بدن کی گھپّا سے باہر چند لمحے۔۔احمد نعیم

اپنے سرپھرے جنون کے ہاتھوں
ایک دن وہ
بدن کی تنگ گھپّا سے باہر نکل پڑا
اندھے غار سے نکلتے ہی
آنکھیں چندھیاں گئیں
روشنی کا سیلاب
آوازوں کا ہجوم
سروں کا سمندر
بھاگتے قدم
مرتے تڑپتے انسان
روندتے پیر
دھڑکتے دل
شور شور شور
وہ تن تنہا اکیلا ڈرپوک
الٹے قدموں واپس پلٹا
صدیاں بیت گئیں
لیکن وہ اب تک باہر کے شور سے بہرا پڑا ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply