خامہ بگوش غالب۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

خامہ بگوش غالب سلسلے کی دو نئی کڑیاں۔ ساٹھ اشعار پر مشتمل یہ کتاب جلد چھپے گی۔ یہ دو اشعار “ہزار معنی ء دارد کہ در گفتن نمی آید” کے بمصداق ہیں اور مرزا غالب ان پر اپنی رائے دیتے ہیں۔
ستیہ پال آنند

پیکر ِ عشّاق ساز ِ طالع ِ ناساز ہے
نالہ گویا گردش ِ سیارہ کی آواز ہے
——————————

ستیہ پال آنند
مت ہنسیں، اے بندہ پرور ، میرے استفسار پر
جسم عاشق کا بھلا کیا اک سریلا ساز ہے
جو کہ اک بے تال سازندہ بجاتا ہے یہاں؟
پیکر ِ عشّاق‘‘ کیا بجتا ہوا باجہ ہے، جو
مائل ِ فریا د رہتا ہے یہاں آٹھوں پہر؟

مرزا غالب
ہاں، کہ گو بھونڈا ہے یہ اظہار، پر اے ستیہ پال
اپنی کج گوئی میں پھر بھی قابل ِ برداشت ہے
اب کہو کچھ اور کہنا ہے تمہیں اس باب میں؟

ستیہ پال آنند
ہاں، مرّبی، آپ گر برداشت کر پائیں اسے؟

مرزا غالب
جب بھی کوئی شعر کہتا ہوں، عزیزی، تو مجھے
اس کا اندازہ تو رہتا ہے کہ کیا سمجھیں گے لوگ
میرےمعنی ہی مرجع پھر بھی ہیں میرے لیے
اس لیے، گھبراؤ مت، کہنا ہے جو کچھ بھی، کہو

ستیہ پال آنند
مصرع ِ ثانی میں ’’نالہ‘‘ ، مصرع اولیٰ میں ـ’’سازـ
ضلع کے الفاظ ہیں ۔۔۔اس میں تردد کچھ نہیں
ساز سے آہ و بکا کا شور اٹھنا تو ہے راست
پر یہ جزع و فزع ، یعنی ’’طالع نا ساز‘‘ ہے
دوسرے الفاظ میں یہ ساز خود بیمار ہے
یا کہ اس کی ’’راگنی‘‘ سُر میں نہیں، بے تال ہے
’’پیکر ِ عشاق‘‘ کا باجا تو بجتا ہے، مگر
ماندہ و بیزار سا ، جیسے تھکا ہارا ہوا
کیا تھکا ماندہ ، غنودہ، کسل مند ہے یہ رباب
کیا غلط کہتا ہوں میں، اے پیر ِ نالہ کش، کہو؟
کچھ تفرج یا تفنن رونے دھونے میں نہیں

مرزا غالب
سُن لیا، جو کچھ کہا تم نے، بہت تفصیل سے
مصر ع ِ ثانی پہ بھی کچھ تو کہو، میرے عدو

ستیہ پال آنند
مصرع ِ ثانی کا، جو میں سچ کہوں تو، عالی جاہ
صرف ہلکا سا تعلق مصرع ِ اولیٰ سے ہے
گردش ِ سیّارہ‘‘ کا رشتہ ہے کیا ؟ علم ِ نجوم؟
پیکر ِ عاشق کہ جو اک ’’طالع ِ ناساز ـ‘‘ تھا
اس تعلق میں فقط اک لا تعلق اسم ہے
ایسا ’’اسم ِ معرفہ‘‘ تو طفل بھی لکھتےنہیں
آپ خود سوچیں ذرا، کیا ایسے لفظی کھیل میں
کچھ ملّخص ؟ منصرف ؟ صرفی و نحوی ربط ہے؟
صرف ہلکا سا اشارہ ہے ، تعلق کچھ نہیں

مرزا غالب
دو مصارع ؟ دو معانی؟ لا تعلق ؟ این و آں؟
کیا یہی مطلب ہے میرے شعر کا ، اے ستیہ پال؟

ستیہ پال آنند
کیا کہوں میں؟ آپ خود ہی فیصلہ کر لیں، حضور

————————————–

بہ نیم غمزہ ادا کر حق ِ ودیعت ِ ناز
نیام ِ پردہ ء زخم ِ جگر سے خنجر کھینچ
۔۔۔

ستیہ پال آنند
جگر میں زخم ہے اور اس پہ ایک پردہ ہے
نیام ِ پردہ میں خنجر ہے جیسے نیم نشیں
ہے زخم خوردہ مُصر اس کو کھینچ لینے پر
بتائیں تو سہی، قبلہ، یہ احتیاج ہے کیوں؟

مرزا غالب
ہے سیدھی سادی سی اک بات، ستیہ پال، عزیز
نیام ” سے جو نکالیں “الف ” کا یہ خنجر
بچے گا “نِیم” ہی پیوستہ خنجر ِ غمزہ
غرض یہ ہے کہ حسینہ کرے گی آپ ادا
“بہ نیم غمزہ ” ہی اپنا “حق ِ ودیعت ناز”
اسے نیام کی اب کچھ طلب نہیں باقی

ستیہ پال آنند
صحیح ،کھرا ہے ۔۔۔یقیناً ، حقیقتاً ہے، جناب
مگر جو اصل معانی تھے، غتربود ہوئے

مرزا غالب
بھلا، وہ “اصل معانی ” تھے کیا، عزیز القدر؟

ستیہ پال آنند
مرے حضور، معانی تو کھینچا تانی میں
ہزار نیمے بروں ہیں تو صد ہزار دروں
نیا م ِ پردہ ء زخم ِ جگر کو کھینچا تو
جو کچھ بھی نکلا وہ غربال کا مرقع تھا
جو کام آپ نے یوں سحر ِِ سامری سے کیا
نظر نواز بھی ہے اور فی البطن بھی ہے
یہی تھے اصل معانی جو ثقل گوش ہیں اب

مر زا غالب
تمہاری بات تو معقول ہے، مگر آنند
عدم جواز نہیں ہے مرے وجوب کا یہ
کہ کچھ تو “نیمے دروں” بھی رہےتو اچھا ہے

ستیہ پال آنند

ہزار نیمے بروں ہے تو صد ہزار دروں” یہی ہے آپ کے جملہ کلام کی تفصیل؟

مر زا غالب

Advertisements
julia rana solicitors

یہی ہے راز مری شاعری کا ، ستیہ پال اسے سمجھنا کسی مبتدی کا کام نہیں ۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply