گھروندا ریت کا(قسط17)۔۔۔سلمیٰ اعوان

”میں چاہتا ہوں تم میرے ساتھ ایک پوری رات گزارو۔“
اُس وقت وہ باہر نظاروں میں گُم تھی۔ تاحدّ نظر دھان کے سر سبز کھیتوں کے پھیلاؤ نے دھرتی پر گہر ے سبزے کے جیسے قالین بچھا رکھے تھے۔ اِن میں ناریل تاڑ اور کیلوں کے جھُنڈ ایک نیا رنگ سجاتے تھے۔ اور اِن جھُنڈوں میں گھاس پھونس کی باشاہیں کانسی اور سُرخ پھولوں سے ڈھنپی کِسی مصّور کا کینوس پر بکھرے شاہکار نظر آتے تھے۔
ایسے من موہ لینے والے منظروں سے لُطف اندوزی میں اُس نے کِس قدر خوفناک قسم کی بات سُنی تھی۔ دہل کر رہ گئی تھی۔
”رات۔“
اُس کی آنکھیں پھٹیں۔ اِس پھٹاؤ میں خوف کا عنصر غالب تھا۔
”ہاں ہاں بھئی گھبرا کیوں گئی ہو؟“
وہ یوں بول رہا تھاجیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔
”دیکھو بھئی کومیلا چلیں گے۔ بُہت خوبصورت جگہ ہے۔ دیکھو گی تو خوش ہوجاؤ گی۔ بُدھا کی بہت سے یادگار عمارات ہیں۔ بہت بڑا زراعتی فارم بھی ہے اور ہاں سنو کومیلا کی رَس ملائی بہت مشہور ہے۔ کھاؤ گی تو لُطف آجائے گا۔
اُس کا لہجہ بشاشت سے بھرپور تھا چہرے پر صُبح جیسی تازگی اور کِسی انجانی سی مسرت کی لَودہکتی تھی۔ باتیں کرنے کا انداز کچھ ایسا ہی تھا جیسے اپنے گھر میں کھانے کی میز پر بیٹھا ہو اور اُسے کسی پروگرام یا کہیں ٹرپ پر جانے کی تفصیلات سے آگاہ کر رہا ہو۔

اُس نے اپنی بے چینی اور اضطراب پر قابو پایا اور آہستگی سے بولی۔
”چٹاگانگ سے واپسی پر کومیلا میں سے گذرے تھے نا۔ اُس کی جھلک تو دیکھ لی ہے، بُدھا کی بہت سی یادگاریں میں نے خود تو نہیں دیکھیں پر میری بڑی ڈاکٹر بہن کالج کی طرف سے سوات گئی تھی اُس نے واپسی پر تفصیلاً ہمیں اُن کے بارے میں اِس طرح بتایا کہ ہم نے تصویروں اور اُن کے بیان سے اُن سبھوں کو دیکھ لیا تھا۔ اب مزید کیا دیکھنی ہیں۔ہاں زراعتی فارموں سے مجھے قطعی دلچسپی نہیں۔ رَس ملائی میں کھا بیٹھی ہوں۔آپ نے ہمارے لئے پورا دونا خریدا تو تھا۔“
اور یہ سب سُن کر اُس کا قہقہہ شام کی خاموشی کے سینے کو چیر گیا۔
” بہت تیز ہوگئی ہو۔“
وہ بھی ہنسی۔ یہ ہنسی اپنے اندر متانت لئے ہوئے تھی۔
بات اُس کے حسابوں آئی گئی ہوگئی۔ پر دو تین دن بعد جب اُس نے پھر وہی بات دُہرائی تو وہ بس کنگ سی ہوگئی۔ اُوپر کا سانس اُوپر تلے کا تلے۔ چپ چاپ بیٹھی سوچتی تھی کہ اِس کی سوئی تو وہیں اَٹکی ہوئی ہے۔ سانپ کے منہ میں چچھوندر والا معاملہ ہوگیا تھا جسے نہ اُگلے بنتی ہے اور نہ نگلے۔
”توگویا احسانات اور خلوص کا بدلہ اب یوں لینا چاہتا ہے۔“
اُس نے دُکھ سے سوچا۔
بات تو ساری یہ تھی کہ وہ اُسے شدت سے پسند کرنے لگی تھی۔ ہال سے یونیورسٹی جاتے ہوئے یونیورسٹی روڈ پر جو کہیں اُسے رائل بلیو ٹیوٹا نظر پڑ جاتی تو بس دل قابومیں ہی نہ رہتا۔ ہمہ وقت ذہن کے پردوں پر وہ تھرکتا رہتا۔ آنکھوں میں اُس کے عکس جھلملاتے رہتے۔ ہر مرد پر اُسی کا گمان گذرتا۔ دماغ خراب ہوگیا تھا۔ یوں اُسے خراب بھی ہوجانا چاہیے تھا کہ ہائی جنریٹری کا ایک بہت بڑا افسر جس کی شخصیت میں خاصا گلیمر تھا۔ جس کے نیچے قیمتی گاڑی تھی۔ جو صوبائی حکومت کی کلیدی آسامی پر بیٹھا تھا۔ اُسے بے طرح پسند کرنے لگا تھا۔پر اِس پسندیدگی میں کسی عامیانہ پن کا اظہار نہیں تھا۔ نہ ہی کوئی اوچھی اور بھونڈی حرکت تھی۔بلند بانگ قسم کے دعوے نہیں تھے۔ بس باتیں تھیں.۔ گپیں تھیں, لونگ ڈرائیو تھی۔
کتاب میں جو کچھ وہ اب تک پڑھتی آئی تھی اور لڑکیوں کے جو قصے کہانیاں اُس نے سُنے تھے وہ تقریباً سارے ہی غلط ہوگئے تھے۔ اُس کے رکھ رکھاؤ اور اعلیٰ اطوار بہت متاثر کن تھے۔
پر پھر بھی وہ اکثر وبیشتر پریشان ہی رہتی۔ عجیب وغریب سے وسوسے اور اندیشے اُسے ڈستے رہتے۔ کبھی کبھی نادانستہ طور پر اُن کا اظہاربھی ہو جاتا تھا۔ جن کا جواب دینے کی شاید وہ اب ضرورت نہیں سمجھتی تھی۔
تم نے جواب نہیں دیا۔
اُس نے کھڑکی کا شیشہ ایک ہاتھ سے اُوپر چڑھایا۔ ہوا میں خاصی خُنکی ہوگئی تھی۔ اُسے محسوس ہوا تھا کہ اُس کا جسم کانپ سا رہا ہے اور اُس نے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔
”کیا یہ اِس بات کا فوری اثر ہے؟ یا واقعی مجھے ٹھنڈ محسوس ہو رہی ہے۔“
وہ خاموش تھی۔ اُس نے کوئی بات نہیں کی۔ جب اُس کا اصرار بڑھا تب بھی اُس سے کچھ بولا نہیں گیا۔بس ٹپ سے دو آنسو اُس کے ہاتھو ں پر پڑے جنہیں وہ گود میں رکھے بیٹھی تھی۔ پتہ نہیں اُ س کی نظراُن آنسوؤں پر پڑی یا نہیں۔
وہ بڑے نرم اور ملائم سے لہجے میں اُس سے مخاطب تھا۔
”نجمی میرے پاس اب اِس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے جسے اپنا کر میں تم پر یہ ثابت کر سکوں کہ میں تمہارے کیسے قُرب اور کیسی رفاقت کامتمنّی ہوں۔ شک وشبہات کے جو رنگ مجھے اکثر وبیشتر تمہاری آنکھوں میں نظر آتے ہیں وہ مجھے بُہت پریشان کرتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں وہ یکسر ختم ہوں اور اُن کی جگہ یقین اور اعتماد کی چمک ہو۔“
”اتنی کڑی آزمائش میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ رہی بے یقینی اور عدم اعتماد کی بات۔ آپ مجھے بتائیے اگر ایسا ہوتا تو میں آپ کو یہاں بیٹھی نظر آتی۔“
وہ جب یہ باتیں کرتی تھی اُس کی خوبصورت پیشانی پر کمان جیسی بھنووں کے درمیانی جگہ پر پڑتی لکیر اُ س کے ذ ہنی انتشار کا پتہ دیتی تھیں۔
”جانتی ہو آزمائش انسان کوکُندن بنا دیتی ہے۔“
اور اُ س نے نچلے ہونٹ کو دانتوں سے کاٹتے ہوئے کہاتھا۔
”کُندن کیا کرنا ہے؟ انسان سونا ہی بنا رہے تو غنیمت ہے۔“
وہ زیر لب مسکرایا اور بولا۔
”بھی میں تو تمہیں اللہ میاں کی گائے سمجھتا تھا۔ پر تم تو باتیں کرنے میں بڑے بڑوں کے کان کاٹتی ہو۔“
باقی وقت دونوں کا خاموشی میں ہی کٹا اور جب وہ اُسے رقیہ ہال گیٹ کے سامنے ڈراپ کر رہا تھااُس نے کہا۔
”نجمی کل تیار رہنا۔ میں تقریباً تین چار کے درمیان تمہیں پِک کروں گا۔“
”مگر۔۔۔“
اُس کے ہونٹ کانپے اور ساتھ ہی پاؤں میں بھی لڑکھڑاہٹ ہوئی۔
”اگر مگر کا کوئی سوال نہیں۔ تمہاری ہاؤس ٹیوٹر سے رات باہر گزارنے کی اجازت میں خود لوں گا۔ اچھا کل تک کے لئے خدا حافظ۔“
اُ س نے تیزی سے گاڑی آگے بڑھائی اور زن سے سڑک پر نکل گیا۔ پل بھر رُکنے اور اُس کی کوئی بات سُننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔
وہ بڑی شکستہ سی ہو رہی تھی۔ ساری شگفتگی جیسے ماند سی پڑی ہوئی تھی۔ آڈیٹوریم تک پہنچتے پہنچتے اُسے یوں لگا جیسے وہ میلوں کی مسافت پا پیادہ طے کرتی آرہی ہو۔ بھُوکی پیاسی، اور اب اِس درجہ چُور چُور کہ بس دھڑام سے فرش بوس ہونے والی ہو۔
ڈائننگ ہال میں غُل غپاڑہ مچا ہوا تھا۔ اُ س نے خود کا جائزہ لیا اور محسوس کیا کہ اُسے یکسر بھوک نہیں ہے۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر اُ س نے بتی جلائی۔ تیزروشنی میں چند لمحوں کے لئے وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کسی متحرک خاموش تصویر کی مانند کھڑی رہی۔ خود کو بغور دیکھتی رہی۔ پھر اُس نے ہاتھ بڑھاکرسوئچ آف کر دیااور بستر پر گر گئی۔
”مجھے جانا چاہیے یا نہیں؟“
یہ سوا ل اُس نے بار بار خود سے کیا۔
تاڑ ناریل اور کیلوں کے جھُنڈوں سے گھرے سرکٹ ہاؤس کی خوابگاہ نے اُسے اِس درجہ خوفناک مناظر دکھائے کہ وہ بلبلا اُٹھی اور تڑپ کر اپنے آپ سے بولی۔
