صدیوں سے بل کھاتی، سر پٹکتی شور برپا کرتی،
موجوں نے بے شمار سر اٹھاے ٹیلوں کو مسمار کرتے اپنی آوارہ دھن میں بہتے ہوئے نامعلوم کی طرف سفر جاری رکھا،
موجوں کے اس ہجوم سے اک قطرے اپنی الگ شناخت بنانے اور اپنے وجود کو جاننے کی کوشش میں ان سر پھری موجوں سے الگ ہو بیٹھا ۔۔۔
ابھی وہ خود کو ہی نظر بھر دیکھ ہی نہ پایا تھا
کہ اک ٹیلے سے ٹکرا گیا
Advertisements

اب وہ اپنے وجود کی سیکڑوں کرچیوں کو بکھرتے ہوئے لہولہان آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں