پربت کی مخمور پون محسوس کرے ماٹی کا بدن تو کچے سے کچنار کنول کے ، پات پہ اترے چاند کی ،البیلی سی کرن تب من کا پپیہا ، بول اُٹھے الہڑ سا کوئی بے داغ سخن تب مست چناروں← مزید پڑھیے
سو برس کا میں کب تھا، منشی ِ وقت؟ کب نہیں تھے؟ ذرا بتاؤ تو تم یقیناً کہو گے، بچپن میں کھیلنے کودنے میں وقت کٹا جب شباب آیا تو ؟۔۔کہو، ہاں کہو کیا برومند، شیر مست ہوئے؟ کیا جفا← مزید پڑھیے
چند سطریں ، کچھ جملے ،چند اک لفظ ہیں جو کہ بھنور بنے ہیں نظر دریچوں درزوں سے چھن چھن کر آتی جذبوں کی اک، تیز شعاع میں اندھی خواہش کے ذرّوں کو رینگتا اور مسلسل، اُڑتا ہردم شور مچاتا← مزید پڑھیے
لکھا کرے کوئی احکام ِ طالع ِ مولود کسے خبر ہے کہ واں جُنبش ِ قلم کیا ہے (غالب) —————— ستیہ پال آنند “لکھا کرے کوئی احکام ِ طالع ِ مولود” حضور، “کوئی” سے آخر مراد کیا ہے یہاں؟ مر← مزید پڑھیے
“ملامتی ہوں” صوفیوں کے ملامتیہ فرقہ کے ایک فرد کے بارے میں ہے، جو واحد متکلم “میں” First Person Pronoun کے فارمیٹ میں لکھی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ “انا” کو ختم کرنے کے ہزاروں اقدام کے بعد کیا← مزید پڑھیے
گر بہ معنی نہ رسی جلوہ ٔ صورت چہ کم است خم ِ زلف و شکن طرف ِ کلاہے دریاب غالبؔ کی نیک روح سے معذرت کے ساتھ کہ اس نظم میں اس کمترین شاعر ستیہ پال آنند نے غالبؔ← مزید پڑھیے
بادل کی آنکھوں میں آنسو بادل کی آنکھوں میں جلتے گنتی کے کچھ آنسو ہی تھے ڈھلک گئے تو اس کو راحت کا کچھ کچھ احساس ہوا، پر نیچے دھرتی پر تو جیسے آگ لگ گئی ایک جھڑی سے دھوپ← مزید پڑھیے
میں ہوتا اس دور میں تو سلوا ـ ن کو اتنا کہہ ہی دیتا چودہ برس کی کونج کنواری ٹھنڈی آگ کو اس گھر میں مت لاؤ، راجہ جس میں بارہ تیرہ برس کا ایک کھلندڑا بالک بھی رہتا ہے← مزید پڑھیے
دس سر والے راونؔ کے کندھوں پر میں نے اپنا سر بھی ٹانک دیا ہے اب دیکھیں، گیارہ سر والے نئے نویلے شکتی مان راون کو ہرانے کون آئے گا؟ رامؔ بھلا کیسے کاٹے گا راون کے دس کے دس← مزید پڑھیے
یہ نظم میں نے اپنی موت کے بعد لکھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ سر پھرا ، پاگل تھا وہ اک شخص جس نے دل کے بیت المال سے حاصل شدہ الفاظ کے عمدہ، نمو پرور لہو سے شاعری کی پرورش کی تھی← مزید پڑھیے
مری چشم بینا سے پٹّی تو کھولو مجھے دیکھنے دو یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہاں جنگ کی آگ میں جلتے ملکوں سے بھاگے ہوئے مرد و زن، صد ہزاروں سمندر کی بے رحم لہروں میں غرق ِ اجل ہو← مزید پڑھیے
مرنے والے تو سب یوکرینی ہیں، لیکن کوئی یہ بتائے کہ یہ آگ اس ملک میں کس عدو نے لگائی۔۔۔کہ ہے کون جو پھوس کے ڈھیر پرتیل لحظہ بہ لحظ چھڑکتا چلا آ رہا ہے؟ مغربی طاقتوں نےیہ ترغیب دی← مزید پڑھیے
گذشتہ برس کی اس نظم نے کئی دوستوں کو رُلا دیا تھا۔ میں تو اسے بھول گیا تھا لیکن کابل سے آنے والی تاذہ ترین خبروں میں عورتوں کے حقوق کی پامالی اب برداشت کی حد سے آگے بڑھ چکی← مزید پڑھیے
پرانے زمانے میں، (تم ہی بتاؤ) کہاں تھے یہ مشروب دونوں؟ نہ ’’کافی‘‘، نہ چائے۔۔۔ فقط شوربہ، دودھ، یا سُوپ (بد ذایقہ، بکبکا، ترش، کھٹّا) کبھی گھر کے’’ ـلاہن‘‘کا ’’دس نمبری‘‘ تیز ٹھرّا ‘ یہی سب تھیں پینے کی چیزیں← مزید پڑھیے
اپنے چہرے پر ’مکھوٹا‘ ِسا چڑھانا ایک جھوٹی شخصیت سب کو دکھانا یہ تھا میرا ’’ـچھُپ چھُپاؤ ـ ‘‘ کھیل بچپن کا جسے میں کھیلتا آیا ہوں اپنی عمر ساری (اپنی اصلی شخصیت کی راز داری) پھر ہوا کچھ یوں۔← مزید پڑھیے
مجھے ضرورت نہیں ہے، مجھے ضرورت نہیں ہے اِس نئے نظام کی، اُس پرانے نظام کی نہ انتخابات کی نہ سیاسی جماعت کی نہ کسی شعبدہ بازکی نہ نئےامتحانات کی نہ ان کے منشوروں کی ،نہ ان کے نعروں کی← مزید پڑھیے
کھول یہ گانٹھوں بھری پوٹلی، اے ستیہ پال جانے کیا اس میں ہے پوشیدہ تری نظروں سے آج کا ’’کل‘‘ تو نہیں؟ ہو بھی تو مخفی ہی رہے کل‘‘ تو ’’ایمائی‘‘ ہے، ’’اَن دیکھا ‘ہے، ’در پردہ‘ہے’ ’ تُو، سر← مزید پڑھیے
زندگی میں کتنا ٹھہراؤ تھا! آہستہ آہستہ رواں دواں زندگی کوئی مسئلہ نہیں، کوئی پریشانی نہیں لیکن ذ ہن کہیں کھویا ہوا اور جسم ہمیشہ تھکا ہوا یہ بے چین سوچیں اور ٹوٹتے ہوئے انگ نہ پھولوں کی مہک، نہ← مزید پڑھیے
غالب کے۲ اشعار پر ریدکتیو اید ابسردم تکنیک سے استوار کی گئی نظم ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ قافیہ بندی صفحہٗ قرطاس پر بکھرے ہوئے الفاظ نا بینا تھے شاید ڈگمگاتے، گرتے پڑتے کچھ گماں اور کچھ یقیں سے آگے بڑھتے پیچھے← مزید پڑھیے
سوال مسخ شدہ، بد زیب، اُوپرا چہرہ بد وضعی، بد زیبی کی تزئین میں اجبک کل کا حسن مثالی ۔۔۔آ ج کا بد ہیئت، بے ڈھنگا بول آ ئینے، کیا پیری کا یہی ہے چہرہ؟ جواب حجریات سے باہر نکلو،← مزید پڑھیے