تاریخ کا اک نا نوشتہ باب ہوں میں۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اس جگہ ڈوبا تھا میں۔۔۔
ہاں، تین چوتھائی صدی پہلے
یہیں ڈوبا تھا میں
آج بھی میں تہہ میں اپنی آنکھیں کھولے
ایک ٹک تکتا ہوا اس آسماں کو دیکھتا ہوں
جس میں بادل کا کوئی آوارہ ٹکڑا
ایک لمحے کے لیے سائے کی چھتری تانتا ہے
اور مجھ پہ ترس کھا کرایک دو بوندیں گراتا
بے نیازی سے گذر جاتا ہے
جیسے جانتا ہو
زیر ِ سطح ِ آب کوئی غرق ہو ، تو
دھوپ اس کو کیا کہے گی؟

غور سے دیکھے کوئی اُڑتا ہو ا آوارہ طائر
تواسے شایدمرا چہرہ
(ذرا سا دھندلا، گیلا، مگر)
لہروں کے آبی چوکھٹے سے جھانکتا
ایسے نظر آئے گا، جیسے
روپ نے بہروپ کا چولا بدل کر
زیر ِ سطح ِ آب خود کو پا لیا ہو

کون سا دریا ہے جس میں ڈوب کر میں جی رہا ہوں؟
اغلباً ستلج؟
تپسّوی بیاسؔ کا ہم نام، بیاسا؟
عاشقوں کی آبجو، راوی؟
چنھاں ؟جو سوہنیوں کی ’آبگاہ‘ ہے
یا بھٹکتا، ٹھوکریں کھاتا ہوا، کشمیر کا فرزند جہلم؟

کوئی بھی ہو
آریوں کے ’’پنجند‘‘ اور آج کے’’ پنجاب‘‘ کی دھرتی کو دھوتے
پانچ پانڈو بھائیوں سے ایک تو ہے

مجھ کو مت ڈھونڈو کہ میں تو
ملک کی تاریخ کا اک نا نوشتہ باب ہوں
غرقاب ہوں
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نظم نمبر 2)
نوشتہ ٗگزشتگاں

وہ حرف ہائے گفتنی
جو لب پہ آ کے جم گئے
وہیں پہ گھُٹ کے مر گئے
میں آج کیسے لوح ِ سنگ پر لکھوں
کہ’ گفت‘ سے’ قلم‘ تلک کا راستہ ہی بند ہے
مجھے تو نحو و صرف کے رموز کا پتہ نہیں
کہ میں تو ’ورن مالا‘ ۱؎کی کلید سے
زباں کے قفل ِ ابجدی ۲؎ کو کھولنے کا راز جانتا نہیں

درست ہے کہ تیس صدیاں پیشتر
جو اکھشروں کی سات لڑیاں میں نے خود پروئی تھیں۔۔۔
وہ موتیوں سی کھنکھنا تی، صاف صاف بولتی
سنائی دے رہی ہیں آج بھی مجھے
مگر حروف آوری کا کچھ پتہ نہیں، کہ میں
انہیں لکھوں، پڑھوں، انہیں حقیقتاً سمجھ سکوں
درست ہے کہ میں نے ہی ’’مہَور‘‘ ۳؎ نام کے نگر میں بیٹھ کر
کلام ، نطق، گفتگو کو چھان کر
حروف کو عبارتوں میں ڈھال کر
قواعد و رموز کوچلن دیا
درست ہے کہ میں نے آدی کال میں ۴؎
بجا کے ڈمرُوٗوں کو
ان کی ایک ایک دف دُہُل کی تھاپ سے
زباںکی صوت و بانگ میں ڈھلی ہوئی
لبوں کی گنگناہٹوں سے
نطق، دانت، تالُو اور ناک کی
صدا ؤں کو شناخت دی
انہیں قلم سے ابجدی حروف میں بدل دیا

درست ہے یہ سب مگر
نوشتہ ٗ گزشتگاں کی خواندگی مرے لیے محال ہے
کہ میں تو نا بلد ہوں آج اُس زباں کے ابجدی حروف سے
جنہیں مری ہی پُشتا پُشت پیڑھیوں نے
براھمی” حروف میں لکھا تھا آدی کال میں”

Advertisements
julia rana solicitors

میں کیسے اس نوشتہ ٗ گزشتگاں کو اب پڑھوں
کہ میَں تو ’ورن مالا‘ جانتا نہیں
۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱ ؎ ’’ورن مالا بمعنی “ابجد
۲ ؎ ’’ابجدی قفل‘‘ ۔ تالا جسے ابجد کے حروف کے ’کوڈ‘ سے کھولا جاتا ہے
۳ ؎ ’’مہور‘‘۔ لاہور یا اس کے ایک قریبی گائوں کا قدیم نام، جہاں سنسکرت عالم’’ پانینی‘‘ؔنے پہلی گرائمر ترتیب دی تھی”
۴؎ آدی کال‘‘ ۔ قدیم ترین دورانیہ”

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply