اک تارا، اک چاند اور میں۔۔۔شاعر: دانش عزیز/تاثرات :نیلم ملک

“اک تارا اک چاند اور میں” جناب دانش عزیز کا پہلا مجموعہ کلام جس کا پہلا ایڈیشن 2013 میں شائع ہوا اور اس نے ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل کی، یہی وجہ ہے کہ اب 2019 میں اس مجموعہ  ء کلام کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا گیا ہے ۔
مجموعہ کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت پر جناب دانش عزیز کو دلی مبارکباد۔
مجھے یہ مجموعہ انہوں نے ادبی تنظیم قرطاس کی جانب سے “اک تارا اک چاند اور میں” کی پذیرائی کے لیے منعقد ہونے والی ایک شاندار تقریب میں عطا کیا۔

پہلے کچھ تقریب کا احوال ملاحظہ ہو۔
مشاعرے اور ادبی تقریبات ہمارے ہاں بے شمار ہوتی ہیں اور مہمان بھی بلائے جاتے ہیں لیکن جو ڈیکورم اور مہمان نوازی کا سلیقہ قرطاس کے ہاں ہے وہ کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
قرطاس کے تمام منتظمین اپنے بلائے ہوئے ہر مہمان کو احساس دلاتے ہیں کہ وہ مہمانِ خصوصی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ ان کی کسی تقریب میں جانے والا کوئی مبتدی یا غیر معروف تخلیق کار بھی یہ شکایت لے کر واپس آتا ہو گا کہ اسے نظرانداز کیا گیا۔

مشاعرے کا ایک خاص طرح کا ماحول بنانا، جسے عام بول چال میں مشاعرے کو اٹھانا کہا جاتا ہے، جناب دانش عزیز کا خاصا ہے۔ یہ تقریب کو کسی صورت ماند نہیں پڑنے دیتے۔ داد و تحسین میں قطعی کنجوسی نہیں کرتے اور چند “مقبول” شعراء کی طرح پکّا سا منہ بنا کر مشاعرے یا ادبی تقریب میں ہرگز نہیں بیٹھتے (مقبول نہ سہی لیکن پکّا سا منہ بنا کر تو میں بھی بیٹھتی ہوں  اور داد دینے میں بھی ذرا کنجوس ہوں)۔

قرطاس کی تقریبات منظّم اور بھرپور ہوتی ہیں۔
بالکل ایسی ہی ایک بھرپور اور شاندار تقریب “اک تارا، اک چاند اور میں” کی بھی تھی جس میں ادبی افق کے کئی روشن ستارے (مجھ سمیت )دمک رہے تھے، جنہوں نے تقریب کو خوب چمکایا۔ تقریب کے شرکاء نے جناب دانش عزیز کی شخصیت اور ان کے کام پر روشنی ڈالی اور مختلف آراء کا اظہار کیا جن میں سے  بیشتر مثبت تھیں، ان کے مجموعے  اور تازہ کلام کا موازنہ بھی کیا گیا اور اس کے ارتقاء پر بھی گفتگو کی گئی۔ گویا ہر طرح سے ایک مکمل نشست رہی۔

تقریب کے اگلے دن یہاں فیس بک پر بھی تمام مہمانوں کی فرداً فرداً تصویری پوسٹ لگا کر ان پر اپنے تاثرات بیان کرنا خاصا محنت طلب کام تھا جو جناب دانش عزیز نے کیا سو اس کا ذکر نہ کرنا میرے خیال میں غلط ہو گا۔ تقریب سے متعلق رپورٹ اخبارات اور ٹی وی چینل کی زینت بھی بنی۔

جناب دانش عزیز سائیکالوجی میں پی ایچ ڈی ہیں، حال ہی میں ایم اے اردو کا امتحان بھی دے ڈالا۔
ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں زیادہ علم نہیں۔ ادبی حلقوں میں اپنی خوش اخلاقی اور مرنجاں مرنج شخصیت کی بِنا پر مقبول ہیں۔ مختلف ٹی وی شوز اور لیکچرز دیکھ کر اندازہ ہوا کہ آپ عمدہ نفسیات دان ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سن رکھا ہے کہ اپنے خاندان کو پہلی ترجیح سمجھتے ہیں ،جو ہمارے معاشرے میں نمایاں خوبی سمجھی جاتی ہے۔ ادبی تنظیم قرطاس کی ہی جانب سے منعقدہ ایک تقریب میں آپ کے والد گرامی (جو بوریوالہ کی معروف سماجی شخصیت ہیں) سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے والد صاحب کا ان پر فخر اور والد صاحب کے لیے ان کی عقیدت دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ ایک بہترین بیٹے بھی ہیں۔ ان کا تعلق میرے پیارے آبائی شہر بوریوالہ سے ہے جو کہ میری بھی جنم بھومی ہے۔

اب آتے ہیں کلام کی جانب ۔
“اک تارا اک چاند اور میں” کا مطالعہ مکمل کرنے کے بعد ذہن میں جو پہلا مجموعی تاثر ابھرا وہ یہی تھا کہ اس مجموعہ کلام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
بالترتیب حمد، دعا اور نعت کے بعد بچپن کی سیر کرواتی “احساس کی مالا” پروتے غزلوں تک آئے اور خوبصورت شعر پڑھنے کو ملے بطور نمونہ اک چھوٹا سا انتخاب حاضر ہے

عملِ تطہیر پہ یاروں کا تحیّر دیکھو
جیسے کچھ میرے سنورنے سے بگڑ جانا ہے
۔۔
پَو پھٹنے تک جاگ رہے تھے اک تارا اک چاند اور میں
تنہا تنہا دور کھڑے تھے اک تارا اک چاند اور میں
۔۔
آج آیا ہے کوئی خاص، کہ آنے کی امید!
خیر سے آج یہ دروازے پہ چلمن کیوں ہے؟

یہ شعر تو موجودہ ادبی منظر نامے پہ صادق آتا ہے کہ

کل ان کی گفتگو تھی بڑی طنز سے بھری
اب ایسے رابطوں پہ بھروسہ نہیں رہا

اس کے بعد انیس شعروں پر مشتمل ایک غزلیہ نظم یا نظمیہ غزل ہے جس میں متکلم ایک بیٹی ہے جو دل پذیر انداز میں اپنی زندگی کی روداد بیان کرتی ہے جو حساس قاری کے دل پر اثر انداز ہونے کی طاقت رکھتی ہے۔

شعوری کوشش سے شعر کاری بلکہ تازہ کاری کرنے والوں پر اچھا طنز ہے کہ

وہ ہے لفظوں کی بناوٹ کے ہنر سے واقف
میں بھی لہجے میں نمایاں ذرا نُدرت کر لوں

کیا خوبصورت منظر نگاری ہے کہ۔۔

جہاں نیم شب میں اترتا ہے کوئی آفتاب قیام کو
وہ اسی کا صحن ہے دوستو، یہ سنا تھا برف کے شہر میں

بیشتر شعراء کے پہلے مجموعہ کلام میں جو سادگی، وارفتگی اور بے ساختگی موجود ہوتی ہے وہ اس مجموعہ میں بھی نمایاں ہے ، جدت اور روایت کی دوڑ سے بے نیاز اپنے من اندر کی بات کہنے کی چاہ اس مجموعہ کی نظموں اور غزلوں کی خاص خوبی ہے۔
میری نظر میں یہ سادگی اُس بناوٹ سے بدرجہا بہتر ہے جس میں شاعری پر مصنوعی پن غالب آ جائے ۔

نہ سُنے گا سماج ، رہنے دو
نہ کرو احتجاج ، رہنے دو
۔۔
مقتل سے جو لکھا مرے دانش نے دوستو
اس خط کا لفظ لفظ رُلاتا چلا گیا
۔۔
بکھرا ہُوا تھا میں خس و خاشاک کی طرح
اک اسم کیا ملا ، مری تنظیم ہو گئی
۔۔
میں نے جلتے ہوئے سورج سے ملا کر آنکھیں
ان میں بستے ہوئے خوابوں کو جلا ڈالا ہے
۔۔
رہنے لگا ہوں شہر کی رونق سے دور دور
دانش یہ دشت زادوں سے قربت کی دین ہے
۔۔
49 شعروں پر مشتمل پابند نظم جس کا عنوان “عشق” ہے یہ اس مجموعہ کا سب سے مضبوط حوالہ ہے۔
اس نظم میں مکالماتی انداز اپنایا گیا ہے۔ متکلّم ایک عاشق سے مخاطب ہے جو اسے عشق کے خواص اور اس کے راستے میں پیش آنے والی صعوبتوں اور عشق کے انعامات کے بارے میں بتاتے ہوئے آخر میں متکلّم  کی فال نکال کر اسے خبر دیتا ہے کہ اس کا بھی عشق کے رستے پر چلنا طے ہے۔ یہ ایک بھرپور نظم ہے۔

شہریاروں کی بےحسی پہ خوب کہا کہ جو درد کا مداوا کرنے کی بجائے اسے قبول کر چکے ہیں ۔۔

دکھ اٹھاتے ہیں تو آرام سے سو جاتے ہیں
ہم کو آلام سے فرصت نہیں سونے دیتی
۔۔
غیرت کے عوض خریدی ہوئی آزادی کبھی جب ضمیر پر بوجھ بنتی ہے تو یہی خیال آتا ہے کہ

ہو کے آزاد میں بدنام ہوا پھرتا ہوں
میری توقیر تھی قائم مری زنجیر کے ساتھ
۔۔
دانش عزیز کی زیادہ تر غزلیں طویل ہیں جس سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ آپ زود گو ہیں لیکن شعر کا معیار اچھا ہونے کی بِنا پر یہ طوالت بار نہیں گزرتی۔

آخری صفحات میں مون مارکیٹ دھماکے( دسمبر 2009) کی دہشت یاد دلا دی ، تب ہم علامہ اقبال ٹاؤن کریم بلاک میں رہا کرتے تھے جو مون مارکیٹ سے زیادہ دور نہیں اس لیے اس سانحے کی دہشت کو قریب سے محسوس کیا۔

دانش عزیز کی تازہ شاعری جس تک رسائی فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا فورمز کے  ذریعے ہوتی رہتی ہے اس کو پڑھنے کے بعد یہ کہنا قطعی مشکل نہیں کہ ان کا اگلا مجموعہ کلام “اک تارا اک چاند اور میں” کے بعد طویل مسافت کا پڑاؤ ہو گا جو منزل کے قریب ہونے کا پتہ دے گا۔ کیونکہ ان کا کہنا ہے۔۔

اک تغیّر ہے کہ ہر روز ہے لاحق مجھ میں
ایسا لگتا ہے کہ ترمیم مری جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

ادب کی مسافت میں آسانیوں اور ناموری کے لیے دلی دعائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply