اِک “ہری چُگ” کی کتھا/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اِک ہری چُگ
وسوسوں میں غرق وہمی شخص تھاوہ
سوچتا رہتا تھا، پیدا کیوں ہُوا ہے
اور اگر ہو ہی گیا ہے
اس پراگندہ زمیں پر
ایسے ژولیدہ زماں میں کیوں ہُواہے؟
کیا دساور میں کوئی ابنِ سبیل ایسا علاقہ بھی ہے جس میں
کوئی اس کے جیسا ’ اوگھٹ‘
سر چھپانے کی پناہ آخری پا کر
اُس جگہ ٹِک جائے مرنے کی گھڑی تک؟

اس کی قسمت نے پھر اس سے ایک اوچھا ہاتھ کھیلا
جعلسازی کی
اسے پردیس میں
عجبک زمینوں کی سیاحت پر روانہ کر دیا
جن سے علاقہ ہی نہیں تھا

اتنے برسوں تک وہاں رہتے ہوئے بھی
ایک ملک ِ بے اماں سے
دوسرے تک
اجنبی سا
آج بھی بے ربط، آتش زیر پا
پھرتا ہے لاملحق   ، بکھرا ہُو اسا
ڈھونڈتا رہتا ہے چاروں کھونٹ، شاید
جوگیوں کا کوئی ٹیلہ ہی نظر آ جائے ، لیکن
ہر طرف کیدوؔ ہیں ، یا کھیڑوں کی جھوکیں۰۰
بالناتھ اب غرق ِ دریا ہو چکے ہیں!

Advertisements
julia rana solicitors london

تھک گیا ہے
کل کا رانجھا، آج کا یہ مرگ پیش آگاہ شاعر
موت کے لاہوت بحر ِ بیکراں میں
غرق ہونا چاہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۰۰تینوں اشارے وارث شاہؔ کے طویل ہیر رانجھا کے قصے سے مستعار ہیں اور پنجابی کے لوک ادب میں اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ کیدوؔ کا کردار ـ’’ویلین‘ کا سمبل ہے۔ کھیڑوں کے قبیلے میں ہیرؔ اپنی مرضی کے خلاف بیاہی گئی تھی۔ بالناتھؔ وہ جوگی پیر تھا جس نے رانجھے کو جوگیوں کے فرقۂ فقرا میں شامل کیا تھا۔ اور اس نے اپنے کان پھڑوا کر مندرائیں پہن لی تھیں۔’جھوک‘ پنجابی کا لفظ ہے۔ ’دور افتادہ ایک زرعی بستی‘۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply