پائیدار یاری اور دوستی تو طالب علمی کے زمانے کی ہوتی ہے، نہ کوئی غرض نہ مفاد بس ہم آہنگی، یکجا رہنے کی خواہش۔
ہم طالب علمی کا دور گزارنے کے بعد لاہور سے پنڈی آ گئے ۔ ہارلے سٹریٹ میں فوجی فاؤنڈیشن کے ہیڈ آفس میں نوکری مل گئی، رین بسیرا ڈھوک الہی بخش میں دیسی ٹائپ ہوٹل جو مردانہ ہاسٹل کی طرح تھا وہاں چند چکوال کے دوستوں کے ساتھ مل گیا، پلک جھپکتے سال گزر گیا، ویسپا سکوٹر مل گیا، پروبیشن کے بعد ترقی ہوئی اور فان گیس میں اکاؤنٹ آفیسر لگ گئے، شام پنڈی صدر میں گزرنے لگی، اچانک ایک دن کتابوں کی دکان پہ لاہور کے زمانے کے یار خاص الیاس سے ملاقات ہوئی ، وہ مغلپورہ انجینئرنگ یونیورسٹی سے ڈگری لے کے پی ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر جو تسلہ روڈ پر تھا وہاں اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے، قریبی آبادی ڈھیری میں ایک دکان کے اوپر رہائش تھی، چند دنوں بعد میرے ہم جماعت ، گرائیں اور رومیٹ صادق بھی صدر میں مل گئے، ان کے والد یو کے مقیم تھے پچھلے ڈیڑھ سال وہ یہاں رہے، گاؤں کا مکان مرمت کیا، شہر میں گھر بنوایا ۔ صادق کا بھائی پیدا کیا ۔اس روز وہ واپس لندن فلائی کر گئے اور صادق کو صدر گھومنے کا موقع ملا، صادق کو جاب درکار تھی، اسے میں نے اپنے ساتھ اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ لگوا دیا۔
اب مسئلہ تھا رہائش کا ۔
ہم تین عدد، باروزگار ، لیکن چھڑے چھانٹ جوان ۔ ان کو گھر کرائے پر، اُس زمانے میں کون دے۔
کئی روز کی بحث کے بعد آخر ایک دن میں نے انجینئر کی کلاس لے لی ۔۔
“ تم جو اپنے باس کے چہیتے ہو، چیئرمین کی ناک کا بال بنے ہوئے ہو۔ کہو ان سے ، کسی دوست کے ہاں کوئی پورشن ہمیں کرایے پر دلوا دیں۔ہم تینوں کی تنخواہ ملا کر ماہوار چار ہزار سے زیادہ ہے۔ یار کیا فائدہ تمہاری ٹی وی کی افسری کا”
ایک ہفتے میں ہارلے سٹریٹ سے ملحق ۔ شاہ جی کے ہزار گز پہ بنے ڈو پیلیکس کی دو بیڈ روم کی انیکس ساڑھے سات سو کرایہ اور بجلی گیس کے بل میں چوتھائی خرچہ پر مل گئی۔
انیکسی کا راستہ عقبی گلی سے تھا، عقبی صحن میں دیوار بن گئی اور مین ہاؤس سے علیحدہ ہو گئی۔۔
شاہ جی ریٹائرڈ افسر تھے، دونوں بیٹے جن کے ساتھ رہنے کو یہ دو یونٹ بنائے تھے، وہ بھی فوج میں افسر ہو گئے ایک ملتان اور دوسرا کوئٹہ میں تھا، فیملی ان کے ساتھ۔
شاہ جی کے پاس ان کا پرانا اردلی فیملی ساتھ سرونٹ کوارٹر میں رہتا تھا۔ دوسرے کوارٹر میں مالی جو ڈرائیور بھی تھا وہ اپنے بچوں ساتھ تھا۔ شاہ جی کی بیٹی اپنے دونوں بچوں ساتھ رہ رہی تھی، اسکے شوہر کو سعودیہ ارامکو میں فیلڈ جاب ملی تھی۔ ہر تین ماہ بعد ایک ماہ چھٹی ملتی ۔
ہماری ملاقات شاہ جی سے مہینے میں ایک بار ہوتی جب میں کرایہ اور پچھلے بل کا حساب کر کے پیسے دینے جاتا۔
مجھے یہ رسائی فاؤنڈیشن کی نوکری کی وجہ سے تھی ورنہ الیاس اور صادق سے شاہ جی کی سلام دعا شاذ و نادر وہ بھی جمعہ کے دن مسجد میں ہوتی۔
الیاس کو دفتر کی ویگن صبح لینے آتی۔ صادق اور میں ٹنچ بھاٹہ ٹانگہ سٹینڈ سے ٹانگے پر صدر آتے ۔ یہ ہوا خوری مزیدار تھی۔ سوائے اس کے کوچوان جی چھ بندے لاد لیں۔ یا اس دن جب ہم نے میٹنگ کی تیاری میں سوٹ پہنا ہو،نکٹائی کو پکڑے رکھنے کے علاوہ ٹانگہ بان کی غلیظ مہک کو اس کی پنڈی کی لذیذ بولی کے ساتھ برداشت کرتے تھے۔
شاہ جی سے ملاقات کبھی کبھار مارننگ واک پہ ہارلے سٹریٹ کے گورا قبرستان کے سامنے پارک یا سی ایم ایچ آفیسرز وارڈ کے سامنے لان میں ہو جاتی ۔ سلام دعا کے ساتھ وہ اپنے پرانے کولیگز جو ہمارے ساتھ پراجیکٹ میں تھے ان کا حال احوال پوچھ لیتے۔
ایک روز ملاقات میں کہنے لگے کہ انیکس کے ایگریمنٹ کا سال ختم ہونے کو ہے، اپنے دوستوں سے مشورہ کر لو۔
ہمیں تو پتہ بھی نہیں چلا کہ سال کیسے بیت گیا،شاہ جی نے یہ بھی بتایا کہ ان کا چھوٹا بیٹا کورس کرنے برطانیہ جا رہا ہے
اس کے گھر کا سامان بھی یہاں سٹور کرنا ہو گا، مزید یہ کہ داماد کی پروموشن ہو رہی ہے اور پوسٹنگ اب ریاض میں آفس میں ہو گی، اگلی چھٹی پہ بیٹی اس کے ساتھ سعودیہ چلی جائے گی۔
شام کو صادق اور الیاس سے اس بارے بات ہوئی تو انہوں نے مزید دھماکے کر دیئے۔
صادق کی لیبیا کے ویزے کی بات چل رہی تھی، یہ تو معلوم تھا اور الیاس کے سال بھر ہالینڈ ٹریننگ پہ جانے کی کوشش کا بھی پتہ تھا ۔ دونوں کے ویزے آنا بڑی خبر تھی، اگلے دو ماہ میں اس گھر میں شاہ جی اور میں رہ گئے۔
ہماری ملاقات اب روز ہوتی، ان کو بھی تنہائی کا درد لگ گیا، ہم نے ایک اچھے سامع کا کردار اپنا لیا،ہماری رہائش تو انیکس میں تھی ، ہم اب پے انگ گیسٹ بن گئے، اب گھر میں مین ڈور سے آنا جانا ہو گیا۔۔
جاری ہے۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں