وہ جو کنویں میں کود گئی /سعید چیمہ

دن اب ڈھلنے لگا  تھا۔ سورج اور دُھند میں مقابلہ ہنوز جاری تھا مگر ابھی تک دھند نے سورج کو مفتوح بنا رکھا تھا۔ دھند کے اثر نے سورج کو سفید کر دیا تھا جس کی وجہ سے سردی اس قدر زیادہ تھی کہ جسم آگ کا قرب مانگتے تھے۔ اسی لیے امام دین نے فضلو سے کہا کہ مٹی کی بڑی انگیٹھی میں کیکر کی سوکھی لکڑیوں سے آگ جلا۔

فضلو امام دین کا سب سے پرانا اور وفا دار نوکر تھا، جو آزادی کے بعد سے روٹی کے بدلے اس کی حویلی پر رہ رہا تھا۔ اس کا تعلق کس علاقے سے تھا اور وہ تھا کون، امام دین نے پوچھا اور نہ کبھی فضلو نے خود سے بتایا۔ فضلو کو اگر امام دین کے گھر سے روٹی ملتی تھی تو وہ اس کے بدلے حویلی کے چھوٹے موٹے کام کر دیتا تھا، جیسا کہ مہمانوں کے لیے گھر سے لسی کا دونا لے آنا، گرمیوں کو امام دین کو ہاتھ والے پنکھے سے ہوا دینا، اور سردیوں کو انگیٹھی میں آگ جلا دینا۔

آج بھی جب فضلو آگ جلانے لگا تو پہلے اس نے انگیٹھی میں پرالی رکھی، پرالی کے اوپر کیکر کی سوکھی لکڑیوں کی تہہ لگائی اور پھر اس تہہ کے اوپر گوبر کے سوکھے اُپلے رکھ دیئے۔ ماچس کی تیلی سے آگ لگی، تھوڑا سا  دھواں اٹھا اور پھر سرخ آگ امام دین کے جسم کو حرارت دینے لگی۔

امام دین نے فضلو سے کہا کہ انگیٹھی کو میری کُرسی ذرا اور قریب کھسکا دو اور گھر سے پتہ کر آؤ ،کہ آج رات کھانے میں کیا بنے گا۔ امام دین کا گاؤں چناب کے کنارے واقع تھا جہاں بمشکل ساٹھ ستر گھر تھے۔ آزادی سے پہلے اس گاؤں میں زندگی کا مقصد فقط دو وقت کی روٹی تھی۔ چناب کے بیلے میں سردیوں میں گندم کاشت کر دی جاتی جو سال بھر کے لیے کافی ہوتی۔ البتہ گرمیوں میں بیلا ویران ہی رہتا کیوں کہ ہر سال سیلاب کا خطرہ رہتا تھا، اس لیے گرمیوں کے موسم میں بیلے میں صرف جانور چرائے جاتے تھے۔

جس سال سیلاب آ جاتا، گاؤں کے کچے مکانات ڈھے جاتے۔ اور لوگ در بدر ہو جاتے۔ سیلاب کے بعد لوگ گھروں  میں جب واپس لوٹتے تو گاؤں کی جگہ مٹی کا ملبہ ہوتا، جو اس بات کی گواہی دیتا کہ سیلاب سے پہلے عین اسی جگہ پر گاؤں واقع تھا۔ مگر آزادی کے بعد سے گاؤں کے لوگوں کی معاشی حالت میں بہتری آنا شروع ہو گئی۔ آخر اس معاشی خوش حالی میں سکھڑوں کا خون اور ان سے حاصل ہونے والا مالِ غنیمت جو شامل تھا۔

امام دین اس لشکر کا حصّہ تھا جو سکھڑوں سے لڑنے کے گیا تھا۔ یہ بات تو طے  تھی کہ ارد گرد کے دیہات  میں بسنے والے سِکھ  اب مشرقی پنجاب چلے جائیں گے جو ان کا اصلی وطن ہے۔ مگر ان کی کثیر دولت اور پکے مکانات کا کیا بنے گا، جو ان دیہاتوں میں واقع تھے۔ جب دیہات والے یہ بات سوچتے تو رال ٹپکاتے۔ کبھی کبھار جب ان کو مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر ٹوٹنے والے مظالم کی خبر پہنچتی تو لالچ کے ساتھ جذبہ انتقام بھی شامل ہو جاتا۔

وہ دن گیارہ اگست کا تھا۔ امام دین کو یہ دن اس لیے یاد تھا کہ اس دن اسے کافی سونا ملا تھا جس سے اس نے گھر اور حویلی کو پکا کر لیا تھا اور اس دن کو یاد رکھنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اسی دن اس کا بھائی تاج دین سکھوں سے لڑائی میں کام آ گیا تھا۔ اس رات لڑائی کافی شدید ہوئی تھی، امام دین کی ٹانگ پر بھی بھل لگی تھی، جس کا اثر ابھی تک برقرار تھا اور لنگڑا کر چلتا تھا۔ اس کا بھائی اور گاؤں کے تین مرد بھی جان کی بازی ہار گئے تھے جو سکھوں سے لڑنے گئے تھے۔

یہ لڑائی رات کو ہوئی تھی جب سردار وساکھا سنگھ اپنی بیوی بچوں کو ساتھ لے کر گیارہ اگست کی رات مشرقی پنجاب بھاگنے لگا تھا۔ سردار وساکھا سنگھ اپنے علاقے کا سب سے امیر فرد تھا، جس کی کئی مربعے پیلی تھی اور دولت کی ریل پیل اتنی زیادہ تھی کہ وساکھا سنگھ بھی گننے سے عاجز تھا۔

وساکھا سنگھ کے بال اب چاندی تھے۔ واہے گرو نے اسے سب کچھ دے رکھا تھا۔ اجیت کور جیسی خوبصورت بیوی جس کے چہرے پر اب بڑھاپے کے آثار تھے مگر جوانی کی تازگی اب بھی برقرار تھی۔ گرو کی کرپا سے وساکھا سنگھ کے دو پتر اور ایک دھی بھی تھی جو خوبصورتی میں اپنی ماں کو بھی مات دیتی تھی۔

گھر اور پیلیوں کی دیکھ بھال کے لیے سردار وساکھا سنگھ نے کئی ملازم رکھے تھے۔ ان ملازموں میں سے ایک کا نام نذیر تھا جس کا تعلق امام دین کے گاؤں سے تھا۔ نذیر کے ذمے سردار وساکھا سنگھ کے گھر کی صفائی کا کام تھا۔ ایک دن جب وہ جھاڑو دے رہا تھا تو اس نے کمرے میں وساکھا سنگھ اور اجیت کور کی دبی دبی گفتگو سن لی جو ہجرت کے متعلق تھی۔

حالات اب ایسے ہو گئے ہیں کہ ملک کا بٹوارہ ناگزیر ہو گیا ہے، ہمیں ہر حال میں یہاں سے جانا ہو گا، سردار وساکھا سنگھ اپنی اجیت کور سے کہہ رہا تھا۔ مگر میرے سردار ہم اپنی زمینیں کیوں چھوڑیں، پرکھوں کی نشانیوں کو خیر آباد کیوں کہیں، اور یہ سب کچھ چھوڑ کر نئی جگہ بسیں گے کیسے؟ یہ باتیں کہتے ہوئے اجیت کور کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں۔

وساکھا سنگھ کے دل کی آواز بھی یہی تھی کہ ہم اپنا وطن کیوں چھوڑیں؟ مگر وطن تو چھوٹنا تھا اور یہ بات وساکھا سنگھ جان چکا تھا۔ اس لیے اس نے دبی آواز میں اجیت کور سے کہا کہ گیارہ اگست کی رات کو ہم یہاں سے کوچ کر جائیں گے۔ ہم اپنے ساتھ صرف سونا اور چاندی لے کر جائیں گے اور باقی سب کچھ یہیں  چھوڑیں گے کہ قافلے میں سامان جتنا کم ہو گا، حفاظت اتنی آسان رہے گی۔ وساکھا سنگھ نے اجیت کور کو دبی آواز میں کہا کہ یہ بات گھر کے کسی مُسلے کو پتہ نہیں چلنی چاہیے کہ ہم گیارہ اگست کو کوچ کر رہے ہیں، اجیت کور نے سر ہلایا۔

مگر یہ بات نذیر کو پتہ چل چکی تھی۔ اس نے بات سنی اور جھاڑو دیتا ہوا برآمدے میں آگے چلے گیا۔ رات کو نذیر سو نہ سکا اور گھوڑی پر سوار ہو کر اپنے گاؤں آ گیا کہ اس کا گاؤں وساکھا سنگھ کے گاؤں سے فقط چار کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ صبح کے وقت نذیر نے گاؤں کے سب لوگوں کو جمع کیا اور وساکھا سنگھ کے کوچ کی خبر سنائی۔

نذیر نے جب وساکھا سنگھ کے سونے و چاندی کی  گتھلیوں کے متعلق بتایا تو امام دین سمیت سب مردوں کو دن پھرنے کی آرزو لگی۔ گیارہ اگست فقط تین دن دور تھی۔ سب کا متفقہ فیصلہ یہی ٹھہرا کہ نذیر فوری طور پر وساکھا سنگھ کی حویلی واپس چلا جائے اور گیارہ اگست کی رات جب تین دفعہ کتے کے بھونکنے کی آواز سنے تو حویلی کا دروازہ کھول دے۔ تین دفعہ کتے کے بھونکنے کی آواز امام دین کے بھائی تاج دین نے نکالنا تھی جو ہو بہو کسی بُولی کتے کی آواز نکالتا تھا۔

نذیر جب    سورج چڑھے حویلی پہنچا تو کسی نے بھی اس سے استفسار نہ کیا کہ تو کہاں تھا کیوں کہ وہ اکثر رات کو اپنے گاؤں چلا جاتا تھا۔ ان تین دنوں میں امام دین نے گاؤں کے بیس مردوں کو حملے کے لیے اکٹھا کیا اور ان کو بھلوں اور کلہاڑیوں سے لیس کر کے حملے کی تیاری کرنے لگا۔ گیارہ اگست کی رات آ پہنچی۔ فیصلہ یہی ہوا تھا کہ وساکھا سنگھ آدھی رات سے پہلے کوچ کرنے کا خطرہ کبھی مول نہیں لے گا، اس لیے حملہ  رات کے پہلے پہر ہو گا، جب وہ اس کی توقع نہیں کر رہا گا۔

کُفتوں کی آزان کے بعد امام دین نے گاؤں کے افراد کو ساتھ لیا اور وساکھا سنگھ کے گاؤں کی طرف چلنے لگا۔ سب کا متفقہ فیصلہ یہی تھا کہ وساکھا سنگھ کے گاؤں کی جانب پیدل سفر کیا جائے گا کیوں کہ گھوڑوں پر سفر کرنے سے لوگوں کے چوکنا ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

سردار وساکھا سنگھ کی حویلی والی گلی میں داخل ہو کر تاج دین نے بُولی کتے کی آواز نکالی تو نذیر چوکنا ہوا اور تھوڑی دیر  بعد اس نے حویلی کا دروازہ چپکے سے کھول دیا۔ تاج دین نے دوسری گلی میں آ کر لوگوں کو بتایا کہ دروازہ کھل چکا ہے اور سب نے دبی آواز میں نعرہ تکبیر بلند کر کے حویلی کا قصد کیا۔

حویلی میں روشنی قدرے کم تھی۔ صرف وساکھا سنگھ کے کمرے میں مشعل جل رہی تھی۔ امام دین  نے اپنے ساتھیوں کو مشعلیں جلانے کا کہا۔ مشعلیں جلتے ہی غلغلہ بلند ہوا جس سے وساکھا سنگھ چوکنا ہوا۔ تھوڑی دیر بعد بیس افراد وساکھا سنگھ کی حویلی میں دیوانہ وار سونا چاندی ڈھونڈ رہے تھے۔ شور سن کر وساکھا سنگھ کی دھی اور پتر اپنے والدین کے کمرے کی طرف بھاگے۔ وساکھا سنگھ کی آنکھوں میں تشویش تھی، اجیت کور کی آنکھیں متوحش تھیں۔ دھی اور پتروں کی آنکھوں میں خوف کی کیفیت تھی۔

