قربِ عید اور موت (اک خواب، اک فسانہ)۔۔ شاہد محمود

وادئِ نگر کا رحیم بخش پچاسی برس کی عمر میں اپنے خوبانی کے باغ میں اپنے سب سے چھوٹے بیٹے رحمت اور وادی کے چند لوگوں کے ساتھ بیٹھا گفتگو میں مصروف تھا۔ رحیم بخش عمر میں بوڑھا لیکن ہمت میں جوان تھا۔ وہ بھرپور زندگی گزارتے ہوئے اپنے خوبانی کے باغ کی آج بھی خود دیکھ بھال کرتا تھا۔ آج اس کے ساتھ اس کا چالیس سالہ سب سے چھوٹا بیٹا رحمت تھا جو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے چین گیا تھا۔ وہاں وہ ڈاکٹر بنا اور پھر وہیں کا ہو کر رہ گیا تھا۔ اس نے شادی بھی وہیں ایک ڈاکٹر لڑکی سے کر لی تھی۔ لیکن اتنا ضرور تھا کہ وہ عید الفطر کے موقع پر اپنے بیوی بچوں سمیت رحیم بخش کے پاس وادئِ نگر آ جاتا اور عید الفطر اپنے والدین اور خاندان کے ساتھ مناتا تھا۔ رحیم بخش کے تین اور بیٹے اور دو بیٹیاں بھی تھے جو سب نگر میں ہی آباد اور شادی شدہ و بال بچے دار تھے۔ رحیم بخش کے تینوں بیٹے اسی کے ساتھ رہتے تھے۔ ایک اس کے ساتھ باغ کی دیکھ بھال میں ہاتھ بٹاتا اور باقی دو اپنے پالتو یاک سنبھالتے۔ ان کے پاس پندرہ یاک تھے اور تیس پینتیس بھیڑیں بھی تھیں جو ان کی دودھ، گھی، گوشت کی ضروریات کے ساتھ ساتھ گرم کپڑوں کی بھی ضرورت پوری کر دیتی تھیں۔ رحمت اور اس کی بیوی دونوں ڈاکٹر تھے جس کی وجہ سے وہ کرونا وائرس سے متاثرہ چین کے علاقوں میں ڈیوٹی پر ہونے کی وجہ سے اپنے شیڈول کے مطابق اس سال پاکستان نہیں آ سکے تھے۔ لیکن جب چین میں وائرس کا زور ٹوٹا اور رحمت پاکستان آیا تو اس نے رحیم بخش اور خاندان والوں کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ اب وہ کبھی وادئِ نگر سے باہر نہیں جائے گا بلکہ اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنے باپ اور بھائیوں کا ہاتھ بٹائے گا کیونکہ وادی میں بیماری نام کو نہ تھی اور باہر کی دنیا کا حال وہ بھگت چکا تھا کہ کینسر سے لے کر کرونا اور کرونا سے لے کر حیاتیاتی جنگ تک سب نے دنیا کی نام نہاد ترقی یافتہ قوموں کے ڈھول کا پول کھول دیا تھا۔ اس کی باتوں سے پوری وادئِ نگر کے لوگ صحت مند ہونے کے باوجود پاکستان اور دنیا کے حالات سن کر سوچوں میں پڑ گئے تھے کہ فطرت سے ہم آہنگ سادہ و محنت بھری زندگی گزارنے والے رحیم بخش جیسے بھی صحت مند نظر آتے تھے اور رحیم بخش اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ کھڑا اس کا بھائی ہی لگتا تھا۔ اور رحمت اسی حقیقت کو پا کر نام نہاد ترقی کا لبادہ اتار کر واپس اپنی اصل کو لوٹا تھا اور خوش تھا کہ وہ ترقی کے جنگل میں ہونے والے موت کے رقص سے زندہ بچ کر نکل آیا تھا لیکن عید سے پہلے جب اسے لاہور سے کراچی جانے والے طیارے کے حادثے کی خبر ملی جس میں اس کے کچھ دیرینہ پاکستانی دوست بھی شامل تھے تو اس کی خوشی پھر غم میں بدل گئی ۔۔۔۔ اس نے قربِ عید میں موت کو بہت قریب سے دیکھا تھا اور وہ جانتا تھا کہ اس عید پر جہار کے حادثے میں جاں بحق ہونے والے یوں یا کرونا کی بھینٹ چڑھنے والے ۔۔۔۔۔ سب اپنے اپنے اہل خانہ کو ہمیشہ کے لئے دکھ کے سایوں والی عید دے گئے ہیں۔ ان کے پیاروں کی زندگی میں اب خوشی کی نہیں بلکہ قربِ مرگ کی عید آئے گی ۔۔۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا کاش اس کی طرح سب کے پاس فطرت کی طرف واپس لوٹ جانے کا اختیار option ہو ۔۔۔۔ کاش ۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply