شاعری

میسر ہو گیا آنکھوں کو پانی کربلا سے/اقتدارجاوید

میسر ہو گیا آنکھوں کو پانی کربلا سے         ہوئی آغاز آخر زندگانی کربلا سے محرم ہے سبھی آباد ہوتے جا رہے ہیں نہیں کرتا کوئی نقل ِ مکانی کربلا سے سنبھالے پھر رہی ہے آل نبیوں←  مزید پڑھیے

اندھا گونگا اور بہرا مر رہا ہوں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

نطق بے آواز تھا پگھلا ہوا سیسہ مرے کانوں کو بہرا کر چکا تھا صرف میری کور آنکھیں ہی تھیں جوگونگی زباں میں بولتی تھیں جب بھی میں بے نور آنکھوں کو اٹھا کر بات کرتا مورتی سنتی، مگر خاموش←  مزید پڑھیے

وِش کنیا/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

وِش کنیاـ بمعنی زہریلی لڑکی/قدیم ہندو لوک کہانیوں  اور کلاسیکی ہندو ادب میں اس روایت کا ذکر ملتا ہے کہ راجا  کے حکم سے زہریلی خوراک سے پرورش کی  ہوئی خوبصورت لڑکیوں کو سیاسی مقاصد کے لیے  یعنی حریف راجاؤں←  مزید پڑھیے

طوفان/غزالہ محسن رضوی

جیسے تیسے بھی گزری، گُزر ہی گئی آبِ رواں پہ لکھی کہانی جب انجام کو اپنے پہنچے اُس کو دہرایا نہیں کرتے مگر گاہے بگاہے کوئی سر کش لہر اَب بھی ساحل سے یہ پوچھتی ہے جب دیا بُجھ رہا←  مزید پڑھیے

تیری چاہ کے سب طلبگار/سیّد محمد زاہد

ترو تازہ گلشن کا سنگھار عشرت افزا چمن کا خمار پر بہار، حسین کنج سمن فردوس بریں دامن کہسار رودبار میں مچلتی ندیاں تیز رفتار و تیز دھار پہاڑوں سے لپٹتی آبشار یں بے حساب و بے شمار سرنگوں، خاموش،←  مزید پڑھیے

گاربیج آئی لینڈ/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

جزیرہ ،خس و خاشاک جب کُھلا، تو کُھلا کہ جیسے زیر ِ زمیں اک کباڑ خانہ ہو ہزار کونے تھے، کھدرے تھے، تنگ، تیرہ و تار شکستہ چیزوں کے انبار تھے تہ و بالا کچھ ایسی تیرگی تھی جس میں←  مزید پڑھیے

تم میرا ساتھ دو/سیّد محمد زاہد

کرب ہو، بلا ہو الم یا ایذا ہو قضا و قہر بھی برپا ہو سنبھال لوں گا میں بخت کی گرانی ہو مشکل زندگانی ہو آفت ناگہانی ہو، سنبھال لوں گا میں سب سنبھال لوں گا میں حیلہ گر عیار←  مزید پڑھیے

بھلا پروانوں کا بھی کوئی وارث ہوتا ہے؟-سیّد محمد زاہد

یہ سرخی جو حنا میں چھپی بیٹھی ہے کنوارے ارمانوں کا خون اس میں شامل ہے۔ رنگ افسردگی شامل ہے طوفان خیرگی شامل ہے ۔ پاؤں تلے مہندی لگا رہے ہو کف دست کو سجا رہے ہو ناکتخدا کی موت←  مزید پڑھیے

ٹھہرے موسم میں بکھرتی ہوئی نظم/حامد یزدانی

ٹھہرے موسم میں بکھرتی ہوئی نظم باغ کیا ہے نِرا بیاباں ہے شاعری حرف سے خفا ٹھہری آنکھ شاید ہے خواب سے گہری چاندنی چاند سے گریزاں ہے اک مگر جگمگا رہا ہے کوئی گوشۂ ضبط کی نمی سے پرے←  مزید پڑھیے

مرا انگوٹھا کہاں لگے گا؟-ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مرا انگوٹھا کہاں لگے گا؟ میں ایک ناخواندہ شخص لایا گیا ہوں جکڑا ہوا سلاسل سے اُس عدالت میں ۔۔ جس کا قانون، ضابطہ، دھرم شاستر شرع و شریعت ۔۔ مرے لیے حرف معتبر ہے! مگر میں جاہل گنوار، اس←  مزید پڑھیے

کائناتی وسعتیں /پروفیسر طارق احمد

میری اور تمہاری محبت زمیں اور آسماں کی مانند  ہے، جن کے درمیان  وسعتوں میں،صدیوں پر پھیلی مسافتوں میں زندگی اپنے انداز میں بہے جاتی ہے، دن نکلتے ہیں اور ڈھل جاتے ہیں، لوگ ملتے ہیں اور بدل جاتے ہیں،←  مزید پڑھیے

عزیز جاں اہل فلسطین کے نام پاکستان کی جانب سے /شازیہ ضیاء

اے عزیزانِ برادرانِ  فلسطین! آج ہم تمہیں اپنا احوالِ  دل سناتے ہیں تم غمگین ہوتے ہو اپنے شہیدوں پر تو آنسو ہم بھی بہاتے ہیں جو حق کی خاطر مر مٹ جائیں ان شہیدوں کا مگر نہیں سوگ مناتے ہیں←  مزید پڑھیے

جوابِ جاہلاں با شد خموشی۔۔۔صادقہ نصیر

جوابِ جاہلاں با شد خموشی چپ سی سادھ لی بہت گہری خموشی اس گمان میں کہ سب جاہل۔ میں قابل یا پاگل۔۔۔ اک خواہش آخر کہ سب قابل اور میں جاہل۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو جاؤں سوال کروں جہالت میں لتھڑا ہوا اور←  مزید پڑھیے

خزاں کی آگ/فیصل عظیم

رنگ اُترا ۔۔۔ لباس ننگ اُترا راہگیروں نے کیا نظر ڈالی شرم سے سرخ ہوگئے عارض جھرّیاں پڑ گئیں خجالت سے شاخساروں کی نیم عریانی دیکھی بھالی ہوا میں ٹھٹھری ہے وہ جو غازے کے محملوں میں تھی ہکّا بکّا،←  مزید پڑھیے

منظوم بُدھ کتھائیں(یسوع)-ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کچھ بودھی فرقوں کا یہ خیال تھا کہ گوتم بدھ اس جنم کے بعد آوا گون کی زنجیر سے آزاد نہیں ہوئے ۔ اس کے بعد ان کا ایک اور جنم ہوا، جس میں وہ دار پر مصلوب کیے گئے۔۔۔یہ←  مزید پڑھیے

مقامی بچوں کو انگریزی نہیں آتی/شہناز شورو

ہمارے بڑے شہر کے خانگی اسکول کے استادوں نے ایک بچے کو ذلیل کرتے ہوئے کہا “تمہیں انگریزی نہیں آتی” پھر اس کے چہرے پر کالا داغ لگایا کالا رنگ جو ہمارے پاس ذلت کا نشان ہے کہ یہ زمیں←  مزید پڑھیے

منظوم بُدھ کتھائیں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

شہر کی اک خوبصورت نرتکی نے خوبرو آنند کو باہوں میں بھر کر یہ کہا، “تم سَنگھ سے باہر چلے آؤ یہ میری دولت و ثروت ،یہ جاہ و حشم،یہ اونچا محل اور سب بڑھ کر مَیں، تمہارے منتظر ہیں!←  مزید پڑھیے

غزل/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

قرنوں سے بڑے زود گذر ثانیے، رُک جا خود تک مجھے جانے میں ابھی وقت لگے گا تھم سی گئی تھیں نبضیں زمان و مکان کی اِک حادثہ ایسا بھی مرے ساتھ ہوا تھا نروان کا حصول ہو شاید تری←  مزید پڑھیے

غزل/میاں آصف افتخار الدین شاہ

باقی نہ رہا عشق ترے حُسنِ بیاں میں زیبا تو بہت، درد نہیں تیرے فغاں میں لڑتا ہے کبھی مصلحتوں سے بھی کوئی جنگ آہن ہی نہیں کچھ بھی ترے تیر، سناں میں دنیا ہے بہت خوب، یہاں دین سے←  مزید پڑھیے

15 اپریل کے نام/میاں آصف افتخار الدین شاہ

وہ وفا کی شمع بجھی نہیں، پہ جو شوق تھا وہ تو مر گیا وہ نہ کٹتا تھا جو ترے فراق میں، وقت وہ بھی گزر گیا تو مِلا نہیں جو کسی بھی خواب میں، تج دیا ترے خواب کو←  مزید پڑھیے