اب وساکھا سنگھ کے پاس بچنے کا واحد رستہ یہی تھا کہ دروازے کو اندر سے کنڈی لگا دی جائے اور صبح ہونے کا انتظار کیا جائے۔ اس نے ایسا ہی کیا اور صندوق میں پڑی ہوئی رائفل نکال کر اس میں کارتوس بھرا۔ امام دین کے لوگ حویلی میں کا کمرہ کمرہ چھانتے رہے اور سونا تلاش کرتے رہے، مگر سونا اور چاندی وساکھا سنگھ اپنے کمرے کے صندوق میں جمع کر چکا تھا۔

امام دین اور اس کے گاؤں کے افراد کمرے کے سامنے آئے اور دروازے کو آگ لگا دی۔ دروازہ جلا اور گرا تو تاج دین باقی افراد کے ساتھ کمرے داخل ہوا۔ ان لوگوں کے داخل ہوتے ہی کارتوس فائر ہوا اور تاج دین سمیت تین افراد ٹھنڈے ہو گئے، اس سے پہلے وساکھا سنگھ دوسرا کارتوس بھرتا، امام دین نے آگے بڑھ کر وساکھا سنگھ کے سینے میں بھل مار  دی، جس  سے وہ  تڑپا اور فوراً ہی ٹھنڈا ہو گیا۔

یہ دیکھ کر وساکھا سنگھ کے پتر نے امام دین پر حملہ کیا مگر امام دین بھل کا وار بچا گیا اور ٹانگ زخمی کروا بیٹھا۔ اسی دوران گاؤں کے دوسرے افراد نے وساکھا سنگھ کے بیٹوں اور بیوی کو کلہاڑیوں کے وار سے ٹھنڈا کر دیا۔ ایک شخص جب وساکھا سنگھ کی دھی پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھا تو امام دین نے چیخ کر کہا کہ اس کو زندہ پکڑنا ہے۔

مگر وہ سمجھ چکی تھی کہ یہ لوگ اسے کیوں زندہ پکڑنا چاہتے ہیں۔ اس نے جست لگائی اور کمرے سے نکل کر بھاگنے لگی۔ امام دین چلّایا کہ اسے زندہ پکڑنا۔ لوگوں نے تعاقب کیا مگر وہ کنویں میں چھلانگ لگا چکی تھی۔ وساکھا سنگھ کا خاندان مٹ چکا تھا۔ امام دین نے صندوق کھولا تو اس کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ اس نے سونے کو چادروں میں رکھ کر گھٹڑیاں بنائیں اور ساتھ والوں کو جلدی کے ساتھ لاشیں اٹھا کر کوچ کا حکم دیا۔ گاؤں پہنچ کر اگلے دن اعلان ہوا کہ تاج دین سکھوں کے ساتھ لڑائی میں شہید ہو گیا ہے اور امام دین زخمی ہوا ہے۔ انگیٹھی کے قریب بغلوں میں ہاتھ دبا کر اونگھتے ہوئے یہ سارا واقعہ امام دین کو یاد آ گیا۔ امام دین اس واقعے کو یاد کر کے اکثر سوچتا کہ اگر وساکھا سنگھ کی دولت نہ ملتی تو نہ اس کا گھر پکا ہوتا اور نہ وہ حویلی بنا پاتا۔ لیکن اسے اکثر ایک بات کا قلق رہتا کہ وہ سردار وساکھا سنگھ کی لڑکی کو پکڑ نہ سکا جو کنویں میں چھلانگ لگا چکی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اتنے میں فضلو نے آ کر اطلاع دی کہ بی بی جی کہہ رہی ہیں کہ رات کو گھر میں پالک گوشت بنے گا جو کہ امام دین کی مرغوب غذا تھی۔ یہ سن کر امام دین نے انگڑائی لی اور اٹھنے کی سعی کرنے لگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply