بغیچے کے لئے دل جل رہا ہے/فارسی نظم سے ترجمہ-محمد علی جعفری

بغیچے کے لئے دل جل رہا ہے،

چمن کو رو رہی ہوں میں،

کسی کو فکرِ گل کیوں ہو؟
وہ مچھلی مر رہی دیکھو،
کوئی کیوں مان لے،
یہ گلستاں، گھٹ گھٹ کے مرتا ہے،
کہ سورج کی تمازت سے یہ گل،
مرجھا گیا شاید،
بغیچہ دھوپ کی شدت سے کھو بیٹھا ہے رعنائی،

اداسی تھی، اداسی ہے،
اور اس کے ساتھ میں ہے منتظر،
بس ایک ہی بھٹکے ہوئے بادل کے ٹکڑے کا،
کہ پھر اس عارضِ گُم گَشتہ سے پانی جو برسے گا،
مداوا ہوگا پھر اس سے میرے اس حوض کا لوگو!
بغیچے کے برابر میں کئی دن سے جو خالی ہے،
کہیں جو سرو قامت پیڑ ہیں ان کی بلندی سے،
کئی کم عمر، چھوٹے، نا تجربہ کار تارے،
دیکھ لو کہ خاک میں ملنے لگے ہیں اب،
سنائی دے تو پھر سن لو،
کہ بوسیدہ سے اس تالاب میں ہر رات کو، یہ مچھلیاں الغوث کہتی ہیں،

بغیچے میں اداسی ہے،
میرے بابا یہ کہتے ہیں،
میرا وقت آن پہنچا ہے،
میرا وقت آن پہنچا ہے،
میں اپنا بوجھ ڈھو آیا، میں اپنا کام کر گزرا،
اسی باعث تو صبح سے شام تک، چپ چاپ کمرے میں،
فقط شاہنامہ خوانی ہے یا پھر تاریخ پڑھتے ہیں،

میرے بابا، میری ماں سے یہ کہتے ہیں،
کہ تف ہے مچھلیوں پر اور ہر چڑیا پہ جو یاں ہے،
میں مر جاؤں تو،
اس سے فرق کیا ہوگا، بغیچہ ہو یا نہ ہو،
مجھ کو بس پنشن ہی کافی ہے،

میری ماں زندگی کا جس کی محور ایک سجادہ،
وہ وحشت ناک دوزخ کی تباہ کاری سے خائف، ڈھونڈتی ہے معصیت کے نقشِ پا ہر چیز میں گھر کی،
وہ کہتی ہے،
بغیچے کی خرابی ایک پودے کے گناہوں کا نتیجہ ہے،

میری ماں نفسِ امارہ کی ماری ہے،
وہ زیرِ لب دعائیں عجز سے کرتی ہے سارا دن،
اسے پھر پھونکتی جاتی ہے گل پر، مچھلیوں پر،
اور پھر خود پر،
کسی موعود کا اور اس کی بخشش کا اسے ہے انتظار آخر،

میرے بھائی کو باغیچہ یہ قبرستان لگتا ہے،
مصیبت پر وہ سبزے کی دوانہ وار ہنستا ہے،
وہ بے رحمی سے اس چھوٹے سے جوہڑ میں تمام مرنے والی مچھلیوں کو گنتا جاتا ہے،
اسے جو فلسفہ سے عشق ہے، کہتا ہے پہلے باغ اجڑے گا،
بغیچہ خوب پھل پھولے گا پھر جاکر،
میرا بھائی نشے میں سب در و دیوار پیٹے ہے،
وہ کہتا ہے کہ میں ہوں درمند، و خستہ و مایوس،
اسی حالت میں ہر جا، کوچہ و بازار جاتا ہے،
قلم، دفتر، رومال، لائٹر کی طرح غم ہے اس کے پاس،
لیکن اس کا غم ہے اتنا کم، کہ میکدے کی بھیڑ میں جلدی سے مٹ جائے،

میری بہنا کبھی جو دوست تھی پیارے سے پھولوں کی،
وہ اپنے دل کا غم، اس سادہ وخاموش مجلس کو سناتی
جب بھی وہ اماں سے میری، مار کھاتی،
اور کبھی تو مچھلیوں کو کیک کا چورہ و تازی دھوپ کھلواتی،
وہ دور افتادہ مصنوعی سے اک گھر کی مکیں ہے اب،
اسی جیسے ہیں اس کا شوہر، اور پیڑ، لال رنگی مچھلیاں بھی، اور بچے بھی،
وہ جب بھی اپنے میکے میں، ہمیں جو ملنے آتی ہے، نئے بچے بھی لاتی ہے، اگر اب اس کا دامن اس خرابے سے ذرا بھی مس جو ہوجائے،
تو خوشبو میں نہاتی ہے،

بغیچے میں اداسی ہے،
بغیچے میں اداسی ہے،

یہ پورا دن ہی بند دروازے ہیں اور ان کے پیچھے سے،
مسلسل کاٹنے، پھٹنے، دھماکوں کی صداؤں سے،
زمیں کا سینہ، ہمسائے، بم و بارود سے بھر کر،
بجائے پھول کے، تالاب میں بندوق رکھتے ہیں،
کوئی ان چھوٹے بچوں کے ذرا بستوں کو دیکھو، ان میں دستی بم بھرے ہیں،
اور
بغیچہ مضطرب ہے،
اور میں اس دل کے کھو جانے سے ڈرتی ہوں،
میں چہروں میں چھپی بیگانگی سے، اور کاہل ہاتھ کی بے چارگی سے لرزاں ہوں،

میں تو اسکول میں بڑھتے ہوئے بچے کی ہوں مانند،
جسے ڈبیا، ریاضی کی کتابیں جس کو پیاری ہیں،
میں تنہا ہوں،
علاجِ گل کرانے کو کوئی نبّاض مل جائے،
میں یہ سوچوں،
میں یہ سوچوں،
بغیچے کا جگر گرمی میں کچھ کمہلا گیا شاید،
بغیچہ دھوپ کی شدت سے کھو بیٹھا ہے رعنائی،

از فروغ فرخزاد،

Advertisements
julia rana solicitors london

ترجمہ
محمد علی جعفری،
25 ستمبر، 2022، بروز اتوار۔

Facebook Comments

محمد علی
علم کو خونِ رگِِِ جاں بنانا چاہتاہوں اور آسمان اوڑھ کے سوتا ہوں ماسٹرز کر رہا ہوں قانون میں اور خونچکاں خامہ فرسا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply