روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

​رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلـف سے
تکلف بر طرف، تھا ایک انداز ِ جنوں وہ بھی
————
ستیہ پال آنند
بناوٹ پر تھی مبنی آپ کی آزردگی ، غالبؔ؟
جنوں کیا اس بناوٹ کی تھی واضح آشکارائی؟
یہ سب تھا گویا داؤ گھات، اک ترکیب، اک کرتب؟
مگر، اے پیش بیں غالب، مجھے اتنا تو سمجھائیں
کہ کیا یہ بات بھی شائستگی سے، وضع داری سے
قبول ِ جرم کی منصوبہ بندی کا وظیفہ ہے؟
تکلف بر طرف کیجیے، ذرا سمجھائیے مجھ کو

مرزا غالب
مری مانو ، اگر تم ستیہ پال آنند ، تو دیکھو
ذرا کچھ دیر کو تم اپنا جبڑا باندھ کر رکھو
تومیں کوشش کروں گا اور پھر شاید
تمہارے واسطے یہ حوصلہ فرسا نہیں ہو گا

ستیہ پال آنند
مجھے یوں ڈانٹ کر کہنا کہ جبڑا باندھ کر رکھوں
رُکھائی، خود سری بے جوڑ رشتے کی نشانی ہے
تو کیا یہ بھی دکھاوا ہےزباں کی کج ادائی کا؟
غصیلا، ترش رو ہونا تو کج اخلاق ہونا ہے

مرزا غالب
چلو اچھا ہوا تم بھی تو سمجھے اس دکھ اوے کو
یہی تھا مدعا میرا کہ تم سمجھو یہ چالاکی
اگر ہم کچھ دنوں کے واسطے ہی سخت ہو جائیں
ہٹیلا پن ہمیں معشوق سے بیزار کر دے گا
جہاں وسعت پذیری تھی وہاں تخفیف آئے گی
تکلف کیا ہے؟ چندے صامت و ساکت خموشی سی
تکلف کیا ہے ؟ تھوڑی حد ِ ٖفاصل رکھ کے مل لینا ـ
ذرا سا فاصلہ رکھنا ، ذرا سا دور ہی رہنا
کبھی چُھونا نہیں،بس آپ اپنی حد میں ہی رہنا

ستیہ پال آنند
تو گویا عشق بھی ایک رزم گاہ ہے جس میں عاشق کی
دکھاوے کی یہ ناراضی بھی اک ہتھیار کاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

مرزا غالب
تو پھر یہ سارے حربے آزما کر آج ہی دیکھو
مگر قدرے تکلف، برددباری رنگ لائے گی
اگر تم کچھ ذرا سی بے کلی برداشت کر لو، تو
یقینا ً اس کو بھی قائم مزاجی کا یقیں ہو گا
یہ حکمت بھی ہے، استادی بھی ، داؤ گھات بھی، لیکن
تکلف کے لیے یہ پیش بینی بھی ضروری ہے!

Facebook Comments