قصہ چہار درویش جدید ۔۔۔۔ احمد رضوان

(پہلا حصہ)

دوسری دفعہ بلکہ سوا دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ تھا، آزاد بخت جو خوش بخت یا سکندر بخت کا بھائی نہیں تھا اور کسی دور پار کے ملک پر حکمران تھا اور اسکی سلطنت میں ہر طرف امن و امان کا دور دورہ ۔۔۔۔۔۔دور دور تک نہ تھا۔ ہر کوئی زندگی کے بس دن کاٹ رہا تھا ،سلطنت میں سب کچھ تھا مگر صرف بادشاہ سلامت اور امراء کے لئے ۔ ایک ہی دکھ تھا بادشاہ سلامت کو کہ اولاد کی نعمت سے محروم تھے اور چاہتے تھے مرحوم ہونے سے پہلے کسی طرح باپ بن جائیں، بھلے پاپ سے ہی کیوں نہ بنیں۔ شاہی حکماء کے تجویز کردہ معجون اور خمیرے اپنا اثر دکھانے میں بالکل ناکام رہے تھے اور بادشاہ مایوس ہو کر کاروبارِ حکومت سے دل برداشتہ اور بنا کسی داشتہ کے تارک ہوکر سب کی دنیا تاریک کرنے کے درپے تھا ۔

مصاحبین خاص بڑی بار اس نیلی گولی کے استعمال کا مشورہ دے چکے تھے جو بڑے بڑے ناکاروں کو سرخرو کرچکی تھی مگر سرکاری اطباء بلند فشار خون کے مرض کے چلتے ہر بار مناہی کردیتے اور بادشاہ سلامت دل مسوس اور کفِ افسوس مل کر رہ جاتے ۔ آخر ایک پرانے خدمتگار اور وفادار نے جو بادشاہ کے باوا حضورکے دور سے ان کے پوتڑے بدلوانے سے رسمِ مسلمانی تک سارے افعالِ کبیدہ کا شاہدِ تھا، مشورہ دیا، حضور یا تو دیس بدلیں یا بھیس بدلیں ، بادشاہ کو بھیس بدلنے کا مشورہ دل کو لگا کہ دیس بدلنے اور دیارِ غیر میں امیگریشن لینے سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس نے اہل مغرب کے سابقہ بادشاہوں سے روا رکھے سلوک کے بارے سن رکھا تھا شاہِ ایران و افغانستان سے مصر کے شاہ فاروق تک جس نے کہا تھا دنیا پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب زمین پر کل پانچ بادشاہ رہ جائیں گے چار تاش کے اور ایک تاج برطانیہ کا والی وارث۔ ساتھ ہی ساتھ اس قافیہ ملانے کے شوقین نے ایک اور چھکا مارا کہ اپنا بھیس جب بدلیں تو حلقہ اور ملکہ میں سے ملکہ کو تو آپ بدل نہ سکیں گے کہ اس سارے تام جھام ، سبو و جام کا انتظام و انصرام ملکہ کے بھائیوں کامہیا کردہ ہے، ہاں حلقہ احباب ضرور بدل لیں ۔ نہیں تو جان حلقوم میں اٹک جائے گی ۔

بادشاہ کو اس وزیر باتدبیر کے دونوں مشورے پسند آئے ۔ تو ایک اندھیری رات بھیس بدل کر قلعے کی ایک نسبتاََ کم پہرے والی جگہ سے ایک پہرے دار کی مٹھی گرم کرکے اس وعدے پر فصیلِ شہر سے باہر نکل گیا کہ صبح نور اور ہانڈیوں کو لگنے والے تڑکے سے پہلے واپس آجائے گا ۔ بگٹٹ گھوڑا دوڑاتے دوڑاتےجب گھوڑے کی ٹانگیں اور اپنی جانگھیں بالکل جواب دے گئیں تو یاد آیا جلدی میں گھوڑے پر زین اور خود کاؤ بوائے جین پہننا بھول گئے تھے جس کا نتیجہ لاگا لگنے کی صورت برآمد ہوا اور چال یوں بدلی جیسے نو بیاہتا چلے۔پیاس سے نڈھال جنگل کے قریب ایک باؤلی پر نظر پڑی جہاں کسی گل بکاؤلی کا پرچھاواں بھی نہیں تھا،اپنی اور گھوڑے کی پیاس بجھا کر اسے گھاس چرنے کھلا چھوڑ دیا اور خود ٹانگیں پھیلائے ایک پیڑ کے تنے سے ٹیک لگا کر استراحت کا قصد کیا ہی تھا کہ کانوں میں ہلکی ہلکی سرگوشیوں کی آوازیں اور نتھنوں میں چرس کی مخصوص بو ٹکرائی ، بادشاہ کی آنکھوں کی چمک اور گالوں کی پچک کچھ اور بڑھ گئی کہ رات میں بن گئی بات، جوڑا تو ملے گا کش لگانے کو۔ ذرا قریب ہو کر سن گن لینے کی کوشش کی تو عقدہ کھلا کہ چار ملنگ نما درویش آلتی پالتی مارے بیٹھے دھوئیں کے مرغولے بنا بنا کر چھوڑ رہے ہیں ۔ مزید قریب ہونے پر معلوم ہوا کہ پہلا درویش اپنی زندگی کی کہانی شروع کر رہا تھا۔

قصہ اول درویش ۔۔۔۔۔۔۔۔

ابن بطوطا پہلا چگی داڑھی والا درویش گویا ہوا، میں اپنے والد کی اولاد نرینہ تھا اور بڑے نازونعم میں پلا ،ایک بڑی بہن تھی جس کی شادی اپنے ہاتھوں قبلہ والد صاحب سرانجام دے کر بوجھ ہلکا کرچکے تھے ،ابھی میں ۱۴ کا تھا تو فادر صاحب دنیا سے گذر گئے اور ساری دولت اور تجارت کا والی وارث بالی عمریا میں مجھے مقرر کر دیا گیا۔ پیسے کی ریل پیل نے زمانے کی دھکم پیل سے محفوظ و مامون رکھا ، مسیں بھیگنا شروع ہوئیں تھیں کہ ایسے دوست مل گئے جنہوں نے مجھے شراب، شباب اور بن کباب پر لگا دیا۔ میں تو سب تھوڑا تھوڑا چکھتا، میرے پیسے پر عیاشی وہ سب کرتے مگر تابہ کے ، یوں تو قارون بھی اگر کرپٹ ہوجاتا تو چند دنوں میں بنک کرپٹ ہوجاتا، میری کیا اوقات تھی ۔ جان کے لالے اور گھر پر تالے پڑ گئے۔ دنوں میں سڑک پر آگیا۔ ایک بہن کا آسرا نظرآرہا تھا، بے شرم بن کر چل پڑا خود کو تسلی دے کر کہ زمانہ کہتا ہے تو کہتا رہے ساس کے گھر جوائی اور بہن کے گھر بھائی اصحاب کہف کا ساتھی ہوتا ہے۔ بہن بھائی کو دیکھ کر رنجیدہ ہوئی پھر دلاسہ اور زاد راہ دے کر تجارت پر روانہ کردیا ، ملکوں ملکوں گھومتے ایک بڑے شہر کے قریب پہنچا تو شام پڑ چکی تھی اورفصیل بند ہوچکی تھی ، رات کاٹنے کے واسطے باہر ہی ٹھہر گیا ، آدھی رات کے قریب ایک صندوق فصیل سے نیچے گرا دولت سمجھ کر اٹھایا تو اندر سے ایک زخمی حسینہ برامد ہوئی، صبح صندوق لئے شہر میں جا ٹھہرا اور علاج معالجہ کرانا شروع کردیا، چند دن میں روبہ صحت ہوئی تو کیا جمال اور تمکنت تھی۔ میں تو ہزار جان سے عاشق بٹالوی ہوگیا مگر ادھر سے نولفٹ جب تک نہ دوں گفٹ والا معاملہ تھا ، ایک دن مجھے ایک سرائے بھیجا جہاں ایک دیوزاد نما انسان نے مجھے اشرفیوں سے بھرے توڑے دیے ،لاکر پیش کیے تو حکم ملا فلاں حویلی کے صاحب سے دوستی کرو اور انہیں یہاں مدعوکرو ۔ دیکھا تو صاحبِ حویلی ایک الٹے توے جیسی لونڈی پر لٹو تھے جس کا سارا حسن اسکی آواز میں تھا ، دونوں کو لئے دولت خانے حاضر ہوا، رات خوب ناؤ نوش اور ہاؤہو میں سب تھک ہار کر سوگئے، صبح اٹھا تو مہمان اور اسکی کنیز کی سربریدہ لاشیں دیکھ کر چیخیں نکل گئیں اور حسینہ بھی غائب تھی، بڑی مشکل سے قاضی اور کوتوال کا منہ موتیوں سے بھر کر جان بخشی ہوئی مگر مال سارا چلا گیا ، کنگال مجنوں بنا بال بڑھائے گھومتے گھومتے اک نگر جانکلا ، کیا دیکھتا ہوں وہی آدم زاد ایک محل کے باہر ٹہل رہا ہے،رہا نہ گیا فوراََ پوچھا یہاں کیسے ؟ اور حسینہ کا اتاپتا؟ بولا اندر ہی ہے۔ ملانے کا بولا تو مہمان خانے بھیج دیا ۔ تین دن پڑا اینڈتا رہا مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی، چوتھی رات باد بہار بن کر وہ چلی آئی۔ جو میرا یہ حال دیکھا تو اندر لے گئی ،حجام سے اپائنٹمنٹ لی جو ایک دن بعد ملی اس نے پھر سے انسانی روپ دیا ۔ واپس آنے پر اس حسینہ نے اپنی رام کتھا سنائی کہ وہ شہزادی تھی اور اس قتل ہونے والے آدمی کی محبت میں پاگل تھی۔ اسے بچپن میں اپنے گھر لاکر بڑا کیا ،تجارت کروائی ،حویلی دلوائی مگر وہ اس کالی کلوٹی پر فدا ہوگیا اور دھوکے سے مجھے بلا کر رات کو اپنی طرف سے مار کر فصیل سے نیچے پھینک دیا مگر زندگی بڑھی تھی جو تم نے بچا لیا۔ میں نے دل کی بات بتائی تو شادی پر رضامند ہوگئی ۔ ہنی مون پر نکلے تو ایک مقام پر پڑاؤ کیا ، صبح دم شہزادی کو پھر غائب پایا ، بہت ڈھونڈھا نہ ملی تو جان دینے پہاڑ پر چڑھ گیا ، ایک سبز پوش بزرگ نے یہاں کا پتہ دے کر بھیج دیا کہ تمہاری ملاقات ۳ اور درویشوں اور بادشاہ سے ہوگی اور تمہاری مشکل حل ہوگی ، اب آپ لوگن کے سامنے بیٹھا ہوں ،دیکھتے ہیں کب بادشاہ سے ملاقات ہووے اور عقدہ حل ہو۔ بادشاہ دل ہی دل میں خوش ہوا ،اتنی دیر میں دوسرا درویش سٹارٹ لے چکا تھا۔

قصہ درویش دوم

حاتم طائی کی قبر پر لات۔ صاحبو یہ فقیر ملک فارس کا بادشاہ ہے اور حاتم کی تائی سے متاثر ہوکر اس حال کو پہنچا ہے ، ہوا یوں کہ حاتم کی سخاوت کے قصے سن سن کر میں بھی سرکاری مال سے لوگوں کی خدمت دن رات کرنے لگا کہ لوگ مجھے یاد رکھیں۔ مال کم تھا اور مانگنے والے بے انت ۔ ایک بار ایک فقیر آیا جس نے ایک دوسرے ملک کی ملکہ کے بارے میں بتایا جس کی دریادلی سب کو مات دے گئی تھی ،تجسس میں دربار اور امور اپنے مصاحبین کے سپرد کرکے نکل کھڑا ہوا،وہاں پہنچا تو یہی ماجرا پایا۔ ملکہ کو پیغامِ عقد بھیجا کہ یہ میرا پسندیدہ پاس ٹائم ہے۔۔۔۔ جی ہاں عقد پر عقد، ادھار یا نقد ۔ ملکہ کی طرف سے ایک شرط رکھی گئی آئی ایم ایف کی طرح کہ پہلے اس سوال کا جواب لاؤ۔ سوال اس آدمی کے بارے تھا جو ہر ماہ ایک بیل پر سوار آتا تھا اور کسی کی گردن کاٹ کر نکل جاتا تھا بنا کوئی بات کیے ۔ خیر بڑی تگ و دو کے بعد اس آدمی تک رسائی مانگی ،اس کی کہانی سنی تو وہ خود میری طرح کا حسن پرست تھا اور کسی پری کی محبت کا مارا ہوا جو اسے شربت وصل پلانے سے پہلے ہی غائب ہوگئی اور وہ اس کے بچھائے ہوئے طلسم کا اسیر ہوگیا۔ اب اگر وہ پری کہیں سے مل جاتی تو دوبارہ نارمل زندگی شروع کرسکتا ، اس کے منت ترلے سے میرا دل پسیجا اور میں نے اس کام کی ہامی بھر لی جس کے لئے ہر زبان میں بہت برا لفظ ہے مگر ملکہ اور اسکی دولت پانے کے لئے ذلت کایہ ٹھیکرا اٹھا کر نگر نگر گھومتے گھومتے ایک سبز پوش کی رہنمائی نے یہاں بھیج دیا کہ تیرا پرابلم بھی یہیں حل ہوگا ۔ دوسرے فقیر نے اپنی کتھا ختم کرکے حقہ بجھادیا اور سب اپنی اپنی دریوں پر لیٹ کر رات کے آخری پہر انٹاغفیل ہوگئے ۔ بادشاہ جاتی ہوئی رات اور ادھوری کہانی سے مایوس بے نیل مرام واپس محل لوٹ آیا۔ اگلی صبح اپنی سپاہ کو چاروں کو پیش کرنے کا حکم دیا ، درویش آنکھیں ملتے اور خارش کرتے دربار میں آہ وبکا کرتے پیش ہوئےکہ سپاہیوں نے سارا مال پانی چھین لیا ، خیر ان کی تسلی و تشفی کی اور چونکہ جان چکا تھا سب بڑے لوگ ہیں اس لیے عزت سے کرسی پر بٹھایا اور رات جو بات ہورہی تھی کے بارے جب ان کو بتایا تو خوش بھی ہوئے افسردہ بھی کہ کاش وہیں مل لیتے تو اکٹھے لگا کے دم بھلا دیتے غم۔ بادشاہ نے تسلی دی اسے بھی اپنا ڈیرہ ہی سمجھو اور جلدی سے باقی رہ جانے والے درویش اپنی اپنی کہانی سنائیں اس سے پہلے پڑھنے والے بور ہوکر کجھ ہور کرنے کے بارے سوچنا شروع کر دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply