا خیال رکھتا اور ان خوبیوں کو اپنی فلموں میں سمو دیتا،جو آج تک ان کا حسن تصور ہوتی ہیں۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply