شاعری    ( صفحہ نمبر 2 )

کائناتی وسعتیں /پروفیسر طارق احمد

میری اور تمہاری محبت زمیں اور آسماں کی مانند  ہے، جن کے درمیان  وسعتوں میں،صدیوں پر پھیلی مسافتوں میں زندگی اپنے انداز میں بہے جاتی ہے، دن نکلتے ہیں اور ڈھل جاتے ہیں، لوگ ملتے ہیں اور بدل جاتے ہیں،←  مزید پڑھیے

عزیز جاں اہل فلسطین کے نام پاکستان کی جانب سے /شازیہ ضیاء

اے عزیزانِ برادرانِ  فلسطین! آج ہم تمہیں اپنا احوالِ  دل سناتے ہیں تم غمگین ہوتے ہو اپنے شہیدوں پر تو آنسو ہم بھی بہاتے ہیں جو حق کی خاطر مر مٹ جائیں ان شہیدوں کا مگر نہیں سوگ مناتے ہیں←  مزید پڑھیے

جوابِ جاہلاں با شد خموشی۔۔۔صادقہ نصیر

جوابِ جاہلاں با شد خموشی چپ سی سادھ لی بہت گہری خموشی اس گمان میں کہ سب جاہل۔ میں قابل یا پاگل۔۔۔ اک خواہش آخر کہ سب قابل اور میں جاہل۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو جاؤں سوال کروں جہالت میں لتھڑا ہوا اور←  مزید پڑھیے

خزاں کی آگ/فیصل عظیم

رنگ اُترا ۔۔۔ لباس ننگ اُترا راہگیروں نے کیا نظر ڈالی شرم سے سرخ ہوگئے عارض جھرّیاں پڑ گئیں خجالت سے شاخساروں کی نیم عریانی دیکھی بھالی ہوا میں ٹھٹھری ہے وہ جو غازے کے محملوں میں تھی ہکّا بکّا،←  مزید پڑھیے

منظوم بُدھ کتھائیں(یسوع)-ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کچھ بودھی فرقوں کا یہ خیال تھا کہ گوتم بدھ اس جنم کے بعد آوا گون کی زنجیر سے آزاد نہیں ہوئے ۔ اس کے بعد ان کا ایک اور جنم ہوا، جس میں وہ دار پر مصلوب کیے گئے۔۔۔یہ←  مزید پڑھیے

مقامی بچوں کو انگریزی نہیں آتی/شہناز شورو

ہمارے بڑے شہر کے خانگی اسکول کے استادوں نے ایک بچے کو ذلیل کرتے ہوئے کہا “تمہیں انگریزی نہیں آتی” پھر اس کے چہرے پر کالا داغ لگایا کالا رنگ جو ہمارے پاس ذلت کا نشان ہے کہ یہ زمیں←  مزید پڑھیے

منظوم بُدھ کتھائیں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

شہر کی اک خوبصورت نرتکی نے خوبرو آنند کو باہوں میں بھر کر یہ کہا، “تم سَنگھ سے باہر چلے آؤ یہ میری دولت و ثروت ،یہ جاہ و حشم،یہ اونچا محل اور سب بڑھ کر مَیں، تمہارے منتظر ہیں!←  مزید پڑھیے

غزل/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

قرنوں سے بڑے زود گذر ثانیے، رُک جا خود تک مجھے جانے میں ابھی وقت لگے گا تھم سی گئی تھیں نبضیں زمان و مکان کی اِک حادثہ ایسا بھی مرے ساتھ ہوا تھا نروان کا حصول ہو شاید تری←  مزید پڑھیے

غزل/میاں آصف افتخار الدین شاہ

باقی نہ رہا عشق ترے حُسنِ بیاں میں زیبا تو بہت، درد نہیں تیرے فغاں میں لڑتا ہے کبھی مصلحتوں سے بھی کوئی جنگ آہن ہی نہیں کچھ بھی ترے تیر، سناں میں دنیا ہے بہت خوب، یہاں دین سے←  مزید پڑھیے

15 اپریل کے نام/میاں آصف افتخار الدین شاہ

وہ وفا کی شمع بجھی نہیں، پہ جو شوق تھا وہ تو مر گیا وہ نہ کٹتا تھا جو ترے فراق میں، وقت وہ بھی گزر گیا تو مِلا نہیں جو کسی بھی خواب میں، تج دیا ترے خواب کو←  مزید پڑھیے

پنچھی کبھی اُس پیڑ پہ اُترا نہیں کرتے/صابرہ شاہین

صحرا کے مسافر کبھی، لوٹا نہیں کرتے مر جاتے ہیں پر تشنگی ، بیچا نہیں کرتے ٹھن جائے کڑی دھوپ سے تو، آبلہ پا لوگ یوں سایہء دیوار میں، بیٹھا نہیں کرتے موجوں میں گِھرا ہو جو سفینہ تو سفر←  مزید پڑھیے

تعارف وتبصرہ کتاب: “میری آنکھوں سے دیکھو” مصنف: فیصل عظیم تبصرہ نگار: صادقہ نصیر

زیر نظر کتاب نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے۔کتاب سے پہلے صاحب کتاب کا تعارف ضروری ہے ۔یہ کتاب ٹورونٹو میں مقیم ایک نہایت سلجھے ہوۓ فکرو خیال سے مالا مال اعلی تعلیم یافتہ نوجوان کا شعری مجموعہ ہے۔ فیصل←  مزید پڑھیے

مر گئے سارے شجر/ڈاکٹر صابرہ شاہین

آکسیجن کی کمی سے مر گئے سارے شجر گر اُدھر تھیں ٹہنیاں تو سب پتاور تھے ادھر آبشاروں کی چھنک میں درد تھا شوخی نہ تھی اور دریا زرد تھے، کہتے نہیں تھے کچھ مگر کالے رسوں سے بنا تھا←  مزید پڑھیے

پیری کی پونجی/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مت کہو از کار افتادہ ہوں میں مت کہو بالیدگی فرسودگی ہے مت کہو میرا زمانہ ڈھل چکا ہاں، اگر دورانیہ پیچھے کی جانب مُڑ چلے تو اس کے کندھوں کو جکڑ کر روک لو۔۔۔خود سے کہو۔۔میں جانتا ہوں یہ←  مزید پڑھیے

گھر کہاں ہے؟/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

خواب سا تھا کوکھ میں محبوس ، نا مولود بچے کا، کہ جو دریائے خوں میں تیرنے، کچھ ڈوبنے کچھ ہاتھ پاؤں مار کر اُس پار اترنے کی تگ ودو میں اکیلا مبتلا ہے پار ا ترتے ہی خوشی سے←  مزید پڑھیے

ایک تَھر ہے اِدھر شمال میں بھی۔۔۔حامد یزدانی

غزل ایک تَھر ہے اِدھر شمال میں بھی میرا گھر ہے اِدھر شمال میں بھی ضبط  کی  مشرقی  روایت  کا کچھ اثر ہے اِدھر شمال میں بھی غم نوردی  اُدھر ہی  ختم  نہیں دوپہر  ہے اِدھر شمال میں بھی ایک ←  مزید پڑھیے

خسرو:موازنۂ شعر و موسیقی۔۔۔۔معین نظامی

عبقری کا سا کوہ پیکر اور بے کراں لفظ بھی حضرت امیر خسرو کی ابتکاری جامعیت کے سامنے پرِ کاہ سا لگتا ہے. شاعری، موسیقی، تصوف، ثقافتی تنوع اور مزاجی جاذبیت میں امیر خسرو کا جمال و کمال شاید پوری←  مزید پڑھیے

کیسا شکنجہ ہے : رفیق سندیلوی

کیسا شکنجہ ہے یہ کس تَوسنِ برق رفتار پر کاٹھیاں کَس رہے ہو یہ پھر کون سے معرکے کا ارادہ تمہاری نسوں میں یہ پھر کیسی وحشت کا جادہ کُھلا ہے فصیلوں پہ اک پرچمِ خُوں چَکاں گاڑ دینے کی←  مزید پڑھیے

“غالب” کمرہ ء جماعت میں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یک قدم وحشت سے درس ِ دفتر ِ امکاں کھلا جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طالبعلم -ایک یک قدم وحشت؟ فقط اک ہی قدم کیا ؟ اک قدم ہی سرحد ِ قائم مزاجی سے پرے؟ اک←  مزید پڑھیے

کس طرح مَیں سمیٹوں / رفیق سندیلوی

کس طرح مَیں سمیٹوں مرے بازوؤں کا یہ حلقہ بہت تنگ ہے پُھول ہی پُھول ہیں میرے چاروں طرف طشت ہی طشت ہیں جن میں لعل و جواہر کے انبار ہیں کیا خزانے ہیں یہ کیسی دُنیا کے آثار ہیں←  مزید پڑھیے