شاعری    ( صفحہ نمبر 3 )

ایک تَھر ہے اِدھر شمال میں بھی۔۔۔حامد یزدانی

غزل ایک تَھر ہے اِدھر شمال میں بھی میرا گھر ہے اِدھر شمال میں بھی ضبط  کی  مشرقی  روایت  کا کچھ اثر ہے اِدھر شمال میں بھی غم نوردی  اُدھر ہی  ختم  نہیں دوپہر  ہے اِدھر شمال میں بھی ایک ←  مزید پڑھیے

خسرو:موازنۂ شعر و موسیقی۔۔۔۔معین نظامی

عبقری کا سا کوہ پیکر اور بے کراں لفظ بھی حضرت امیر خسرو کی ابتکاری جامعیت کے سامنے پرِ کاہ سا لگتا ہے. شاعری، موسیقی، تصوف، ثقافتی تنوع اور مزاجی جاذبیت میں امیر خسرو کا جمال و کمال شاید پوری←  مزید پڑھیے

کیسا شکنجہ ہے : رفیق سندیلوی

کیسا شکنجہ ہے یہ کس تَوسنِ برق رفتار پر کاٹھیاں کَس رہے ہو یہ پھر کون سے معرکے کا ارادہ تمہاری نسوں میں یہ پھر کیسی وحشت کا جادہ کُھلا ہے فصیلوں پہ اک پرچمِ خُوں چَکاں گاڑ دینے کی←  مزید پڑھیے

“غالب” کمرہ ء جماعت میں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یک قدم وحشت سے درس ِ دفتر ِ امکاں کھلا جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طالبعلم -ایک یک قدم وحشت؟ فقط اک ہی قدم کیا ؟ اک قدم ہی سرحد ِ قائم مزاجی سے پرے؟ اک←  مزید پڑھیے

کس طرح مَیں سمیٹوں / رفیق سندیلوی

کس طرح مَیں سمیٹوں مرے بازوؤں کا یہ حلقہ بہت تنگ ہے پُھول ہی پُھول ہیں میرے چاروں طرف طشت ہی طشت ہیں جن میں لعل و جواہر کے انبار ہیں کیا خزانے ہیں یہ کیسی دُنیا کے آثار ہیں←  مزید پڑھیے

عدم قبولیت/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

عجیب حادثہ ہوا علیل ماں جو ہسپتال میں پڑی کئی دنوں سے چھٹپٹا رہی تھی ایکاایک جیسے سوگئی توآسماں کی سمت دیکھ کر یتیم طفل چیخ چیخ اٹھے خدایا رحم کر ہماری کم سنی پہ رحم کر دعا نے پھڑپھڑائے←  مزید پڑھیے

دائرہ در دائرہ/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

عاقبت منزل ما وادی  خاموشاں است حالیہ غلغلہ د ر گنبد افلاک انداز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لکیروں کے چکر میں محبوس اک د ائرہ ہے لکیریں بہت تیز رفتار سے گھومتی ہیں مدار اپنا لیکن نہیں بھولتیں اس سفر میں کہاں سے←  مزید پڑھیے

میرے جانے کے دن آ گئے/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میرے جانے کے دن آ گئے پوچھو، کیوں؟ پوچھو، کب؟ ہاں، کسی ایک شب جب اندھیرا نہ ہو ہاں ، کسی ایک دن جب سیہ دھوپ ہو میں چلا جاؤں گا اک ہیولےٰ سا، آبی بخارات سا میں چلا جاؤں←  مزید پڑھیے

گونگے صحرا میں /ڈاکٹر ستیہ پال آنند

  گونگے صحرا میں کئی جنموں سے بھٹکا ہوا تھا ایک اسوار۔۔ جو اَب بچ کے نکل آیا ہے ڈھونڈتی پھرتی ہیں اس کو یہ دو روحیں کب سے ایک کہتی ہے ، مرے پچھلے جنم میں تم نے مجھ←  مزید پڑھیے

سب و شتم ، اتہام کی نظمیں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

1-اندر آنا منع ہے اپنے محل کے دروازے کے اوپر اس تختی کو لٹکا کر شاید تم یہ معمولی سی بات بھی بھول گئے ہو جھکّڑ، آندھی، طوفاں، بارش بھوکے ننگے لوگ، گداگر ڈاکو، چور ۔۔۔۔ آوارہ کُتے بالکل ناخواندہ←  مزید پڑھیے

توازن/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

متوازن تھے، احسن صورت خوش وضعی میں ایک برابر ہم بچپن سے کچھ کچھ کج مج، عدم توازن ہم نے خود ہی ڈھونڈھ لیا ادھواڑ عمر میں نستعلیق، کتابی صورت ۔۔اور اکمل کردار ہمارا شاید قائم رہ پاتے لیکن جانے←  مزید پڑھیے

تم دیکھنا /صابرہ شاہین

زندگی کا ہر دیا , دے گی بجھا , تم دیکھنا ایک دن زہراب , بستی کی ہوا , تم دیکھنا پہلے شک کی بوند ٹپکے گی,وفا کی جھیل میں پھر غرورِ  دوستی ہو گا فنا ,ثم دیکھنا دھوپ کے←  مزید پڑھیے

گرۂ زیست۔۔۔۔۔صادقہ نصیر

گرۂ زیست میں کہ اک وجود کارگاہ شیشہ گری میں کانچ کا ٹکڑا کوزۂ محبت لا حاصل جنم دن ہے آج جس کا برسوں پہلے آج ہی کے دن کیلنڈر پر درج ہوا میرا جنم جب کاسۂ بے بسی بنا←  مزید پڑھیے

آکسفورڈ میں/سیّد محمد زاہد

حزیمت اب یہ بھی اٹھانا پڑے گی در صنم پہ گردن جھکانا پڑے گی سوے دیر دیکھو اجالا بہت ہے اہل حرم، یہ خفت مٹانا پڑے گی اندھیرے مٹا نہ سکا نور خورشید شمع اک نئی اب جلانا پڑے گی←  مزید پڑھیے

بنی ٹھنی غزلوں کے جلو میں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کم مایہ، مسکین، چیتھڑوں میں لپٹی وہ نظم فقط دس بارہ سطروں کی حامل تھی جب آئی غزلوں کی محفل میں تو جیسے جھجک گئی۔ پھر ڈرتی ڈرتی بیٹھ گئی اور دائیں بائیں دُزدیدہ نظروں سے دیکھا سجی دھجی تھیں،←  مزید پڑھیے

اس لمحے کے آگے پیچھے کچھ بھی نہیں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ہے ارتفاق یا اقران یا اخوان الزماں کہ جس میں حاضر و موجود بھی ہیں زنگ آلود رواں دواں کو بھی دیکھیں تو ایسے لگتا ہے کہ منقضی ہے، فراموش کردہ، ما معنیٰ اگر یہی ہے ، “رواں”، “حالیہ” اے←  مزید پڑھیے

صوتی محاکات پر استوار ایک شعری تاثر/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مدھم مدھم دھیرے دھیرے صحرا میں سورج کی آڑی ترچھی کرنیں نالاں ، شاکی اپنے ترچھے سایوں کی پسپائی پر اب سبک سبک کر اُلٹے پاؤں چلتے چلتے دور افق میں ڈوب گئی ہیں ایک نئی ہلکی ’ ’ سُر←  مزید پڑھیے

بغیچے کے لئے دل جل رہا ہے/فارسی نظم سے ترجمہ-محمد علی جعفری

بغیچے کے لئے دل جل رہا ہے، چمن کو رو رہی ہوں میں، کسی کو فکرِ گل کیوں ہو؟ وہ مچھلی مر رہی دیکھو، کوئی کیوں مان لے، یہ گلستاں، گھٹ گھٹ کے مرتا ہے، کہ سورج کی تمازت سے←  مزید پڑھیے

اِک “ہری چُگ” کی کتھا/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اِک ہری چُگ وسوسوں میں غرق وہمی شخص تھاوہ سوچتا رہتا تھا، پیدا کیوں ہُوا ہے اور اگر ہو ہی گیا ہے اس پراگندہ زمیں پر ایسے ژولیدہ زماں میں کیوں ہُواہے؟ کیا دساور میں کوئی ابنِ سبیل ایسا علاقہ←  مزید پڑھیے

چاند کے سنگ اِک تارا/ڈاکٹر صابرہ شاہین

چاند کے سنگ اک، تارا ہردم دیکھا ہے چپکے، چپکے رین کتھا، جو کہتا ہے منزل ،منزل دیکھ، کٹھن ہے جیون کی ہر اک گام پہ ، کالا اژدر ، بیٹھا ہے رشتوں کے پھولوں پہ، لوبھ کا بھنورا ہے←  مزید پڑھیے