اُس وقت جب تیزی سے مغرب کو جاتے ہوئے سورج کی سنہری کرنیں کنٹین کی دیواروں کے لمبے لمبے شیشوں کے دریچوں سے چھن چھن کر اندر قطار در قطار رکھے فارمیکا کی چکنی شفاف میزوں کی سطح پر بکھرتے← مزید پڑھیے
سویٹزر لینڈ زیوریخ ۔ زرمٹ سوئٹزرلینڈ کوالٹی آف لائف کے حساب سے دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے، اس بات کا اندازہ تو کل آتے ہی ہوگیا تھا، جب نکھرے سنورے لوگ مائنس دو سنٹی گریڈ میں بھی ہنستے← مزید پڑھیے
شہریار یوسفِ ثانی تھا، مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا، یونانی ایراس دیوتا، محبت کا دیوتا، اپنے کنٹری سائیڈ ہیملٹ کی تمام حسیناؤں کی دھڑکن روک دینے پر قادر، قادر الکلامی پر سند، حسن کو چانچنے، پرکھنے، پا لینے اور سنبھالنے← مزید پڑھیے
بہ نیم غمزہ ادا کر حق ِ ودیعت ِ ناز نیام ِ پردہ ء زخم ِ جگر سے خنجر کھینچ ۔۔۔ ستیہ پال آنند جگر میں زخم ہے اور اس پہ ایک پردہ ہے نیام ِ پردہ میں خنجر ہے← مزید پڑھیے
اٹھائی تھی آواز مگر دبا دی گئی اس قوم کی بیٹی زندہ دفنا دی گئی انصاف کے ترازو سے ہٹا کر ہمیں نہ جانے کس غلطی کی ہے سزا دی گئی دکھ درد، مصیبت و تکلیف کیا ہمارے ہیں سبھی← مزید پڑھیے
کردار ایک : حسن تابندہ ہےروشن ہے ، ستارہ ہے کہ جو خود بھی روشن ہے ، جہاں کو بھی خیرہ کرتا ہے حسن سادہ ہو کہ ہو وضع میں تزئین آرا حسن تو حسن ہے، اس کا کوئی ثانی← مزید پڑھیے
وادئِ نگر کا رحیم بخش پچاسی برس کی عمر میں اپنے خوبانی کے باغ میں اپنے سب سے چھوٹے بیٹے رحمت اور وادی کے چند لوگوں کے ساتھ بیٹھا گفتگو میں مصروف تھا۔ رحیم بخش عمر میں بوڑھا لیکن ہمت← مزید پڑھیے
صدیوں سے بل کھاتی، سر پٹکتی شور برپا کرتی، موجوں نے بے شمار سر اٹھاے ٹیلوں کو مسمار کرتے اپنی آوارہ دھن میں بہتے ہوئے نامعلوم کی طرف سفر جاری رکھا، موجوں کے اس ہجوم سے اک قطرے اپنی الگ← مزید پڑھیے
اسدؔ کو بت پرستی سے غرض درد آشنائی ہے نہاں ہیں نالۂ ناقوس میں، در پردہ ’یا رب‘ ہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “قوافی ’رّب‘ و ’تب‘، ’مطلب‘، ردیف اک صوت، یعنی “ہا‘ ؑعجب حلیہ ہے اس حلقوم مقطع کا کہ ’یا رب‘← مزید پڑھیے
تم نے خدائے لم یزل کی نافرمانی کی ہے۔ جاؤ اپنی زمین پر پلٹ جاؤ۔۔ اے ننھے فرشتوں خدا نے تمہیں سیارہ زمین کی جانب بھیجا تھا۔۔۔ اور تم چند ساعت میں ہی وہاں سے فرار ہو کر اس نئی← مزید پڑھیے
کہنے لگی کورونا سے پہلے بھی میری محبت ہجر کے رنگوں سے رنگی ہوئی تھی۔۔۔ ہجر کے بھی رنگ ہوتے ہیں بھلا۔۔۔۔میں اس کے ماتھے کو چومتی ہوئی لٹ کو دیکھتے ہوئے بولا ہوتے ہیں۔وہ اپنا ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے← مزید پڑھیے
نورِ چشم وصی بختیاری سلمہ! خدا سلامت رکھے، بلاؤں سے محفوظ رکھے۔ جونوشتہ جاں تم نے نوشتہ دیوار کر دیے، ان پر احباب کے تبصرے پڑھ کر آنکھ بھر آئی۔ کچھ یوں کہ اس دہرِ ناسپاس اور کوچہ کم نگراں← مزید پڑھیے
A ROGUE POEM گذشتہ صدی کے سن ستّر کی دہائی میں دو برسوں کے لیے میں برطانیہ میں مقیم تھا، اس وقت لنڈن کی گلی کوچوں میں بولی جانے والی زبانCockney Rogue Poemکا دور دورہ تھا. اس دوران میں کے← مزید پڑھیے
پانچواں مشیر (ابلیس کو مخاطب کرکے) اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم استوار تو نے جب چاہا کیا ہر پردگی کو آشکار آب و گل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز ابلہِ جنت تری تعلیم سے دانائے کار← مزید پڑھیے
الناس علیٰ دین ملوکبم (رعایا بادشاہوں کے دکھائے ہوئے راستے پر چلتی ہے ) (ایک فینٹسی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موسلا دھار ہے برفاب کی بوچھاڑ، مگر گرتے پڑتے ہوئے سب لوگ کہا ں جاتے ہیں؟ گرتے ہیں، اٹھتے ہیں، پھر گرتے ہیں← مزید پڑھیے
آخری ملاقات آخری ملاقات کے بعد میں نے سماج سے کشید کردہ خواہشات کی الکوحل کے دور کا آخری جام پیا ‘ اور محبت کے تاکستانوں سے زندگی کی منڈی میں منتقل ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخری ملاقات پر میں نے آخری← مزید پڑھیے
نظم کا تعارف: یہ شہرہ آفاق نظم اقبال کی آخری کتاب ”ارمغان حجاز ” کے حصہ اردو کی پہلی نظم ہے۔ بقول پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب، یہ نظم علامہ مرحوم کے تیس سالہ پیغام کا لبِ لباب ہے، کہ← مزید پڑھیے
مبر گمان تو ا ورد یقیں شناس کہ دزد متاع من ز نہاں خانہٗ ازل بر دست (غالبؔ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون و فساد و بودنی نابودنی ہے تو وہ شاعر یقیناً ساری اصناف ِ سخن املاک میں شامل ہیں اس کی← مزید پڑھیے
یہ پابندیوں اور روک ٹوک سے آزاد ایک خودمختار سی زندگی تھی جو ماضی میں بہرحال اُسے حاصل نہ تھی۔ وہ خواہشیں اور آرزوئیں جو ہمیشہ سینے میں مچلتی رہتی تھیں۔ اُنہیں وہ اِس اجنبی سرزمین پر بُہت شان سے← مزید پڑھیے
(خواب میں خلق ہوئی ایک نظم) اپنے اندر اس طرح داخل ہوا وہ جیسے رستہ جانتا ہو جیسے اس بھورے خلا کی ساری پرتوں کو کئی صدیوں سے وہ پہچانتا ہو اپنے اندر دور تک جانے کی کیا جلدی ہے← مزید پڑھیے