”میں جو کچھ بن بیٹھی ہوں ایسا بننا میں نے سدا چاہا تھا۔ کوئی کہے یہ خو دفریبی ہے یہ اپنے آپ سے، اپنے والدین سے، اُن کی عزت وحُرمت سے، کھُلا دھوکا ہے۔ درُست ہے۔ مجھے اعتراف ہے اُس کا۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن کیا کروں۔انسا ن اپنے آپ سے مجبور ہوتا ہے۔ میں بھی مجبور ہوں۔ اِن تشنہ سی چھوٹی چھوٹی آرزوؤں کے سامنے جو میرے سینے میں ہمہ وقت ہی بھانبڑ مچائے رکھتی تھیں۔لیکن اب یہ بھی میرے لئے ممکن نہیں کہ میں اُ ن کی اتنی بڑی قیمت دوں۔ میں یہ ہرگز نہیں چاہتی کہ سرکٹ ہاؤس کی تنہائیوں میں آگ اور تیل مل جائیں۔“
اور جیسے اندر سے کسی نے مدافعت کی۔ ایک آواز آئی تھی۔
”تم ایک عرصے سے اُس سے تنہائیوں میں ملتی رہی ہو۔اُ س نے اعتماد کو کہیں مجروح نہیں کیا۔“
”اور جانا چاہیے یا نہیں جانا چاہیے“ کے مسئلے پر ایسی خوفناک جنگ ہوئی کہ جب آڈیٹوریم کے کلاک نے دو بجائے۔ وہ خود سے لڑتے لڑتے نڈھا ل ہوچکی تھی۔ سر ٹیسوں سے پھٹا جا رہا تھا۔ آنکھیں یوں جل رہی تھیں جیسے کسی نے دو دہکتے ہوئے کوئلے اُن پر رکھ دئیے ہوں۔ وہ بے چین تھی۔ کسی پل قرار نہ تھا۔ یوں مضطرب تھی جیسے سارے جسم میں پار ہ بھر دیا گیا ہو۔ پتہ نہیں رات کے کس حصّے میں اُس کی آنکھ لگی۔ صُبح اُٹھ کر جب اُس نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھاتو دنگ رہ گئی۔ ایک رات کے کرب نے اُسے یوں نچوڑ دیا تھا جیسے پانی سے بھرا کپڑا فولادی ہاتھوں میں آکر نچڑ جاتا ہے۔
لیکن اتنا ضرورہوا تھا کہ اُس کا بے قرار ڈوبتا دل قدرے تسکین پا گیا تھا۔ وہ یونیورسٹی نہیں گئی۔ سوچا کہ گیار ہ بار ہ بجے تک جو چھوٹے موٹے کام کرنے والے ہیں اُنہیں نپٹالے۔ جب وہ آئے گا وہ سو رہی ہوگی۔ مینوسے کہہ دوں گی کہ وہ مجھے باہر سے آئے ہوئے کسی بھی پیغام پر نہ اُٹھائے۔
بار ہ بجے اُس نے غسل کیا۔ کھانا کھایا اور سوگئی۔
ڈھائی بجے کے قریب مُونا نے اُسے جھنجھوڑ کر اُٹھایا۔
”اللہ کیا بھنگ پی کر سوئی ہو جو اُٹھنے کا نام نہیں لے رہی ہو۔ باہر سے تمہار ے وزیٹر کی چٹوں پر چٹیں آر ہی ہیں۔ مینو غریب کی تو سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے ٹانگیں بھی ٹوٹ گئی ہوں گی۔ لفٹ خراب ہے۔ اُس کا تو حشر ہوگیا ہے۔
مانو اُس کا کلیجہ اُچھل کر جیسے حلق میں آگیا تھا۔ تیر کی طرح بستر سے اُٹھی اور لپک کر باہر آئی۔ مینوکھڑا تھا۔ اُس نے اُس کی معصوم سی صورت پر غصّے بھری نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”حد کرتے ہو مینو۔ میں نے تمہیں کیا کہا تھا؟“
”ارے آپا میں نے بہتیرا کہا کہ وہ ہال میں نہیں ہیں۔ اپنی بندھو لوگ کے ساتھ باہر گئی ہیں۔ پر صاحب مانے نہیں۔ بس یہی کہتے رہے۔
اپنے کمرے میں ہوگی۔جاؤ جا کر پیغام دو۔ اب بتائیے آپا میں کیا کرتا؟“
وہ کھڑی کچھ دیر سوچتی رہی۔ پھر اِسی طرح نیچے چل دی۔
یہ وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ وہ فیصلہ جسے کرنے کے لئے اُس نے ساری رات ایک طرح کانٹوں کی سیج پر گذاری تھی۔ اپنے آپ سے لڑتے لڑتے لہولہان ہوگئی تھی۔ اُس پر نظر پڑتے ہی وہ اِس قدربودا ثابت ہوگاکہ پل نہیں لگے گا اور تڑاق سے ٹوٹ کر وہ گرے گا۔
اُ س کی آنکھوں میں موتیوں کی مانند آنسو پلکوں پر آکر ٹھہر گئے تھے۔ آواز بھرّا گئی تھی۔ جب اُس نے کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر کہا تھا۔
”مجھے نہیں جانا۔“
اُ س کی پلکوں پر چمکتے موتیوں کو دیکھ کر وہ بے کل سا ہوا۔ جی چاہا اُس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھام لے اور اِن موتیوں کو نیچے گرنے کی بجائے اپنے دل میں کہیں محفوظ کر لے۔
اُس کی رونکھّی آواز اُسے خواہش کی دُنیا سے عملی دُنیا میں واپس لے آئی۔ وہ کھِلکھلا کر ہنس پڑا۔
”رات بھر ہلکا ن ہوتی رہی ہو۔ بے وقوف لڑکی۔ چلوبیٹھو۔ یہ سوچنا میرا کام ہے کہ تمہیں جانا ہے یانہیں۔“
وہ گُم سُم کھڑی ٹکر ٹکراُسے دیکھتی رہی۔
پل بھر کے لئے اُس کا جی چاہا وہ بھاگ جائے۔ پر وہ بھاگ بھی نہیں سکتی تھی۔
”سُنا نہیں میں نے کیا کہا ہے؟ آؤ بیٹھو۔“
اُس کی آواز میں محبت اور شفقت کی مہک تھی۔
ڈھاکہ بُہت پیچھے رہ گیا تھا۔ شام کی ٹھنڈی لطیف ہوائیں پوکھروں میں کھِلے کنولوں پر سے تیرتی ہوئی اندر آرہی تھیں۔ وہ خاموش تھا اور اب وہ چاہ رہی تھی کہ وہ اُس سے کوئی بات کرے۔ اُس سے پُوچھے کہ اُسے کن کن اندیشوں اوروسوسوں نے گھیرے رکھا؟ اپنے عہد کو دہرائے۔ یقین دہانی کروائے۔
راستے کی پہلے فیر ی آئی۔ اُسے یاد آیا جب وہ لوگ چٹاگانگ جا رہے تھے۔ اچانک سڑک کٹ گئی۔ درمیان میں ایک چھوٹی سی ندی حائل ہوگئی۔ اُس نے حیرت سے اُسے یوں دیکھا تھاجیسے پُوچھ رہی ہو۔ اب کیا ہوگا؟
اُن سب کے لئے تو فیریاں نئی نہ تھیں۔ اُن کے ماحول کا حصّہ تھیں۔ جانی پہچانی چیزیں تھیں۔ لہٰذا وہ سب اُ س کی حیرت پر ہنسے تھے۔ اُس نے جب اِن سب کو اُتارا۔ گاڑی کو روک لیا۔ اور اُ س کے قریب آکر بولا۔
”تیرنا آتا ہے کیا؟“
اُس نے بے ساختگی سے کہا تھا۔
”میں تو میدانوں کی پیداوار ہوں۔“
”بس پھر تمہارا تو اللہ بیلی۔ ڈوب گئیں تو میں ہرگز نہیں نکالوں گا۔“

”اچھا میں اتنی گری پڑی ہوں کہ آپ مجھے اِن پانیوں کے حوالے کر دیں گے؟“
اُس نے تڑاخ سے یہ کہا تھا۔
”پر اب؟“ وہ کھُلی فضا میں لمبا سانس لیتے ہوئے اپنے آپ سے بولی تھی۔
”زندگی سے بیزار ہوگئی ہوں میں تو۔“
وہ دھیمے سے مُسکرایا تھا۔
اُس کی مُسکراہٹ دیکھ کر اُس نے سوچا۔
”کیا اُس نے میرے دل کی بات پڑھ لی ہے؟“
اُ س وقت بھی وہ گھڑر گھڑر کرتی فیری پر کھڑے تھے۔ وہ دُور اُفق پر دیکھ رہی تھی۔ دُھوپ میں خوشگوار سی حدّت تھی۔ نیلا شفّاف آسمان آنکھوں کو بھلا لگتا تھا۔ اردگرد کے نظارے دلفریب تھے۔
شام ڈھل گئی تھی۔ بازاروں میں روشنی ہوچکی تھی۔ جب وہ کومیلا پہنچے۔ تنگ سا بازار چھوٹی چھوٹی ٹین کی چھتوں والی دُ کانیں جن میں دھو تیاں پہنے سُوکھے مریل سے دُکاندار گاہکوں کو نپٹانے میں مصروف تھے۔ مٹھائی کی ایک دُکان کے سامنے اُس نے کار روکی اور بنگلہ میں کچھ کہا۔دکاندا رنے دونا اُسے پکڑا دیا۔
شہر پرانا تھا۔ چھوٹے چھوٹے مکان، کہیں کہیں پختہ راجباڑیاں بھی سر اُٹھائے کھڑی تھیں۔ شہر کے بیرونی حصّے میں نئے طرز کی کوٹھیاں تھیں جو یقیناًاعلیٰ عہدیداران کی تھیں۔ سرکٹ ہاؤس میں روشنیاں گُل تھیں اور عمارت میں اُلوّ بولتے نظر آتے تھے۔ وہ اُسے کار میں ہی بٹھا کر خود چوکیدار کو دیکھنے اندر گیا۔ دیر بعد آیا اور اُسے اندر لے گیا۔ڈائننگ ہال میں اُنہوں نے رات کا کھانا کھایا۔ وہیں چائے پی اور رَس ملائی بھی کھائی جس کی وہ بے حد تعریف کرتا تھا۔ اُس نے بڑے سکون اور فارغ البالی سے سبھی چیزوں پر ہاتھ صاف کئے۔ پر وہ ڈھنگ سے کچھ بھی نہ کھا سکی۔ آنے والے لمحوں کے تصوّر نے بھُوک پیاس اُڑا دی تھی جو تھوڑا بُہت کھایا وہ بھی اُس کے پیہم اصرار پر۔
اور جب دس بجے وہ اُس کے ہمراہ بیڈروم میں داخل ہوئی۔ قدم من من بھر کے ہو رہے تھے جنہیں وہ بمشکل زمین سے گھسیٹ رہی تھی جوہر آن اُسے یہ احساس دلا رہے تھے۔ جیسے وہ موت کے کنوئیں میں گرنے جا رہی ہو۔ کسی صلیب پر چڑھنے والی ہو۔پھانسی کا پھندا گلے میں ڈالنے والی ہو۔کمرے میں صاف ستھرے بستر جن پر مچھر دانیا ں لگی ہوئی تھیں۔ اُن کے منتظر تھے۔
تب اُس نے اُسے شانوں سے پکڑا اور بیڈ پر بٹھاتے ہوئے بولا۔
”یہ ساتھ ہی باتھ روم ہے۔ شب میں اگر استعمال کی ضرورت پڑی تو بلا خوف وخطراستعمال کرنا۔ میں تمہیں یقین سے کہتا ہوں کہ اگر ساری رات تم میرے سینے سے لپٹ کر سوتی رہو تو بھی تم صُبح ایسے ہی اُٹھو گی جیسی رات سوئی تھیں۔خود پر یقیناً اتنا اختیار مجھے حاصل ہے۔ چلو اب آرام سے لیٹ جاؤ۔ میں مچھر دانی ٹھیک کر دوں۔ یہاں مچھروں کی اتنی بہتات ہے کہ اگر ایک مچھر بھی اندر گھُس آیا تو ساری رات آنکھوں میں کٹ جائے گی۔
وہ کروٹ بدلے اپنی دل کی دھڑکنوں پر قابو پانے میں لگی ہوئی تھی۔ کان ذرا سی آہٹ پر چونک چونک پڑتے تھے۔ خوابگاہ میں نیلا رنگ پھیلا ہوا تھا۔ وہ بھی شایداپنے بستر پر لیٹ چکا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد اُس کے ہلکے ہلکے خراٹوں کی آواز سے وہ سمجھ گئی کہ وہ سو چکا ہے۔ اُس کی ساری رات ہی البتہ کچھ سوتے اور کچھ جاگتے گزری۔ صُبح کے قریب نیند کی جھونک گہری تھی جس نے اُسے دن چڑھے تک سلائے رکھا۔ جب جاگی تو دُھوپ کھڑکیوں کے راستے اندر آرہی تھی۔ سارے بستر میں سُورج کی کرنیں مچھر دانی کے مُنے مُنے سوراخوں میں سے گذر کر عجیب سے ڈیزائن بنا رہی تھیں۔ مُسرت وانبساط کی لہریں اُ س کے رَگ رَگ میں دوڑیں، مسہری سے باہر نکلی، دوسرا بیڈ خالی تھا۔ کھڑکی سے باہر لان میں اُگے درختوں پر اور گھاس کے چھوٹے چھوٹے قطعوں پر پھیلی روشنی اُسے بتا رہی تھی کہ دن کافی چڑھ آیا ہے۔ اُس نے گھڑی دیکھی نو بج رہے تھے۔
جلد ی سے باتھ روم میں گھُسی۔ کپڑے شکن آلود تھے۔ اُس نے منہ دھویا۔ کپڑوں پر گیلے پانی سے تَر ہاتھ پھیرا کہ اُن کی شکنوں میں کچھ کمی آئے۔ کنگھی کی اور باہر آئی۔ وہ برآمدے میں بیٹھا۔ ”مارننگ نیوز“ پڑھ رہا تھا۔و ہ اُس کے قریب پڑی خالی کُرسی پر جا کر بیٹھ گئی۔ اخبار پڑھتے پڑھتے ایک اُچٹتی سی نظر اُس نے اُس پر ڈالی۔ اُس کے چہرے پر بشاشت اور تازگی تھی۔
طلسماتی حُسن وجمال سے بھرے پرے اِس ماحول میں ایزی چیئر پر بیٹھے اُس وجیہہ مرد کے سیاہ سلیپروں سے باہر نکلے ہوئے صحت مند پاؤں گھٹنے پر پھیلے اخبار اور اُس پر جھُکے گھنے سیاہ بالوں سے پُرسر کو دیکھ کر اُسے وہ خواب یاد آئے تھے۔ جو جوان ہونے کے بعد ہر لڑکی کی آنکھوں میں اپنے خیالوں کے مطابق در کرتے ہیں۔
نوکر نے چائے کی ٹرالی قریب لا کر کھڑی کی۔ ٹی کوزی سے ڈھنپی چائے دانی جس کے اندر خوشبو کو اپنے آپ میں سمیٹے قہوہ دم تھا۔ اُس نے ڈھکن اُٹھایا اور چائے کی مدہوش کن خوشبو اُس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔ اُ س نے نہیں پُوچھا تھا کہ وہ کتنی چینی اور کتنا دودھ پیتا ہے۔ کیونکہ اب وہ اُس کے متعلق بہت کچھ جانتی تھی۔ چائے بنانے کے طور طریقوں سے واقف ہوگئی تھی۔ ذہین تھی ہربات کو فوراً دیکھ کر مہارت سے اُسے کرنے کی کوشش کر تی تھی۔
جب واپسی کے لئے روانہ ہوئے اُ س وقت ساڑھے دس بج رہے تھے۔ شہر کے بیچوں بیچ گزرتے ہوئے اُ س نے کومیلا کے بارے میں مختصراً اُسے بتایا۔ پھر وِلج ایڈاکیڈمی کے سامنے آکر رُک گیا۔
دربان سے اُ س نے بنگلہ میں کچھ پوُچھا تھا۔ اُ س کے نفی میں جواب دینے پر اُس نے گاڑی کو سٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔
”مجھے افسوس ہے میں تمہیں اِس عظیم شخصیت سے نہ ملوا سکا جو اِس اکیڈمی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ دفعتاً اُس نے پوچھا۔
”تم نے علامہ مشرقی کے بارے میں کچھ پڑھا سنا ہے۔“
”خاکسار تحریک والے۔“ وہ جواباً بولی۔
”بالکل وہی، اختر حمید علامہ مشرقی کے داماد ہیں۔ بنگال کی سرزمین سے اُنہیں بُہت پیار ہے۔ یہیں ڈیرے ڈنڈے ڈال لئے ہیں۔ ایسا درویش اور دلرُبا بندہ بیوروکریٹ ہو کر بھی بوریا نشین، کیمرج کا تعلیم یافتہ۔ برطانوی دور میں جب آئی۔ سی۔ایس ہوا تو بنگال میں تعینات ہوا۔ یہ پہلا بڑا افسر تھا جس نے ایک عام دیہاتی آدمی کی مشکلات کو سمجھا۔ اُ س نے اپنے آپ کو موبائل عدالت کی شکل دے کر مقدمات کا فیصلہ خود دیہاتوں میں جاکرکرنے کا تجربہ شروع کیا۔ جو نہایت کامیاب رہا۔ پھر اُس نے شاندار ملازمت سے استعفیٰ دے کر معمولی سی دوکان کھول لی۔ میرے بڑے بھائی نے اُن سے ایسا کرنے کی وجہ پُوچھی تو ہنستے ہوئے کہنے لگے۔

”یا رمیں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ایک غریب اور مزدور آدمی کیسے زندگی گزارتا ہے؟“
نجمی اگر تم اُنہیں دیکھتیں تو حیرت زدہ رہ جاتیں۔ اُ ن کا لباس کومیلا کی کھڈی کے تیار کردہ کپڑے سے بنا ہوتا ہے۔ اکیڈمی میں آنے والے زیر تربیت افسروں کو وہ بانسوں سے تیار کردہ جھونپڑیوں میں رکھتا ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہتا ہے۔
”میں چاہتا ہوں جب یہ واپس جائیں تو اُن کی اَنا ختم ہو چکی ہو اور وہ پورے طور پر ڈی کلاس ہو چکے ہوں۔“
مجھے افسوس ہے تم اِس نابغۂ روزگار شخصیت سے نہ مل سکیں۔
اُس نے پُوچھا تھا۔
”کیا مُلک سے باہر ہیں؟“
”نہیں۔ بس آج صُبح میمن سنگھ گئے ہیں۔ معلوم ہوتا تو رات کو آجاتے۔“
واپسی کا یہ سفر بُہت خوشگوار تھا۔ وہ خوب باتیں کررہی تھی۔ اُس کی آواز میں اعتما د اور سرشاری کی کیفیت تھی۔ دفعتاً اُس نے کہا۔
”ایک بات بتائیں گے آپ مجھے؟“
”پوچھو۔“

”یہ جو کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ لوگ کہتے ہیں۔ آگ اور تیل کے مفروضے بیان کرتے ہیں۔فرائڈ کو کوڈ کرتے ہیں۔ یہ سب غلط ہیں کیا؟“
اور اُس نے غایت سکون سے کار چلاتے ہوئے کہا تھا۔
”نہیں اُنہیں غلط تو نہیں کہا جاسکتا۔ اصل میں نفس پر ضبط کی ضرورت ہے جو قابو پالے۔“

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply