یورپ جہاں زندگی آزاد ہے۔۔۔۔۔۔میاں ضیا الحق/قسط10

سویٹزر لینڈ
زیوریخ ۔ زرمٹ

سوئٹزرلینڈ کوالٹی آف لائف کے حساب سے دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے، اس بات کا اندازہ تو کل آتے ہی ہوگیا تھا، جب نکھرے سنورے لوگ مائنس دو سنٹی گریڈ میں بھی ہنستے مسکراتے گھوم پھر رہے تھے۔ بندے کے پاس پیسہ کھلا ہو تو کس کا دل چاہتا ہے غم کرنے کو۔ معاشی خوشحالی کا یہ عالم ہے کہ کم سے کم کمانے والا بھی سالانہ 80 ہزار سوس فرینک جن کے ہمارے ایک کروڑ بتیس لاکھ روپے بنتے ہیں ،کما لیتا ہے۔

رات گئے تک گھومنے کی وجہ سے صبح آنکھ بھی لیٹ کھلی تو آٹھ بج رہے تھے۔ یہ ہوٹل ریسٹورنٹ کے بغیر تھا، اس لئے قریبی سنٹرل ٹرین سٹیشن سے کراسنٹ ساسیجز کافی اور ابلے انڈے خریدے اور وہیں بنچ پر بیٹھ کر ناشتہ شروع کیا تو ایک لڑکی پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ زبان معلوم نہیں کونسی بول رہی تھی لیکن لگتا تھا ہوم لیس ہے۔ ایک لفظ جو سمجھ آیا وہ انڈیا تھا۔ خود کو انڈین سمجھا کر شاید ہمدردی لینا چاہ رہی تھی جبکہ شکل و صورت سے یورپی ہی لگی۔ اس کو کیا معلوم کہ ہم فرانس سوئٹزر لینڈ جیسے پڑوسی نہیں ہیں۔


ساتھ بٹھا کر اس کے لئے بھی ناشتہ لایا تو خوش ہوگئی۔ اس کے چند اشاروں اور انگلش کے الفاظ سے معلوم ہوا کہ رومانیہ کی ہے اور ادھر ہی گھوم پھر کر گزارا کر رہی ہے۔ گرم کافی پی کر میری اور اس کی آنکھیں بھی کھل چکی تھیں۔ کافی دیر اپنی سٹوری سناتی رہی اور میاں سنتا رہا کہ کتنے مشکل حالات سے دوچار ہے۔
مجھے ذاتی طور پر ہوم لیس افراد سے انسیت ہے اور ان کے ساتھ بیٹھنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ روم اور پیرس میں بھی چند افراد کے ساتھ بات چیت کرچکا تھا اس لئے مطمئن ہوکر یہاں بھی اکٹھے ناشتہ کیا اور پھر اس سے اجازت لی کہ کچھ گھنٹے بعد زرمٹ جانا ہے۔

زیوریخ سے روانگی:
ہوٹل سے جلدی چیک آؤٹ کرکے اپنا بڑا بیگ ہوٹل ریسیپشن پر ہی دے دیا کہ روم خالی کردیا ہے اور یہ میرا بیگ اپنے پاس امانت رکھو زرمٹ سے واپسی پر لے لوں گا کہ وینس جانا تو ادھر سے ہی ہے۔ زرمٹ پہاڑی چوٹی پر آباد علاقہ ہے اور سامان لے کر جانا عقل مندی نہیں۔ صرف دو سوٹ شولڈر بیگ میں ڈال کر میاں روانگی کے لئے تیار تھا۔

واپس ٹرین سٹیشن پر پہنچا تو لاتعداد ٹرینیں کھڑی تھیں۔ یورپ میں سفر کرنے کا سب سے آسان طریقہ گوگل میپ ہے جو لائیو بتاتا رہتا ہے کونسی ٹرین کہاں جائے گی۔ معلوم ہوا کہ اس روٹ پر ہر ایک گھنٹے بعد ٹرین نکل رہی ہے اور سویٹزر لینڈ کے دارلحکومت برن سے ہوتی ہوئی چار گھنٹے میں زرمٹ پہنچے گی۔ 3 دن والے سوس پاس(Swiss Pass) کی بدولت یہ سہولت تھی کہ کسی بھی ٹرین میں سوار ہو جاؤ۔
ٹرین ساڑھے دس بجے زیویخ ایچ بی سٹیشن چھوڑ گئی۔

اب کی بار جو ہم سفر ملا وہ سوس آرمی کا فوجی بندہ تھا۔ اٹالین اور فرنچ لوگوں کی نسبت سوس لوگ بہت اچھی انگلش بولتے ہیں۔ پوچھنے لگا میاں کدھر گھوم پھر رہے ہو۔ بتایا کہ تقریباً اسلامی اور تقریبا جمہوریہ پاکستان سے ہوں اور جب سے تندی باد مخالف سے گھبرانا چھوڑا ہے سفر اور مزے میں ہوں۔

کہنے لگا میں پاک انڈیا بارڈر کی پاکستانی سائیڈ پر ایک سال بطور یو این مبصر گزار چکا ہوں اور اب فلسطین اسرائیل بارڈر پر امدادی کام کررہا ہوں۔

کہنے لگا کشمیر صرف سیاست کی نذر کیا جارہا ہے ورنہ اس کا حل کیا مشکل ہے۔ ہمارے ہاں یورپ میں اس طرح کے ہزاروں سیٹلمنٹ ہوئے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ۔

مشرق و مغرب کی باتیں کرتے کب اس کا سٹاپ Thun آگیا معلوم نہیں ہوا۔

اس ٹرین نے زیوریخ سے برن (Bern) کا راستہ تقریباً ایک گھنٹے میں طے کیا ،جو کہ قدرے میدانی ہے۔ پھر Thun اور Spiez سے ہوتی ہوئی Visp کی طرف روانہ ہوئی ۔
(اس تمام سفر کا ویڈیو بلاگ اس یو ٹیوب ویڈیو میں موجود ہے)
https://youtu.be/1iIr6t6_kTY
شہر Thun اور Spiez دونوں Thun جھیل کے کنارے آباد ہیں۔ اس فریش واٹر جھیل کا رقبہ تقریباً  پچاس کلومیٹر ہے۔ سوئیٹزرلینڈ میں چھوٹی بڑی تقریباً  7000 جھیلیں ہیں۔ سب سے بڑی جنیوا جھیل 580 کلومیٹر ہے۔ کئی جھیلیں اتنی بڑی ہیں کہ جرمنی فرانس اور اٹلی کے اندر جا پہنچی ہیں۔

شہر Spiez سے ٹرین ایلپس کے برفانی پہاڑی سلسلے میں داخل ہوئی تو زندگی میں پہلی دفعہ برف دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ پہاڑوں پر پڑی برف دیکھنے کا شوق پورا ہونا اور وہ بھی سویٹزر لینڈ میں ناقابل یقین لمحہ تھا جس کا صرف اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ ایسے ہی تاثرات تھے جو پہلی دفعہ کراچی میں سمندر کو دیکھ کر آئے تھے کہ اتنا زیادہ پانی کہ دوسرا کنارہ ہی نہیں ہے۔ ٹرین اب پہاڑیوں پر چڑھ چکی تھی اور ان کے اردگرد گھومتی شہر وسپ (Visp) کی طرف رواں دواں تھی جو برف پوش پہاڑوں کے درمیان آباد شہر ہے۔

مری اور کوہالہ پل تک سفر میں یہ دیکھا تھا کہ جو لوگ پہاڑوں کے اوپر رہتے ہیں ان کے گھر ایک دوسرے سے دور دور اور پہاڑ کے ہر طرف موجود ہیں اور شاید اسی وجہ سے قدرتی ماحول کو نقصان بھی پہنچ رہا ہے۔ سوئیٹزر لینڈ میں انہوں نے پہاڑوں کے درمیان وادیوں میں کئی چھوٹے چھوٹے شہر بنا دیئے ہیں۔ کوئی شہر 6، 7 ہزار سے زیادہ آبادی والا نہیں ہے۔ یہ ایپلس پہاڑیوں کے مقامی باشندے ہیں جو ہزاروں سال سے انہی برفانی علاقوں میں آباد ہیں۔ اس طرح ان کی کمیونٹی لائف بہتر ہوگئی اور سب سہولیات بھی ایک ہی جگہ میسر ہوگئیں۔ ہسپتال، سکول کالج، ورکشاپس، سپر مارکیٹس، سرکاری دفاتر ہر چیز ان کو اسی جگہ دستیاب ہے۔پہاڑوں پر دور دراز بھی کچھ گھر نظر آئے لیکن شاید پرانی تعمیر ہے۔

یہ جنوری کے ابتدائی ایام تھے اور ٹرین کی سکرین باہر کا درجہ حرارت مائنس پانچ دکھا رہی تھی۔ جنوری کی جمادینے والی سردی میں پائین کے درختوں کا سبزہ غائب ہوچکا تھا۔ ٹرین کے ایک طرف پہاڑ اور دوسری جانب وادی جس کے وسط میں دریا کم پانی میں ہلکے شور سے بہہ رہا تھا۔ شاید گرمیوں میں اپنی پوری آب و تاب دکھائے گا۔

ایلپس کا پہاڑی سلسلہ سرنگوں اور پلوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان سرنگوں کی تعداد 1329 ہے اور مزید پر کام جاری ہے۔ ان کی وجہ سے سخت برفباری کے موسم میں بھی روڑ اور ٹرین ٹریفک نہیں رکتی۔ جہاں جہاں راستہ بند ہونے کا چانس نظر آیا انہوں نے وہاں سرنگیں بنا دی ہیں یا پل تاکہ باہر راستہ بند ہے تو ادھر سے چلے جاؤ۔

سوئٹزر لینڈ تقریباً 70 فیصد ایسے ہی پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے اور شاید اسی وجہ سے بیرونی حملہ آوروں سے بھی بچا ہوا ہے۔ اس دفاع کو مزید مضبوط کرنے کے لئے دوسری جنگ عظیم سے لے کر اب تک تقریبا ً3000 پلوں اور لوکیشنز کو ڈائنامائٹ سے باندھا گیا ہے تاکہ ٹینک اور دیگر فوجی گاڑیاں ملک میں داخل نہ  ہوسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نیوکلیئر حملہ سے بچنے کے لئے ان کے پاس 3 لاکھ بنکرز ہر وقت تیار ہیں جہاں سویٹزر لینڈ کی پوری آبادی آرام سے رہ سکتی ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے، سوئٹزر لینڈ نے اپنی فوج بڑھانے کی بجائے پلاننگ پر فوکس کیا ہے۔ بیس سال پہلے ان کی فوج 7 لاکھ پچاس ہزار تھی جو اب 1 لاکھ چالیس ہزار رہ گئی ہے۔ اس میں سے بھی 40 ہزار کم کرنے کا بل ابھی بحث میں ہے۔

کچھ دیر بعد ٹرین وسپ Visp پہنچ گئی۔ گوگل بتا رہا تھا کہ یہ اس کا آخری سٹاپ ہے اور 3 منٹ کے بعد دوسری ٹرین پلیٹ فارم نمبر 2 سے روانہ ہوگی اور زرمٹ لے جائے گی۔ سامان اٹھا کر باہر نکلا تو محسوس ہوا کہ سردی سے دانت بج رہے ہیں۔ بھاگم بھاگ انڈر گراونڈ راستے سے پلیٹ فارم نمبر 2 پر پہنچا تو ٹرین بھی آرہی تھی۔ یہاں بکنگ سسٹم نہیں تھا اس لئے جو بوگی سامنے آئی اسی میں سوار ہوگیا۔

وسپ چھوٹا سا شہر ہے دو منٹ میں ختم ہوگیا تو پھر پہاڑوں اور وادیوں میں سفر شروع ہوگیا۔

اس ٹرین کے سائیڈ والے شیشے دوگنا بڑے تھے کہ عوام باہر کے مناظر زیادہ سے زیادہ دیکھ سکیں۔ سیٹیں بھی بہت عمدہ نرم اور آپسی فاصلہ بھی زیادہ تھا۔ سامنے اخبار اور کچھ میگزین بھی رکھے تھے۔ سوچا کہ اتنے تکلف کی کیا ضرورت تھی۔
“ٹکٹ پلیز” آواز آئی تو دیکھا کہ سوس لیڈی ٹکٹ چیکر کھڑی ہے۔ جھٹ سے سوس پاس نکال کر پٹ سے اس کے حوالے کیا کہ یہ لو بی بی ہمارے پاس پورے سویٹزرلینڈ کا 3 دن کا پاس ہے اور ابھی دو دن باقی ہیں۔

مسکرا کر کہنے لگی جناب آپ فرسٹ کلاس میں بیٹھے ہیں اور یہ سوس پاس سیکنڈ کلاس کا ہے۔ تب معلوم ہوا کہ اس بوگی کے شیشے اتنے بڑے بڑے کیوں ہیں۔ اس نے اشارہ کرکے بتایا اور دکھایا کہ ہر سیٹ پر بڑا بڑا 1 یا 2 لکھا ہوتا ہے اس کا یہی مطلب ہے۔
10 یورو مزید ادا کرکے زرمٹ تک کا فرسٹ کلاس سفر مل گیا۔

میاں کی عادت ہے کہ جلد باز بالکل بھی نہیں ہے۔ ہر کام بالکل سکون سے کرنا چاہیے۔ اسی لئے ابھی تک زرمٹ میں ہوٹل بک نہیں کیا تھا کہ راستے میں ہی کرلیں گے۔ بکنگ ڈاٹ کام سے دوبارہ زرمٹ کے ہوٹل چیک کیے تو مناسب ترین سنگل کمرہ 80 یورو میں نظر آگیا۔ ہل سٹیشن ہمیشہ مہنگے ہوتے ہیں یہی سوچ کر ہوٹل ایڈونس Hotel Adonis بک کرلیا۔ یہ ہوٹل ٹرین سٹیشن سے 800 میٹر کے فاصلے پر تھا لیکن لگیج فری ہونے کی وجہ سے سوچا کہ پیدل جایا جاسکتا ہے۔ گوگل بتا رہا تھا کہ ٹرین سٹیشن سے صرف ٹیکسی دستیاب ہے۔ بس نہیں ملے گی کیونکہ زرمٹ میں بس ہے ہی نہیں۔

وسپ شہر سے نکلتے ہی پہاڑوں کی بلندیوں میں بھی اضافہ شروع ہوگیا اور برف کی مقدار بھی بڑھ گئی۔ راستے میں آنے والا ہر قصبہ پہلے سے زیادہ برف پوش دکھائی دے رہا تھا۔ لگتا ہے کل ہی برف باری ہوئی ہے۔

اسی دوران اعلان ہوا کہ زرمٹ پہنچنے والے ہیں تیار ہوجائیں۔ کچھ دیر بعد ٹرین شہر میں داخل ہوگئی۔ شہر کیا تھا روائتی طرز کے تکونی چھتوں والے گھر ہی گھر تھے۔
ٹرین سے نیچے اترا تو درجہ حرارت مائنس آٹھ لکھا نظر آیا۔ یہ اب تک کا سرد ترین علاقہ تھا اور اسی حساب سے کپڑے ،جیکٹ اور دوہری ٹوپی پہن کر میں تیار تھا۔
اس ریلوے لائن روٹ کا نام Matterhorn Gotthard Bah ہے۔ 4 گھنٹے کےآرام دہ سفر میں بالکل بھی تھکاوٹ نہیں ہوئی۔ ٹرین سٹیشن پر کوئی چیکر یا انسپکٹر نہیں تھا اس لئے شولڈر بیگ پہنے سیدھا باہر نکل آیا۔

دن کے ڈھائی بج چکے تھے۔ اب جلد از جلد ہوٹل پہنچنا تھا تاکہ فریش ہوکر پھر شہر گردی کی جاسکے۔ گوگل نے سارے راستے صاف صاف بتا دیئے تو ادھر کو چل پڑا۔ سامنے ہی Tissot اور Rado کے شو روم تھے ساتھ ہی مشہور وکٹورینکس سوس آرمی نائف بھی۔

ایک ٹپیکل ٹورسٹ پلیس کی طرح یہاں بھی سوینئیرز اور فاسٹ فوڈ کی بھرمار نظر آئی لیکن سخت سردی کی وجہ سے شاید رش کم دکھائی دیا۔

خون جما دینے والی سردی کا رسک میں تو لے چکا تھا لیکن ہر ٹورسٹ شاید نہیں لے سکتا۔ سوس لوگ چاکلیٹ کھا کر خود کو گرم رکھتے ہیں یہ آج واضح ہوا تھا۔ ایوریج دیکھی جائے تو ہر سوس بندہ سالانہ دس کلو چاکلیٹ کھا جاتا ہے اور جو باقی بچتی ہے وہ ایکسپورٹ کردیتے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا میں نمبر 1 چاکلیٹ ایکسپورٹر بھی سویٹزرلینڈ ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہوٹل جانے کا راستہ چڑھائی کی جانب جارہا تھا اس لئے دھیمی رفتار کے ساتھ ہوٹل کی جانب سفر شروع کیا۔ شہر میں ہر طرف برف ہی برف نظر آئی۔ زمیں کہیں دکھائی نہیں دی۔ سڑک کو برف سے صاف کیا جاچکا تھا اور کچھ سوس لوگ شاید بلدیہ والے اب بھی برف ہٹانے والی چھوڑی ایکٹرک گاڑیاں لئے گھومتے نظر آئے۔ اس قصبے میں ستر فیصد عمارات ہوٹل ہیں اور زیادہ تر کنکریٹ اور لکڑی کے اشتراک سے بنے ہیں۔ کم ہائیٹ والی چھت کے دو سے تین منزلہ ہوٹل ہر طرف نظر آرہے تھے۔
کچھ وقت کی واک کے بعد ہوٹل ایڈونس پہنچ گیا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply