زومبی حقیقت یا فکشن۔۔ڈاکٹر حفیظ الحسن

اکٹر آپ نے ہالی وڈ کی فلموں میں زومبی دیکھے ہونگے۔ فلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ زومبی دراصل چلتی پھرتی گلی سڑی لاشیں ہوتی ہیں جو کسی وائرس کے پھیلاؤ سے، یا کسی اور زومبی کے کسی نارمل انسان کو کاٹنے سے بن جاتے ہیں۔ زومبیوں میں سوچنے سمجھنے یا ماحول کی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ اّن میں صرف ایک ہی صلاحیت ہوتی ہے۔ بندہ یا گوشت کھانا۔ زومبی کا تصور انسانی تہذیبوں میں کب آیا اور یہ فلموں میں کب نمودار ہوئے؟ پہلے یہ جانتے ہیں۔
آثارِ قدیمہ کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ قدیم یونانیوں میں زومبی یعنی مرنے کے بعد دوبارہ چلنے پھرنے والے مردوں کا خوف موجود تھا۔ اّنہیں یہ کیسے معلوم ہوا؟ کئی علاقوں سے ایسی قبریں ملی ہیں جن میں ڈھانچوں کے اوپر بڑے بڑے پتھر رکھے جاتے تھے۔ غالباً اس خیال سے کہ مردے دوبارہ سے چلنا شروع نہ ہو جائیں۔
ماضی قریب میں دیکھیں تو شاید ستروییں صدی میں زومبی سے متعلق لوک داستانیں شمالی امریکہ کے ملک ہائیٹی میں ملتی ہیں۔ جہاں گنے کی کاشت کے لئے افریقہ سے غلام لائے جاتے۔ ان داستانوں میں زومبی ایک طرح سے ان غلاموں کی مشکل زندگی یا مر کر کی آزاد ہونے کی تشبیہ کے طور پر استعمال ہوتی۔
مغربی افریقہ ، برازیل اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں ‘ووڈو” مذہب کے ماننے والوں میں بھی زومبی کا تصور ہایا جاتا ہے۔ ان میں کچھ کا یہ ماننا ہے کہ اس مذہب کے پیشوا جنہیں “بوکور” کہا جاتا ہے, وہ جڑی بوٹیوں، ہڈیوں اور جانوروں کے گوشت سے ایک سفوف سا تیار کرتے ہیں جس سے انسان زومبی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس سفوف کو زومبی پاؤڈر کہتے ہیں۔
سائنس اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ اگر کسی شخص کو ایک خاص طرح کا کیمکل جو شاید زومبی پاؤڈر میں بھی موجود ہو، جسے tetrodotoxin کہتے ہیں۔ اگر اسکی معمولی مقدار دی جائے تو چند ایسی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں جن سے ںظاہر ایک انسان زومبی سا دکھے یعنی اُسے چلنے پھرنے میں دشواری ہو، سانس اُکھڑنا شروع ہو جائے یا وہ کنفوژن کا شکار ہو جائے۔ اس کیمیکل کے زیادہ استعمال سے انسان کوما میں بھی جا سکتا ہے یا مر بھی سکتا ہے۔
البتہ جس طرح سے فلموں میں زومبی دکھائے جاتے ہیں انکا سائنس میں کوئی ٹبوت نہیں ۔یہ محض فکشن ہے۔ زومبی کے تصور نے جدید دور میں اُس وقت زور پکڑا جب 1962 میں ایک فلم آئی Night of the Living Dead۔ اس فلم کی مقبولیت کے بعد ہالی وڈ میں اب تک کئی فلمیں بن چکی ہیں جن میں زومبی دکھائے جاتے ہیں۔ ان فلموں میں موجود زومبی چلتی پھرتی لاشیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہیں۔
نوٹ: اس تحریر میں کسی بھی طرح کی مماثلت محض اتفاقیہ یا پچھتر سالہ پالیسیوں کا نتیجہ ہو گی۔ بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply