​غالب کے فارسی اشعار۔ شر ح و تفسیر۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ری ڈکت یو ایڈ ابسرڈم کی تکنیک میں آج سے تیس سال پہلے سعودی عرب کے قیام کےدوران، میں نے غالب کے دس فارسی اشعارکو اردو نظموں کا جامہ پہنایا تھا۔ کہ یہ اشعار فارسی میں بدشکل دکھائی پڑ تے تھے۔ یہ نظم ان میں سے ایک ہے۔ ستیہ پال آنند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
براہِ او چہ در بازیم، نے دینے نہ دنیا
ولیداریم و اندوہے سرے داریم و سودائی
۰۰۰
ہم اُس کی راہ میں دینے کی خاطر کون سا در کھول کر دیکھیں
کوئی در جس میں رکھا ہو برے وقتوں کی غایت کے لیے کوئی دفینہ۔۔۔
کوئی غولق جس میں ہو محفوظ کچھ نقدی بھلائی کی؟
کوئی کھاتا، تجوری، گنج یا بھنڈار
یا اک جاریہ صدقہ
ہمارے بعد بھی جاری رہے جو رہتی دنیا تک
مگر دنیا تو دنیا ہے
بری یا بھلی ہے، ہم نے کیا لینا ہے اس سے؟
اور اگر لینا نہیں ہے، تو بھلا دینے کا کیا مطلب؟
یہی مسلک تھا اپنا اور اس کو مان کر ہم نے
کوئی در بھی نہیں کھولا عوام الناس کی راحت رسانی کے لیے
یہ مانتے ہیں ہم!
کہا اک دوست نے، “بھائی
کوئی لنگر ہی کھولو
جو چلے آٹھوں کے آٹھوں پہر نگری میں !”

اگر دنیا کی خاطر کچھ نہیں تو دین کی خدمت؟
نہیں بھائی۔ ہماری دوستی خود مرتکز تھی اور۔۔
یہی سمجھا تھا ہم نے
دین کی خدمت تو خود سے دور ہونے کی اصالت ہے
اگر ہم روز مرّہ کی روش سے دور ہٹتے تو
یقینا دین کی خاطر بھی کچھ کرتے!
ٓاصولاً ہم ہی ہم تھے، خود ہی خود تھے
دین و دنیا کے لیے کرتے بھی کیا آخر؟

’’ولیداریم و اندوہے سرے داریم و سودائے‘‘
فقط دو ہی تو تھے اسباب اپنے پاس، دونوں ہی
سبب تھے میرے خوف و بیم ۔۔۔
اور سودائے سر کے۔جانتا ہوں میں!
مرا دل،دکھ کا گہوارہ۔۔
اذیت،فکر اور اندوہ کا مارا ہوا، صید ِ زبوں سا تھا
یہ مرا دل ہی تو تھا جس نے مجھے بے چین رکھا عمر بھر میری

’’سرے داریم و سودائے‘‘۔۔۔
یہ کیسا مشتعل ہیجان تھا ، شوریدگی تھی، خبط تھا جس نے
مرے سر میں ہمیشہ کے لیے گھر کر لیا ۔۔۔اور میں
کسی شوریدہ سر ، خبطی سا
(لکھتا ہی رہا اپنے جنوں کے خوں چکاں قصّے٭

یہی دو ہی تو تھے اسباب میری دین و دنیا سے
فراموشی کی حالت کے، کہ میں نے بیخودی میں ہی
انہیں ’از یاد رفتہ ‘، بھولا بسرا ، قصہ ٔ مذکور ہی سمجھا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

Advertisements
julia rana solicitors

؎ لکھتے رہے جنوں کی حکایات ِ خوں چکاں)٭٭٭
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply